میں چوہدری غلام رسول ہوں!

نوٹ:صحافتی تاریخ میں غالباً یہ پہلا ’’نوٹ‘‘ ہوگا جو کالم کے اختتام کی بجائے کالم کے آغاز میں دیا جا رہا ہے۔ کالموں میں ٹائپ کی ایک آدھ بےضرر سی غلطی تو برداشت ہو سکتی ہے لیکن میرے گزشتہ کالم ’’مداحین کی سہولت کے لئے جن ہدایات‘‘ میں کچھ غلطیاں نہیں بلنڈر ہوئے ہیں مثلاً اس میں ’’پرانی روایات‘‘ کو ’’بیرونی ادویات‘‘ ایک نہیں، دو دفعہ لکھا گیا جس سے بات کا مزا ہی نہیں جاتا رہا بلکہ پرانی روایات میں زم کا پہلو بھی پایا جاتا ہے۔ آگے چل کر میں نے لکھا کہ ’’میں مرد و زن کے اختلاط کو اسلامی شعائر کے منافی سمجھتا ہوں‘‘ اِس جملے میں سے ’’اختلاط‘‘ کا لفظ نکال دیا گیا، اب آپ اِس کے بغیر یہ جملہ پڑھیں اور میری سوچ پر جتنا تبرا کرنا چاہیں کر سکتے ہیں۔ اسی طرح میں نے لکھا کہ ’’میں خواتین سے مصافحہ نہیں کرتا تاہم میں نے کمرے میں بوقت ضرورت سینی ٹائزر رکھا ہوا ہے‘‘ والے جملے میں ’’مصافحہ‘‘ کو ملاقات میں بدل دیا۔ اب اِس سے زیادہ میں کچھ نہیں کہتا، بس اب آپ آج کا کالم پڑھیں۔

مشتاق احمد یوسفی نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ’’ہم نے غالب کو جب کبھی پڑھا، وہ ہمیں ہر دفعہ نیا لگا۔ یہ بھید تو کافی عرصے بعد ہم پر کھلا کہ دراصل ہمارا حافظہ کمزور ہے۔ اِن دنوں میرا حال بھی یوسفی صاحب ایسا ہی ہے بلکہ میں اِس ضمن میں یوسفی صاحب سے دو ہاتھ آگے ہوں کیونکہ مجھے ہر شخص غالب کی طرح نیا لگتا ہے اور اُس کا ایک فائدہ یہ ہوا ہے کہ میں خوش اخلاق بہت ہو گیا ہوں۔ آپ مجھے یاد دلانا نہ بھولیے کہ آگے چل کر مجھے اِس فقرے کی وضاحت کرنی ہے لیکن اِس سے پہلے یہ بتانا ضروری ہے کہ ہر شخص مجھے غالب کی طرح نیا کیوں لگتا ہے؟ دراصل ہوتا یوں ہے کہ کسی محفل میں کسی صاحب سے ملاقات ہوتی ہے، موصوف بہت تپاک سے ملتے ہیں، میں اُنہیں چہرے سے پہچان لیتا ہوں مگر ایک تو اُن کا نام یاد نہیں رہتا اور دوسرا یہ کہ اُن سے ملاقات کہاں ہوئی تھی، چنانچہ گفتگو کے دوران اُن کا نام نہیں لیتا کہ وہ مجھے آتا ہی نہیں اور دوسرا ’’پرانی شناسائی‘‘ کا ریفرنس درمیان میں نہیں آنے دیتا کہ وہ مجھے یاد ہی نہیں ہوتا۔ البتہ وہ اگر یہ حوالہ رضاکارانہ طور پر درمیان میں لے آئیں تو میں بہت خوش ہوتا ہوں اور دل ہی دل میں اُن کی درازیٔ عمر کے لئے دعائیں مانگتا ہوں۔ پھر مجھے اُن کے نام کے بارے میں کھد بد ہونے لگتی ہے اور وہ لمحہ میرے لئے ’’نوید مسرت‘‘ کا ہوتا ہے جب کسی گفتگو کا حوالہ دیتے ہوئے وہ صاحب اپنا نام درمیان میں لے آتے ہیں چنانچہ میں اطمینان کا گہرا سانس لیتا ہوں اور پھر ریلیکس ہو کر ان سے گفتگو کرتا ہوں۔

مگر اصل تشویشناک صورتحال تو اُس وقت پیدا ہوتی ہے جب کوئی صاحب گفتگو کے دوران اچانک فرماتے ہیں کہ ’’لگتا ہے آپ نے مجھے پہچانا نہیں‘‘ یہ سن کر میرے ہاتھ پائوں پھول جاتے ہیں کہ اِس راز کا اُنہیں کیسے پتا چلا۔ چنانچہ بھرم رکھنے کے لئے لامحالہ یہ کہنا پڑتا ہے کہ ’’جناب! کیسی باتیں کرتے ہیں، یہ کیسے ممکن ہے کہ میں آپ کو نہ پہچانوں‘‘۔ یہ جملہ کہتے ہوئے مجھے اندازہ نہیں ہوتا کہ میں نے کس ’’قوم‘‘ کو للکارا ہے! کیونکہ اِس کے جواب میں وہ اپنی تمام تر اذیت پسندی چہرے پر جمع کرکے کہتے ہیں ’’تو پھر مجھے بتائیے میں کون ہوں‘‘ اُس کے آگے جتنے بھی مرحلے آتے ہیں، ڈکشنری میں اُن کے لئے شرمندگی یا ندامت وغیرہ ہی کے الفاظ ملتے ہیں۔

اعصاب شکن مرحلہ اِس کے علاوہ ایک اور بھی ہے۔ یہ مرحلہ وہ ہے جسے مرحلہ دار و رسن بھی کہا جا سکتا ہے۔ ایک صاحب بہت بےتکلفی سے کاندھے پر دو ہتڑ رسید کرتے ہیں لیکن میری سرد مہری پر وہ چونک جاتے ہیں ’’یار کہیں تم اپنے آپ کو بڑا آدمی تو نہیں سمجھنے لگ گئے، ارے بھئی میں مشتاق ہوں جسے تم تاکا کہتے تھے، چوتھی جماعت میں ہم اکٹھے پڑھتے تھے حالانکہ میرے محتاط اندازے کے مطابق وہ تین جماعتوں سے زیادہ نہیں پڑھے ہوں گے پھر وہ اپنی اور میری شرارتیں گنواتے ہیں جنہیں سن کر اندازہ ہوتا ہے کہ میں بچپن میں کتنا شریر تھا مگر اُس کے باوجود یہ بہرحال مجھے یاد نہیں پڑتا کہ چوتھی جماعت میں ٹاٹ کے ایک سرے پر میں اور دوسرے سرے پر وہ بیٹھا کرتے تھے تاہم اپنے آپ کو اور اُنہیں ندامت سے بچانے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ اُن سے فوراً معانقہ کیا جائے اور کہا جائے سوری یار، پہچاننے میں ذرا دقت ہوئی، کیونکہ چوتھی جماعت میں تمہاری داڑھی سفید نہیں ہوتی تھی۔

اور خدا کا شکر ہے مجھے یاد آ گیا کہ حافظہ کی کمزوری کی وجہ سے میں روز بروز خوش اخلاق کیوں ہوتا جا رہا ہوں، وجہ صاف ظاہر ہے کہ اِس سے ملنے والے کو شائبہ تک نہیں ہوتا کہ میں اُسے پہچاننے میں دشواری محسوس کر رہا ہوں مگر اُس میں ایک نقصان بھی ہے مثلاً ایک صاحب کو میں خود آگے بڑھ کر بہت گرمجوشی سے ملا، وہ بھی کچھ اتنے ہی تپاک سے ملے مگر کچھ دیر بعد کہنے لگے ’’اگر آپ مائنڈ نہ کریں تو ایک بات عرض کروں، میں نےبےتکلفی سے کہا، یار یہ کیا تم نے آپ جناب لگائی ہوئی ہے، سیدھی طرح بات کرو، کہنے لگے مجھے یاد نہیں پڑتا آپ سے کہاں ملاقات ہوئی تھی، آپ کا اسم شریف؟ ویسے آپ چوہدری غلام رسول تو نہیں ہیں؟‘‘

برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق رواں سال الجزیرہ کے 36 صحافیوں کو ایسی ہیکنگ سے واسطہ پڑا

عالمی وبا، دہشتگردی اور دیگر حادثات میں کئی نامور شخصیات کی موت نے دنیا بھر میں لوگوں کو غمگین کیا لیکن وہیں اس سال کئی اہم شخصیات کے اسلام قبول کرنے کی اچھی خبریں بھی سامنے آئیں۔

ادارہ شماریات نے ہفتہ واری رپورٹ جاری کردی، جس کے مطابق ایک ہفتے میں آٹے کا 20 کلو کا تھیلا ساڑھے پانچ روپے مہنگا ہوگیا۔

ترجمان موٹروے پولیس کے مطابق شرقپور میں دھند کے باعث 12 گاڑیاں ٹکرا گئیں، حادثے میں نوجوان اور خاتون جاں بحق جبکہ 9 افراد زخمی ہوگئے

برف سے ڈھکے مکان اور درخت، منہ میٹھا کرنے کے لیے خصوصی کرسمس کیک بھی تیار کیا گیا ہے

رانا ثنا ﷲ نے کہا کہ متوازن بات کرنے والے رہنما اکثر کہتے ہیں کہ ہم تو وزیراعظم کو بہت سمجھاتے ہیں، مگر اُن پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔

انہوں نے کہا کہ مردم شماری کراچی کے حقوق پر ڈاکا ہے، پی ٹی آئی کو جیسے بھی نشستیں ملیں، لیکن وہ مسلسل کراچی دشمنی کا مظاہرہ کررہی ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ کیس میں ایک ایسے شخص کو مدعی بنایا گیا کو واقعے کے وقت مزار قائد پر موجود ہی نہیں تھا۔

وزیراعظم نے کہا کہ قبضہ مافیاکیخلاف کارروائی کی تومعلوم ہوامسلم لیگ ن کےایم این ایز شامل ہیں۔

فیفا کا کہنا ہے کہ حمزہ خان کے مستعفی ہونے کے بعد مستقل بنیادوں پر نئے این سی چیئرمین کا تقرر کیا جائے گا۔

وزیراعظم عمران خان نے پی آئی اے کی تنظیمِ نو کی حکمتِ عملی پر اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت مکمل کرنیکی ہدایت کی

اقتصادی امور ڈویژن غیر ملکی فنڈز کے استعمال پر بریفنگ دے گا، جبکہ پیٹرولیم ڈویژن گیس کی منصوبہ بندی سے متعلق بریفنگ دے گا

شاہد خاقان نے کہا کہ صرف گیس کی خریداری میں 50 ارب کا نقصان ہے ،تیل سے جو بجلی بنے گی اس میں 100 ارب کا نقصان ہوگا۔

فواد چوہدری نے کہا کہ وزیراعظم کے بیان کو اپوزیشن نے سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا،وزیراعظم نے اقتدار کی منتقلی کے حوالے سے امریکا کی مثال دی۔

شیخ احمد عمر، سیدسلمان ثاقب،فہدنسیم ،شیخ محمدعادل 18برس سےجیل میں ہیں۔


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *