کتابو ں کی طرف واپسی۔ 2

اپنے گزشتہ کالم میں چند کتابوں کے نام گنوائے جنہیں سال 2020 میں پڑھنے کا موقعہ ملا۔ اس حکایت لذیذ کو آگے بڑھاتے ہیں۔
پچھلے سال کے آخری دو مہینوں میں ممتاز مترجم اور ادیب شاہد حمید مرحوم کے دو شاہکار شائع ہوئے۔ کراما زوف برادران کے بارے میں کچھ عرصہ پہلے لکھ چکا ہوں، یہ لیجنڈری روسی ادیب دوستئوفسکی کا شاہکار ہے۔ اسے تاریخ انسانی کا عظیم ترین ناول کہا جاتا ہے۔ شاہد حمید صاحب نے اس کا کمال ترجمہ کیا ہے۔ جتنا عمدہ ترجمہ ہے، اتنی ہی خوبصورت کتاب بک کارنر جہلم نے شائع کی۔ شاہد حمید صاحب کی روح یقینا شاد ہوئی ہوگی۔ ناول ساڑھے چودہ سو صفحات پر مشتمل ہے۔ دسمبر کے آخری دن شاہد حمیدمرحوم کا ایک اوردلکش ترجمہ ’’سوفی کی دنیا‘‘شائع ہوا۔ اسے بھی بک کارنر نے چھاپا۔’’ سوفی کی دنیا‘‘ ناروے کے ایک سکول ٹیچرجو سٹین گارڈر نے لکھا ہے۔ سوفی کی دنیا ایک حیران کن ناول ہے۔سوفی پندرہ سالہ لڑکی ہے جسے ایک اجنبی خط بھیجنا شروع کر دیتا ہے، ان خطوں میں فلسفے کے اسباق ہیں۔ قدیم یونانی فلسفیوں دیمو کریتس، سقراط، افلاطون، ارسطو سے یہ سلسلہ چلتا ہوا کارل مارکس تک پہنچتا ہے۔ کہانی چلتی رہتی ہے اورانتہائی آسان ، عام فہم الفاظ میں فلسفہ سمجھا دیا جاتا ہے۔ شاہد حمید صاحب نے اس کا اتنا عمدہ ترجمہ کیا کہ داد کے لئے الفاظ کم ہوجاتے ہیں۔ میں نوجوانوں کو ہمیشہ مشورہ دیتا ہوں کہ سقراط سے مارکس تک کے دو ہزار سالہ فلسفے کے سفر کو سمجھنے کے لئے کم از کم یہی ایک کتاب پڑھ لیں۔رسول حمزہ توف کی شاہکار کتاب ’’میرا داغستان‘‘ بھی اسی ادارے نے شائع کی ، ایسے دلکش انداز میں کہ رسول حمزہ توف کے مداحین پنجابی محاورے کے مطابق دل جان سے راضی ہوگئے۔ پہلی بار میرا داغستان کے مترجم کا نام اور ان کی مختصر سوانح پڑھنے کو ملی۔ ’’میرا داغستان‘‘میری چند محبتوں میں سے ایک ہے، رب نے چاہا تو اس پر تفصیل سے قلم اٹھائوں گا۔
مستنصر حسین تارڑ ان ادیبوں میں سے ہیں جن کا قلم عمر گزرنے کے ساتھ مزید زرخیز اور تروتازہ ہوتا گیا۔ تارڑ صاحب نے اردو ادب میں بڑے اہم ناولوں کااضافہ کیا ہے،بدقسمتی سے ہمارے نقادوں نے انہیں نظرانداز کیا۔ ویسے تو تارڑ صاحب نے بھی اسی شان بے نیازی کا مظاہرہ اپنے ناقدین کے لئے روا رکھا۔ ایک لمحے کے لئے بھی وہ کسی ملال یا احساس محرومی کا شکارنظر نہیں آئے۔ اس کی وجہ قارئین میں ان کی بے پناہ پزیرائی ہے۔ پچھلے تیس چالیس برسوں سے وہ اردو کے بیسٹ سیلر فکشن نگار ہیں۔ اس سال بھی ان کے دو ناولٹس پر مشتمل’’ روپ بہروپ‘‘ اور ناول ’’شہر خالی کوچہ خالی‘‘ جبکہ چار سفرناموں پر مشتمل کتاب ’’جو کالیاں‘‘ نے قارئین کی توجہ کھینچی۔ شہر خالی کوچہ خالی ایک طرح سے کورونا کے سیاہ ایام کی ڈائری ہے ۔ تارڑ صاحب کی دیگر کتابوں کی طرح اسے بھی سنگ میل نے شائع کیا ۔ روپ بہروپ کو ہمارے کئی سخن فہم دوست ’’خس وخاشاک زمانے‘‘ کے بعد تارڑ صاحب کی بہت اہم ادبی تخلیق قرار دے رہے ہیں۔اسی ادارے سے معروف ادیب، خاکہ نگار اور مترجم عرفان جاوید کی دو کتابیں ’’دروازے ‘‘اور’’ سرخاب‘‘ شائع ہوئی ہیں۔ دروازے کے خیر سے دس بارہ ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں جبکہ سرخاب کا بھی چوتھا ایڈیشن پچھلے سال آیا۔ عرفان جاوید بیورو کریٹ ہونے کے باوجود نہایت محنتی ادیب اور محقق ہیں، ان کے تحقیقی مضامین’’ عجائب خانہ ‘‘کی سیریز ایک میگزین میں شائع ہوتی رہی،میں اس کے کتابی شکل میں آنے کا منتظر ہوں تاکہ ریفرنس کے طور پر رکھی جا سکے۔ شنید ہے کہ اگلے ماہ یہ آ جائے گی۔
منفرد افسانہ نگار محمد الیاس کا افسانوی مجموعہ سرخ گلاب بھی شائع ہوا۔ الیاس صاحب ہمارے انڈر ریٹیڈ ادیب ہیں، جس پائے کے یہ لکھاری ہیں، انہیں اس کا عشر عشیر کریڈٹ نہیں دیا گیا۔ محمد الیاس کا ناول’’ رنگ ریز‘‘بھی پچھلے سال ہی آیا۔ ادبی نقادوں کو اس ناول پر بھی توجہ دینی چاہیے۔ پچھلے سال اردو کے ممتاز افسانہ نگار اسد محمد خان کے خاکوں کی کتاب بھی شائع ہوئی ہے۔ اسد محمد خان نے کمال کے افسانے لکھے ہیں، اپنے مخصوص انداز میں انہوں نے یہ خاکے بھی رقم کئے۔
ناولوں کا ذکر ہوا ہے ، اس میں تازہ ترین اضافہ’’ کَماری والا‘‘ ہے۔علی اکبر ناطق کے پہلے ناول نولکھی کوٹھی پر کئی بار لکھ چکا ہوں، چند ماہ پہلے ان کا نیا ناول’’ کَماری والا‘‘ شائع ہوا۔یہ بہت دلچسپ ناول ہے، ناطق نے سماج کے مختلف شعبوں کی بڑی جرات اور مہارت کے ساتھ جراحت کی ہے۔ ایسا بولڈلکھنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ علی اکبر ناطق اپنے آپ کو نولکھی کوٹھی ہی سے منوا چکے تھے، کماری والا نے وہ تاثر مستحکم کیا ہے۔گزشتہ سال معروف صحافی رئوف کلاسرا کی ایک ساتھ تین کتابیں شائع ہوئیں۔ انہوں نے نامور فرانسیسی ادیب بالزاک کے دو ناولوں کا اردو ترجمہ کیا تھا۔ایک ناول’’ سنہری آنکھوں والی لڑکی‘‘ کے نام سے شائع ہوا، جبکہ دوسری کتاب تاریک راہوں کے مسافر کے نام سے چھپی۔ بالزاک کو کون نہیں جانتا،کلاسرا نے اس کے اسلوب کو عمدگی سے اردو میں منتقل کیا۔ ان کی منتخب تحریروں کا ایک مجموعہ بعنوان گمنام گائوں کا آخری مزار بھی شائع ہوا۔ اس کا پہلا ایڈیشن ایک ماہ میں نکل گیا۔ منفرد کالم نگار اور ممتاز شاعر جناب اظہار الحق کے کالموں کا مجموعہ ’’میری وفات ‘‘کورونا کے دنوں میں پڑھنے کو ملی۔ میری وفات اظہار صاحب کا ایک بہت مشہوراور کبھی نہ بھولنے والا کالم ہے۔ اظہار الحق صاحب اپنی شاعری کی طرح کالم میں بھی قاری کو چونکاتے اور مسحور کر دیتے ہیں۔ اظہار صاحب کی فسوں خیز نثر کے نمونے اس کتاب میں جگہ جگہ ملتے ہیں۔ گارنٹی سے کہا جاسکتا ہے کہ پڑھنے والا مایوس نہیں ہوگا۔
سال گزشتہ میں ایک موبائل ایپ’’ ادیب آن لائن ‘‘پر ابن صفی کی سیریز پڑھنے کا موقعہ ملا۔ اس ایپ پر اردو کی بہت سی عمدہ کتابیں موجود ہیں، کچھ کے لئے سبسکرپشن لینا پڑتی ہے جبکہ نصف سے زیادہ کتب مفت دیکھی جا سکتی ہیں۔ ابن صفی کی عمران سیریز اور جاسوسی دنیا(فریدی سیریز)کی تقریباً اسی کے قریب کتابیں یہاں موجود ہیں۔بچوں کے ادب میں ٹارزن، حاتم طائی کی سیریز، اے حمید کی عنبر ناگ ماریا سیریز ،شرلاک ہومز وغیرہ شامل ہیں۔ میری طرح ابن صفی کے مداح خاص کر بیرون ملک پاکستانی استفادہ کر سکتے ہیں۔ستار طاہر کی دنیا کی سو عظیم کتابیں، جم کاربٹ کی شکاریات پر کتابیں، دیوان سنگھ مفتوں،کنور مہندر سنگھ وغیرہ کی کتابیں یہاں ہیں۔
فرخ سہیل گوئندی ایک ادیب یا ناشر نہیں بلکہ ون مین آرمی ہیں۔ وہ پولیٹکل ورکر، سوشل میڈیا ایکٹوسٹ، سوشل ایکٹوسٹ ، عمدہ لکھاری ، ادب کا کمال فہم رکھنے والے آدمی ہیں۔ ان کے ادارے جمہوری پبلشرز نے ترک ادب کو اردو میں منتقل کرنے کا بہت اہم کام کیا ہے۔ پچھلے سال ان کی تین کتابیں پڑھنے کو ملیں۔ میاں محمود علی قصوری نامور وکیل اور سیاسی کارکن تھے، ان کی معرکہ آرائیاں اب تاریخ کا حصہ ہیں۔ خانوادہ محمود علی قصوری پر عبداللہ ملک کی کتاب آئوٹ آف پرنٹ تھی، اب وہ جمہوری نے شائع کی ہے۔ برطانیہ میں مقیم پاکستانی نژاد انگریزی ناول نگار ندیم اسلم کے ایک ناول کا ترجمہ ’’اندھا باغ ‘‘ کے نام سے کیا گیا۔ یہ ناول شروع کر رکھا ہے، ابھی ختم نہیں ہوا۔انداز مختلف ہے، پڑھنے کے بعد رائے دوں گا۔ جس ناول نے البتہ مسحور کر رکھا ہے، وہ نوبیل انعام یافتہ ترک ادیب اورحان پاموک کا ناول خانہ معصومیت ہے۔ ہماانور نے ترجمہ کیا اور حق ادا کیا۔ ہما انور نے پچھلے چند برسوں میں اورحان پاموک کے تین ناولوں کے تراجم کئے ہیں، ’’مائی نیم از ریڈ‘‘ کا ترجمہ’’ سرخ میرا نام‘‘، ’’سنو ‘‘کا ترجمہ ’’جہاں برف گرتی ہے‘‘جبکہ میوزیم آف انوسینس کا ترجمہ ’’خانہ معصومت۔‘‘سرخ میرا نام بھی پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ تین چار صدی قبل کے خطاطوں اور منی ایچر آرٹسٹوں کی دنیا کو پاموک نے مجسم کر دیا۔ اسے پڑھنے کے بعد تا عمر آپ ٹرانس سے نہیں نکل سکتے۔ سنو بھی بہت اہم ناول ہے ،مگر خانہ معصومیت تو قیامت ہے۔ اندازہ لگائیں کہ ایک مہینے سے اس ناول کو کسی خوش ذائقہ مشروب کی طرح گھونٹ گھونٹ پی رہا ہوں،خدشہ ہے کہ ختم نہ ہوجائے۔ اس ناول نے سحرزدہ کر دیا۔ گوئندی صاحب کو چاہیے کہ پاموک ،یشار کمال ، ایلف شفق اوردیگر ترک ادبیوں کے مزید کام کو اردو میں لائیں، یہ خدمت ہے۔اچھا ترجمہ کرنے پر کوئی ادبی ایوارڈ اگر ہے تو وہ ہما انور کو ضرور ملنا چاہیے۔
پچھلے سال ممتاز محقق اور مورخ ڈاکٹر صفدر محمود کی دو اہم کتابیں پڑھیں۔ اقبال ، جناح اور پاکستان ان کے مضامین کا مجموعہ ہے جبکہ’’ سچ تو یہ ہے‘‘ ایسی کتاب ہے جسے پاکستانیت سے دلچسپی رکھنے والے ہر شخص کوپڑھنا اور اپنے پاس رکھنا چاہیے۔ ڈاکٹر صاحب نے پاکستان، نظریہ پاکستان اور قائدین پاکستان پر لگنے والے کئی بے بنیاد الزامات کا شافی جواب دیا اور دلائل کے ساتھ کئی نئے فتنوں کا سدباب کیا۔ درجنوں افراد پر مشتمل اداروں جتنا کام اس اکیلے شخص نے پاکستان کے لئے انجام دیا ہے۔ اللہ ڈاکٹر صفدر محمود کو زندگی دے، پچھلے دنوں وہ بیمار رہے، اب الحمد للہ روبصحت ہیں۔
اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ دوسرا کالم بھی تمام ہوا، مگر پچھلے سال پڑھی جانے والی اہم کتابوں کی فہرست ابھی ادھوری ہے۔ چند ایک اہم نان فکشن کتابوں کا ذکر بھی کرنا تھا۔ چلیں پھر کبھی ۔ یار زندہ صحبت باقی۔


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *