بالآخر وہ سیاسی ملاقات ہو ہی گئی جس کے نہ ہونے کا اکثر میڈیا میں تذکرہ ہوتا رہتا تھا ۔گزشتہ برس مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چودھری شجاعت حسین کی صحت کامعاملہ بگڑ گیا تو وہ علاج کے لیے بیرون ملک چلے گئے ، اس دوران چودھری برادران کو توقع تھی کہ وزیر اعظم عمران خان جوان کے اتحادی بھی ہیں کم از کم مزاج پرسی کے لیے فون ضرور کھڑکائیں گے لیکن خان صا حب نے ایسا نہیں کیا ۔ چودھری برادران بالخصوص چودھری شجاعت حسین اس معاملے میں خا صے حسا س واقع ہوئے ہیں ۔
چودھری شجاعت خود اس حد تک وضع دار ہیں کہ وہ ذاتیات کو سیاست میں لانے کے قائل نہیں ہیں ۔ میاں نواز شریف کے والد میاں محمد شریف ،بھائی عباس شریف ،بیگم کلثوم نوازیا کسی اور عزیز کا انتقال ہواتو وہ اختلافات کو پس پشت ڈال کر بنفس نفیس خود تعزیت کے لیے گئے۔ چودھری صاحب سیاست میں انتقام کے شدید مخالف ہیں ۔ میاں نوازشریف نے اپنے دوسرے دوروزارت عظمیٰ میں سیف الرحمن کی سربراہی میںبدنام زما نہ احتساب بیورو کی بنیاد رکھی تو چودھری شجاعت نے جو ا س وقت وزیر داخلہ تھے اس کی بھرپور مخالفت کی ۔ ایک ملاقات میں مجھے کہنے لگے کہ میاں نواز شریف جو کچھ بورہے ہیں انہیں ایک دن کاٹنا پڑے گا اور اس قسم کے انتقامی نوعیت کے مقدمات ان کے خلا ف بھی بنیں گے ۔میاں صاحب اس وقت اقتدار کے گھوڑے پرسرپٹ دوڑرہے تھے، انہوں نے چودھری شجاعت کی بات پر کان نہ دھرے اور پھر واقعی تاریخ نے خود کو دہرایا ۔
چودھری شجاعت کی اس روایتی وضعداری کا بین ثبوت وہ واقعہ تھا جب جنرل پرویز مشرف کے دور میں شہبازشریف اورنواز شریف پہلے ہی پابند سلاسل تھے، ایک روز شریف فیملی کو خبر ملی کہ شہبا زشریف کی اہلیہ نصرت شہباز کو بھی گرفتار کیا جا رہا ہے۔ شریف فیملی کے بزرگوارمجید نظامی کے سا تھ قریبی تعلقات تھے، مجید نظامی نے انہیں فون کیا کہ آپ میرے گھر آ جائیں ۔ جب چودھری شجاعت کو صورتحال کا علم ہو اتو وہ مجید نظامی کے گھر پہنچ گئے اور وہاں سے نصرت شہباز اوران کی صاحبزادی کو اپنے گھر لے گئے اور کہا میں دیکھتا ہوںکون انہیں ہاتھ لگاتا ہے ۔ ظاہر ہے سیاست میں ایسی روایا ت رکھنے کے ساتھ وہ اپنے اتحادیوں سے توقع رکھتے ہیں
کہ وہ بھی ایسی وضع داری کا مظاہرہ کریں۔
چودھری شجاعت کو ذاتی سطح پر عمران خان کے اس رویئے سے سخت شکایت رہی ہے ۔کچھ عرصہ پہلے چودھری برادران نے مجھے اپنے گھر مدعو کیا اور کہا آپ سے کھل کر باتیں کرنی ہیں، میں حاضر ہو گیا ،وہاں چودھری شجا عت، پرویز الہٰی اور مونس الہٰی بھی موجود تھے۔چودھری صا حب نے گلہ کیا کہ وہ جرمنی میں زیر علاج تھے تو آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ تک نے بھی فون پر خیریت دریافت کی لیکن عمران خان نے یہ کرم فرمائی بھی نہیں کی ۔ اس پرمیں نے چودھری صاحب سے پوچھا کہ آپ کااختلاف کیا ہے تو جواب دیا اختلاف کچھ بھی ہو لیکن ذاتی طور پر وضع داری دکھانی چاہیے ۔اس موقع پر مونس الٰہی پھٹ پڑے، انہوں نے انکشاف کیا کہ ان کے ساتھ اتحادکے وقت جو وعد ے کئے گئے تھے
ان میں سے کوئی بھی پورا نہیں کیا گیا ،ہمارے علاقے میں ہمارے مخالفین کو تعینات کیا گیا، مقامی انتظامیہ ہماری بات نہیں سنتی ،ارکان اسمبلی کے طور پر جو فنڈز ملتے ہیں وہ بھی نہیں دیئے جا رہے۔ اس پرمیں نے کہا آ پ سے تو مونس الہٰی کو وزیر بنانے کا بھی وعدہ کیا گیا تھا جس پر وہ بولے اس سے چودھری صا حب دستبردار ہو گئے تھے ۔ باخبر ذرائع کے مطابق عمران خان حکومت سنبھالنے کے بعدمونس الٰہی کووزیر بنانے کے وعدے سے پیچھے ہٹ گئے تھے اور پیشکش کی تھی کہ آپ شافع حسین کو وزیر بنا لیں ۔اسی روز میری جہانگیر ترین سے ملاقات ہوئی، میں نے چودھری شجاعت کے گلے شکوے بتائے تو شاید عمران خان کے حکم پر ہی وہ شام کو چودھری شجاعت کی عیادت کیلئے ان کی اقامت گاہ پہنچ گئے۔ غالبا ً عمران خان وضعداری کے اس کلچر سے نابلد ہیں ۔یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ خان صاحب نے کو تا ہی برتی ہو،وہ اپنے عزیز ترین دوست عا شق قریشی کے جنازے میں شریک نہیں ہوئے، نعیم الحق کی میت کو بھی کندھا نہیں دیا، اس طرح کی کئی مثالیں موجود ہیں ۔ چودھری برادران اس معاملے میں وقتا ً فوقتا ً اپنی ناراضگی کا اظہا ر کر تے رہے ہیں ۔حال ہی میں اسی بنا پر انہوں نے خان صاحب کے عشایئے میں شرکت نہیں کی تھی ۔
یہاں ناقد ین کا یہ سوال خاصا جائز ہے کہ اگر چودھری برادران تحریک انصاف کے سربراہ سے اتنے ناراض ہیں تو پھران کے ساتھ اتحاد میں کیوں شامل ہیں ،وہ کسی مرحلہ پر بھی اپنے راستے جداکر سکتے ہیں ۔ایک موقع پرشہبازشریف اور ان کے درمیان بلاواسطہ رابطہ ہو ا اور بیک ڈورچینل بھی قائم ہو گیا لیکن یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی ۔ اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ مسلم لیگ (ق) کا تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد جنہوں نے کروایا تھا ان کے ہوتے ہوئے وہ خان صاحب کو خیرباد نہیں کہیں گے اور جس دن حالات خراب اور خان صاحب کے اقتدار کا سنگھا سن ڈولاوہ گڈ بائے کہہ دیں گے ۔
چودھری شجاعت انتہائی زیرک سیاستدان ہیں، انہیں بخوبی علم ہے کہ پاکستان میں سیاست کس طرح کی جاتی ہے اور انہیں پاکستانی سیاست کے کلچر کا مکمل ادراک ہے ۔خان صاحب نے چودھری برادران سے ملاقات میں گلے شکوؤں کا جواب دیتے ہوئے یقین دہا نی کرائی ہے کہ آئندہ انہیںشکایت نہیں ہو گی لیکن عملی طور پر اتحادیوں کو ساتھ لے کر چلنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے اور وزیر اعظم کا امتحان یہی ہے کہ وہ ان گلے شکوؤں کو ایک حد سے زیادہ نہ بڑھنے دیں ۔ انہیں یہ احساس ہواہو گا کہ بعض باتیں سیاسی اتحادی لیڈر کے منہ سے سننا چاہتے ہیں ۔پہلے انہوں نے اس قسم کے قضیئے نبیڑنے کے لیے جہانگیر ترین کی ڈیوٹی لگا رکھی تھی جو کسی حد تک خوش اسلوبی سے یہ فرائض انجام دے رہے تھے ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ لندن سے سات ما ہ بعد واپسی پر بھی جہانگیر ترین ما سوائے چودھری برادران کے کسی سیاستدان سے نہیں ملے ۔جیسا کہ حالات نے بڑ ی جلدی ثابت کر دیا کہ جہانگیر ترین اب وزیر اعظم کے فیورٹ نہیں بلکہ زیر عتاب ہیں ، اسی بنا پر نظریہ ضرورت کے تحت عمران خان کو خود میدان میں اترنا پڑا۔ اب یہ ان کی اضافی لیکن بنیادی ذمہ داری ہے کہ اتحادیوں کو ساتھ لے کر چلیں ۔ یہ الگ بات ہے کہ جب خان صاحب کا وقت پورا ہو جائے گا تو یہی اتحادی پروں پر پانی نہیں پڑ ے دیں گے لیکن فی الحال وہ مرحلہ ابھی نہیں آیا اور شاید آئے بھی نہ ۔خان صاحب کو کچھ دیر سے ہی سہی غالبا ً یہ احساس ہو گیا ہے کہ یہ کام ان کے خود کرنے کے ہیں اور انہیں خود ہی کرنا بہتر ہے ۔


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *