کرگس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور……( 2)

دنیا میں کوئی قوم، نسل یا قبیلہ ایسا نہیں ہے جس میں سب کے سب غیرت مند اور غیّور ہوں اور نہ ہی کوئی نسل ایسی ہے جو غداروں اور بزدلوں سے خالی ہو۔ اسی طرح تاریخ کا یہ سچ بھی کھرا اور واضح ہے کہ کوئی علاقہ یا زمین کا خطہ ایسا نہیں، جو کسی قوم کا ہمیشہ سے آبائی وطن رہا ہو۔ ہر جگہ آباد قومیں چند سو سال یا چند ہزار سال قبل اس جگہ آکر آباد ہوئیں تھیں۔ وہ خطہ جسے محمود خان اچکزئی صاحب نے ’’افغان وطن‘‘قرار دیا ہے وہاں پشتونوں کی آمد تو بنی اسرائیل کے مسکن یروشلم پر عذابِ الٰہی مسلط ہونے کے بعد شروع ہوئی ۔ اللہ نے سورۃ بنی اسرائیل کی ابتدائی آیات میں اس کا ذکر کیا ہے۔بابل کے حاکم بخت نصرنے حملہ آور ہو کر ’’ہیکلِ سلیمانی‘‘ تباہ کیا اور قتل عام کے بعد جو کارآمد لوگ تھے انہیں غلام بنا کر دجلہ و فرات کے قرب وجوار میں آبادکر دیا، لیکن یہ قبیلہ اس کے ساتھ ہو گیا۔ کئی صدیاں یہ وہاں آباد رہے لیکن ایران کے حکمران ’’دارا‘‘ نے جب بابل فتح کیا تو اس نے وہاں موجود بنی اسرائیل کو واپس یروشلم میں آباد کر دیا ۔ ایک اور روایت کے مطابق بنی اسرائیل کا یہ قبیلہ ’’طالوت‘‘ کے زمانے میں افغانستان آکر آباد ہوا۔ افغان خصوصاً پشتون خود کو بنی اسرائیل کے ایک قبیلے کے سربراہ ’’قیس عبدالرشید‘‘ کی اولاد کہتے ہیں جو خالد بن ولیدؓ کے ہاتھ پر مشرف بہ اسلام ہوا تھا۔ یہودیوں میں آج تک اپنے ایک ’’گمشدہ قبیلے‘‘ (Lost Tribe) کی روایت پائی جاتی ہے اور اکثر افغان محقق خود کو اسی قبیلے سے جوڑتے بھی ہیں۔پشتون گیتوں اور قصوں میں ان کا تذکرہ ملتا ہے۔ ان تمام روایات کو نعمت اللہ ہراتی نے اپنی کتاب ’’مخزنِ افغانی‘‘میں جمع کیا ہے۔ اس کے نزدیک قیس عبدالرشیدکے دو بیٹے شرخبون اور خرشبون تھے، جن کی اولاد یہ افغان ہیں۔ یورپی محققین میں دو آراء پائی جاتی ہیں۔ زیادہ تر انہیں بنی اسرائیل کے بارہ قبائل میں سے ایک گمشدہ قبیلہ تصور کرتے ہیں اور کچھ انہیں کیسپئن سمندر کے اردگرد علاقوں اور سنٹرل ایشا میں آباد آریاؤں کی نسل کہتے ہیں۔غرض محمود خان اچکزئی صاحب جسے’’افغان وطن‘‘کہتے ہیں وہ جو جلا وطن کیئے گئے یہودیوں یا قحط اور خشک سالی سے تنگ آئے ہوئے آریاؤں کی ہجرت سے آباد ہوا تھا۔موجودہ دنیا کا ہر خطہ اسی طرح ہجرت سے آباد ہوا ہے اور کوئی ازل سے وہاں آباد نہیں ہے۔زمین پر کوئی کسی علاقے کا مستقل اور ابدی وارث اور مالک نہیں ہے۔ہر ایک مہاجرہے اور یہ سفر مسلسل ہے ۔آج تک کوئی اپنے وطن جسے وہ ’’ماں‘‘کہتا رہا ہو،قحط، بیماری، آفت، مصیبت، زلزلہ، طوفان یہاں تک کہ بے روزگاری میں بھی اس ماں کے ساتھ نہیں رہتا،چھوڑ کر کسی دوسرے خطے میں آبادہوتا ہے اس’’نئی ماں‘‘سے غرض کا رشتہ قائم کرلیتا ہے ۔
یہودیوں کے باقی گیارہ قبیلے جو پوری دنیا میں دوہزار سال ظلم برداشت کرتے اور ذلت و رسوائی کی زندگی گذارتے رہے،بالاخر 1920ء میں ہر ملک سے اپنے قدیم وطن’’یروشلم‘‘ یا ’’اسرائیل‘‘ واپس جانا شروع ہوئے اور آج دنیا کے تمام یہودیوں کا ’’مرکزِ محبت‘‘صہیون، یروشلم یا اسرائیل کی’’ارضِ مقدس‘‘ہے۔ افغان جوبنی اسرائیل کا ہی قبیلہ ہیںچونکہ مسلمان ہو گئے تھے،اس لیئے اللہ نے ان کے لیے علیحدہ وطن منتخب کر دیا۔افغان اگر نسل کی بنیاد پر سوچتے تو آج یہ بھی دنیا بھر کے یہودیوں کی طرح واپس اپنے اصل’’وطن اسرائیل‘‘جانے کے لیے بے تاب ہوتے۔لیکن ان کے لیے اللہ نے یروشلم میں ایک فاتح کی حیثیت سے داخل ہونے کی تقدیر لکھ رکھی ہے۔یہ افغانوں کے لیے اسلام قبول کرنے اورپھر اس پر ثابت قدم رہنے کا انعام ہے۔سید الانبیاء ﷺ نے فرمایا’’جب کالے جھنڈے مشرق (خراسان) سے نکلیں گے تو ان کو کوئی چیز نہیں روک سکے گی حتیٰ کہ وہ ایلیا (بیت المقدس) میں گاڑ دیئے جائیں گے‘‘(مسند احمد)۔موجودہ افغان سرزمین اور یہاں پر آباد لوگوں کے لیئے ایسی لاتعداد بشارتیں اور پیش گوئیاں ہیں جو سید الانبیاء ﷺ کی زبانِ مبارک سے ادا ہوئیں۔ یہودیوں کے اس گمشدہ قبیلے کا یہ اعزاز ہے کہ وہ مسلمان ہوا،اور جس دن سے یہ قبیلہ مسلمان ہوا،اللہ نے اسے ہر عالمی طاقت کی غلامی سے نہ صرف آزاد رکھا بلکہ اسے اپنے وقت کی تین عالمی طاقتوں،برطانیہ،روس اور امریکہ کے لیئے عبرت کا نشان بنایا اور اسے آخر الزمان میں سیدنا مہدی ؑ اور سیدنا عیسیؑ کے لشکر کے طور پر چن لیا۔
محمود خان اچکزئی اور ان کی پارٹی ہمیشہ سے ان’’سیاہ جھنڈوں‘‘کے منتظر افغانوں کے مخالف رہے ہیں۔ان افغانوں کو روس کی فوجیں قتل کریں یا امریکی افواج روند کر چلی جائیں،محمود خان اچکزئی صاحب کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ان کے نزدیک ’’افغان وطن‘‘کا وارث صرف وہی ہے جو ان’’سیاہ جھنڈے‘‘ والوں کا مخالف ہواور افغانوں کے اسلامی تشخص کا دشمن ہو۔یہ دشمنی انہیں ورثے میں ملی ہے۔ ان کے والد ’’خان عبد الصمد اچکزئی‘‘جو برصغیر میں صرف ایک ہندوستانی قومیت کی علمبردار کانگریس کے ساتھی تھے اور مسلمانوں کو ایک علیحدہ اور جدا قوم تصور کرنیوالی مسلم لیگ سے نفرت کرتے تھے،پاکستان بننے کے بعد جب پہلے عام الیکشنوں میں 1970ء میں قومی اسمبلی کے لیے کھڑے ہوئے تو انہی سیاہ جھنڈوں کے وارث،منبر و محراب کے بوریہ نشین مسلمان افغانوں نے انہیں بدترین شکست سے دوچار کیااور مولانا عبد الحق جیسا دوریش پاکستان کی دستور ساز قومی اسمبلی کا رکن منتخب ہوا۔قومی اسمبلی میں اس شکست کے بعد صوبائی اسمبلی میں بھی ہار کے امکانات روشن تھے۔مجھے خود’’ تو بہ اچکزئی‘‘ کے سرکردہ قبائلی ’’مشر‘‘(سربراہ) بہرام خان اچکزئی نے بتایا کہ وہ ایک ایک گاؤں گھوما،اپنی پگڑی تمام اچکزئیوں کے سامنے رکھی اور اچکزئی قوم کی عزت کا واسطہ دے کر خان عبدالصمد اچکزئی کی جیت کو ممکن بنایا۔محمود خان اچکزئی کو جو سیاست ورثے میں ملی وہ جیسی تیسی بھی تھی نظریاتی ضرور تھی۔ لیکن افغانستان میں روس کی افواج کے حملے اور قبضے کے بعد تمام پشتون علاقوں،جنہیں وہ جنوبی پختونخواہ کہتے ہیں اور اسی کے نام پر اپنی جماعت‘‘پشونخواہ ملی عوامی پارٹی‘‘رکھا ہواہے، اس علاقے میں ان کی پارٹی نے ہر دیوار پر تین نعرے سرخ روشنائی سے درج کر رکھے تھے۔ پہلا ’’پنجابی استعمار مردہ باد‘‘ ، دوسرا افغان مہاجرین کے بارے میں تھا ’’افغان بھگوڑوں کو واپس بھیجو‘‘ اور تیسرا ’’نامنظور نامنظور کالا باغ ڈیم نہ منظور‘‘۔میں جب مارچ 1980ء میں بلوچستان یونیورسٹی میں لیکچرر کی حیثیت سے وہاں پہنچا تو چاروں جانب ’’پنجابی استعمار‘‘کے خلاف دیواریں رنگین تھیں۔ لیکن مکافاتِ عمل دیکھئے کہ محمود خان اچکزئی جن مہاجرین کو ’’افغان بھگوڑے‘‘ کہتے تھے، ایک دن ایسا آیا کہ وہی مہاجرین بلوچستان کی سیاست میں ان کی پارٹی کا سرمایہ بن گئے۔ جب 80 کی دہائی کے آخر میں کوئٹہ بلوچ پشتون لڑائی کی خونریزی میں مبتلا ہوا تو یہ افغان مہاجرین ان کے نسلی، قومی ’’تربور‘‘ (کزن) کہلانے لگے ۔ آج بھی ’’جنوبی پشتونخواہ‘‘ میں لاکھوں کی تعداد میں ایسے افغان مہاجر آبا ہیں جو پاکستانی پشتونوں کے ساتھ مدغم ہوچکے ہیں۔ پنجابی استعمار کے خلاف محمود خان صاحب کے نعرے کا انجام بھی اپنی ایک تاریخ رکھتا ہے۔ محمود خان اچکزئی کی پارٹی کا ایک دیرینہ خواب تھا کہ وہ کوئٹہ سے قومی اسمبلی کی نشست جیتیں تاکہ ثابت ہو سکے کہ کوئٹہ پشتونوں کا شہر ہے۔1988ء میںیہ نشست جمعیت العلماء اسلام کے مولوی حافظ حسین احمد نے جیتی جو نسلاً بروہی تھے جبکہ 1990ء میں اسی سیٹ پر پیپلز پارٹی کے فتح محمد موسیٰ منتخب ہوئے اور وہ بھی بروہی تھے۔ پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کا خواب 1993کے الیکشنوں میں اس وقت پورا ہوا جب نوازشریف نے کوئٹہ کے جلسے میں وہاں آباد تمام پنجابیوں سے کہا کہ وہ محمود خان اچکزئی کو ووٹ دیں۔ کوئٹہ کے ’’پنجابی استعمار گران‘‘ نے اپنے ووٹ سے انہیں کامیاب کروایا۔ (باقی آئندہ)


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *