ایک چھوٹا سا واقعہ یاد آرہا ہے‘ سٹاک ایکسچینج کے حصص پر۔ ڈاکٹر صاحب کے بینک کو ایسے حصص پر منافع کا چیک آ گیا جو وہ بیچ چکے تھے۔ بینک نے وہ منافع ڈاکٹر صاحب کے اکائونٹ میں جمع کر دیا۔ ڈاکٹر صاحب بینک پہنچ گئے۔ اب نیشنل بینک والے منت کر رہے ہیں کہ شیئر ہولڈر ہزاروں کی تعداد میں ہیں۔ ہم اصل حق دار کو کہاں ڈھونڈیں؟ مگر ڈاکٹر صاحب مُصر ہیں کہ ’’میں حصص بیچ چکا ہوں۔ اس منافع پر میرا کوئی حق نہیں۔‘‘
عمر کے پھیلتے سائے صحت پر اثر انداز ہو رہے تھے۔ بے خوابی کی شکایت رہنے لگی تھی۔ کبھی جوڑوں میں درد کی وجہ سے طبیعت مضمحل ہوتی۔ طبیعت بحال ہونے پر شگفتگی لوٹ آتی۔ بھولی بسری باتیں یاد آجاتیں۔’’میکلوڈ روڈ والے مکان میں منتقل ہونے سے پہلے علامہ اقبالؒ پندرہ سولہ برس ہمارے انارکلی والے مکان میں مقیم تھے۔ یہ جدی پشتینی مکان مشترکہ جائیداد کا حصہ تھا۔ پچھلا حصہ املی والے تکیے کے ساتھ ملتا تھا۔ اسی مکان میں جسٹس بخشی ٹیک چند چیف جسٹس سرشادی لال کے بیٹے کی شادی کا دعوت نامہ لے کر آئے تھے۔سرشادی لال نے کہلوا بھیجا تھا کہ اقبالؒ کی شمولیت سے میری عزت افزائی ہو گی مگر علامہؒ نہیں گئے۔ منشی طاہر دین نے منت کی کہ چلے جائیں۔ چیف جسٹس ناراض ہو جائیں گے۔
علامہؒ نے کہا:’’ہائی کورٹ کا مقدمہ نہیں لیں گے۔ مسلم کش ہونے کی وجہ سے مَیں ایک شخص سے نفرت کرتا ہوں‘ منافقت نہیں کر سکتا۔‘‘ منشی طاہر دین‘ فیروز پور روڈ پر ڈاکٹر امیرالدین کے ہمسائے تھے۔ دوستی بھی تھی۔ ایک نشست میں علامہ اقبالؒ کا ذکر آیا گیا۔ ڈاکٹر صاحب فرمانے لگے۔ علامہؒ وسیع المشرب تھے۔ بیمار ہوتے تو ڈاکٹر جمعیت سنگھ دیکھنے کے لئے آتے تھے۔ وہ میڈیکل کالج میں پیتھالوجی کے ڈیمانسٹریٹر تھے۔ طبعاً غیر متعصب‘ مذہب کے لحاظ سے ہندو تھے۔ گونام سکھوں جیسا تھا۔ ایک دفعہ مجھ سے کہنے لگے:’’میرے بیٹے کا ’’مَنڈن‘‘ ہے۔ میری بڑی خواہش ہے کہ ڈاکٹر اقبالؒ تشریف لائیں۔ مجھے معلوم ہے شادی لال کی دعوت پر نہیں گئے۔‘‘ علامہؒ نے کہا کہ وہ ضرور آئیں گے۔ گلاب سنگھ کے چھاپہ خانہ کے سامنے’’طویلہ‘‘ تھا۔ اس کے کونے میں ایک چھوٹی سی کاٹیج میں جمعیت سنگھ کی رہائش تھی۔ علامہؒ ایک گھنٹہ بیٹھے رہے۔ فراک کوٹ اور نکٹائی پہنی ہوئی تھی۔ سر پہ کالی ٹوپی تھی۔ جمعیت سنگھ بہت خوش ہوئے۔
ایک اور نشست میں ڈاکٹر صاحب نے چند باتیں میکلوڈ روڈ والے مکان کی بتلائیں۔ اپریل کا مہینہ تھا۔ علامہؒ پلنگ پر نیم دراز ہو کر حقہ پی رہے تھے۔ بنیان پہن رکھی تھی۔ ایک طرف لال سلیپر دھرے تھے۔ علی بخش نے آ کر کہا:
’’میاں صاحب آئے ہیں۔‘‘
’’کون سے میاں صاحب؟‘‘
’’میاں فضلِ حسین۔‘‘
علی بخش نے پوچھا۔’’قمیض لَے آواں؟‘‘
’’نئیں کی کرنی اے۔ وہ چند منٹ بیٹھیں گے‘ مَیں لباس تبدیل نہیں کرتا۔‘‘
میاں سر فضل حسین اس وقت وائسرائے کی ایگزیکٹو کمیٹی کے ممبر تھے۔ جن کی ملاقات کے لئے آئی سی ایس کے سینئر انگریز افسر باہر منتظر رہتے تھے۔ یہاں چھ آنے کی بنیان۔لٹھے کا تہہ بند اور لال سلیپر۔اللہ اللہ خیر سلّا۔
میرا نشیمن نہیں درگہ میر و وزیر
میرا نشیمن بھی تُو‘ شاخِ نشیمن بھی تُو
ڈاکٹر صاحب کی خوش قسمتی تھی کہ انہیں کئی بار علامہؒ کی خدمت میں حاضر ہونے کا موقع ملا۔ اس زمانے میں وہ قوم سے مایوس ہو رہے تھے۔ ایک پیر صاحب کے متعلق علامہؒ نے یہ واقعہ ڈاکٹر امیر الدین کو خود سنایا تھا فرمانے لگے:
’’پیر صاحب میرے مہمان تھے۔ علی بخش نے آ کر کہا:’’پیر صاحب!آپ سے کوئی ملنے آیا ہے۔‘‘پیر صاحب نے میری اجازت سے اندر بلوا لیا۔ وہ ایک خستہ حال گوجر تھا۔ اس نے پرانی جوتی باہر اُتار دی۔ سُرخ تہہ بند‘ مٹی سے اَٹے ہوئے پائوں‘ اس نے پیر صاحب کے ہاتھ چومے اور نیچے فرش پر بیٹھ گیا۔ تہہ بند کی’’ڈب‘‘ سے چاندی کے دو روپے نکالے اور پیر صاحب کی مٹھی میں دے دیے۔
’’پتہ چلا تھا کہ آئے ہوئے ہیں۔ چھائونی سے چل کر آیا ہوں۔‘‘
’’تمہارا کیا حال ہے؟‘‘
’’حال بہت خراب ہے۔ گائے مر گئی ہے۔ دو سو روپے کا قرض سَر پر ہے۔ دعا کریں پروردگار میرے حال پر رحم کرے۔‘‘
پیر صاحب نے دُعا مانگی۔ علی بخش اور مرید نے دُعا کے لئے ہاتھ اٹھائے۔ میں حقہ پیتا رہا۔ مرید سلام کر کے چلا گیا
پیر صاحب نے مجھ سے پوچھا:’’آپ دعا کے قائل نہیں؟‘‘ مَیں نے جواب دیا:
’’میں بڑا قائل ہوں مگر میری دعا آپ کی دعا کے ساتھ ٹکرا جاتی تھی۔ آپ کا مرید دو سو روپے کا مقروض تھا۔ اب 202روپے کا دین دار ہے۔ قرض گھٹنے کے بجائے بڑھ گیا۔ واپسی پر ٹمٹم کے دس بارہ آنے دے گا۔ تھکا ماندہ گھر پہنچے گا۔’’دہاڑی‘‘ ضائع ہو گئی۔ آپ کو چاہیے تھا کہ اپنے پاس سے کچھ دے کر محنت کی تلقین کرتے۔‘‘
اس صدی کی پہلی دہائی میں اقبالؒ نے کہا تھا: ع
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں
چوتھی دہائی طلوع ہوئی تو لب پر آ ہی گیا:
عالمِ نو ہے ابھی پردۂ تقدیر میں
میری نگاہوں میں ہے اس کی سحر بے حجاب
یہ کشف کی نوید تھی یا رویائے صادقہ؟ اگر خواب تھا تو علامہؒ نے اس کی تعبیر بھی کر دی۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا: ’’1935ء میں علامہؒ میکلوڈ روڈ منتقل ہو گئے تھے۔ اتوار کا دن تھا ہم گیارہ بجے کے قریب پہنچے۔ وہ دھوپ میں بیٹھے حقہ پی رہے تھے۔ باتیں کرتے ہوئے علامہ، کہنے لگے:
“In the next 25 years all Muslim countries from Indonesia to Morocco would be free and if they have a certain unity they will be a force to reckon with. I will not be alive but you will see it.”
ابھی جنگ کے آثار نہ تھے۔ ہم حیران تھے کہ انگریز‘ ہندوستان کیسے چھوڑ جائیں گے۔ گھنٹہ سوا گھنٹہ گفتگو ہوئی۔ علی بخش نے کہا: ’’مرضی کے مالک ہیں۔ شروع ہو جائیں تو دو گھنٹے باتیں کرتے رہیں گے۔ طبیعت حاضر نہ ہو تو خاموش بیٹھے حقہ پیتے رہتے ہیں۔‘‘
ایک روز شام کے وقت تخلیہ تھا۔ میں نے شہ دی کہ کیوں نہ ’’آج ذکرِ یار چلے۔‘‘ علامہؒ سے آخر ی ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے کہا:
’’میں امرت سر سے لاہور آیا ہوا تھا۔ علی بخش کا پیغام ملا کہ علامہؒ یاد فرماتے ہیں۔ وہاں پہنچے تو دیکھا کرنل ڈک آئے ہوئے ہیں اور کہہ رہے ہیں کو صَوتی رگیں مفلوج ہو رہی ہیں۔ یہ بھی کہا رات کو بہت ہلکی غذا کھائیں۔ علامہؒ نے کہا: میں صبح بہت جلد اٹھتا ہوں۔ معدہ بھرا ہو تو اُٹھ نہیں سکتا۔ اسی لئے سال ہا سال سے دودھ کی پیالی اور دو تین بسکٹ لے لیتا ہوں۔ اصرار کے باوجود کرنل ڈک نے فیس نہیں لی۔
معالج کے جانے کے بعد علامہؒ اندر سے ایک کاغذ لے آئے۔ فرمانے لگے: ’’میں نے جہاز رانی کی کمپنی Lioyd Triestinoکو لکھا تھا کہ میرا ارادہ حجاز جانے کا ہے۔ انہوں نے جواب دیا ہے کہ ہم لے چلتے ہیں مگر جدہ سے چند میل ادھر جہاز لنگر انداز ہو گا۔ دُخانی کشتی کنارے پر چھوڑ آئے گی۔ واپسی پر اسی طور انتظام ہو جائے گا۔ میاں شاہ نواز کہہ رہے تھے مجھے بھی ساتھ لے چلیں۔ میں نے کہا مَیں خود بیمار ہوں۔ اقبال بہت خوش تھے۔ کہہ رہے تھے بڑی حسرت تھی کہ حجاز جائوں۔ شاید عالمِ جذب میں علامہؒ نے وہ روحانی سفر طے کر لیا تھا۔ ورنہ کیسے کہتے: ع
بہ ایں پیری رہِ یثرب گرفتم
(شیخ منظور الٰہی کی یادداشتیں ’’ہم کہاں کے دانا تھے‘‘)


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *