مسعود مفتی اور سانحہ مشرقی پاکستان!

ان دنوں فون کی گھنٹی بجتی ہے تو یا اللہ خیر کہہ کر فون اٹھاتا ہوں کیونکہ شاید ہی کوئی دن ایسا گزرتا ہو جب کوئی بری خبر سننے کو نہ ملتی ہو۔ ایک دن اسلام آباد سے حمید شاہد کا فون آیا کہ مسعود مفتی کا انتقال ہو گیا ہے، ایسی اور بھی بہت سی بری خبریں گاہے گاہے سننے کو ملتی ہیں لیکن مفتی صاحب کی وفات کا سن کر مجھے ذاتی صدمے کے علاوہ قومی صدمہ بھی محسوس ہوا۔ قومی کے حوالے سے یوں کہ ہمارے ادیب بلاشبہ محب ِ وطن ہیں مگر ان میں سے بہت کم ایسے ہیں جنہوں نے قومی سانحات کا دکھ زندگی کی آخری سانس تک محسوس کیا ہو۔ مجھے یہ بتانے کی کوئی ضرورت نہیں کہ مسعود مفتی کتنے بڑے افسانہ نگار تھے کہ ان کا شمار ہمارے چند قابل ذکر افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے مگر ایک دکھ انہوں نے اتنا زیادہ پالا کہ زندگی کے ہر دور میں اس میں اضافہ ہی ہوتا چلا گیا۔ یہ دکھ مشرقی پاکستان میں بنگالیوں پر ہونے والے مسلسل مظالم اور ان کی حق تلفیوں کے نتیجے میں بنگلہ دیش کا وجود میں آنا تھا۔ ان دنوں مسعود مفتی مشرقی پاکستان میں سیکرٹری ایجوکیشن کے عہدے پر فائز تھے اور جب جنرل نیازی نے انڈین جرنیل کے سامنے ہتھیار ڈالے اور اپنے بزدل کمانڈر کے حکم پر ایک ڈسپلن کے تحت ان بہادر فوجیوں کو بھی اپنے ہتھیار زمین پر پھینک کر جنرل اروڑہ کے سامنے آنکھیں نیچی کر کے کھڑا ہونا پڑا جن میں سے بہت سے شہادت کے درجے پر فائز ہونا چاہتے تھے، جس سے پاکستان کی بہترین فوج کا امیج مجروح نہ ہوتا، چنانچہ ہتھیار زمین پر پھینکتے وقت ان کے چہروں پہ شدید غم، دکھ اور بے بسی کی جھلک دیکھی جا سکتی تھی۔ شاید یہ اور دیگر بہت سے مناظر ایسے تھے جن کی وجہ سے مسعود مفتی کے قلم سے لفظوں کی جگہ آنسو بہنے لگے۔ صدیق سالک نے بھی ’’میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا‘‘ کے نام سے کتاب لکھی، جس میں جنرل نیازی کے بہت سے واقعات قلمبند کئے، حمود الرحمٰن کمیشن کی رپورٹ اس حوالے سے ایک مستند حوالہ ہے، اس کے علاوہ بھی اس عظیم قومی سانحہ پر بہت سی کتابیں لکھی گئیں جن کے الفاظ ایک زخم کی طرح دل پر نقش ہو کر رہ گئے ہیں۔

مسعود مفتی نے صرف نوحہ خوانی نہیں کی بلکہ قوم کو بیدار کرنے کے لئے ایک سیاسی جماعت کی بنیاد بھی رکھی۔ میں نے ایک ملاقات کے دوران ان سے عرض کی کہ آپ کا جذبہ قابل صد ستائش ہے مگر آپ اپنا وقت ضائع کریں گے (جس طرح ان دنوں درد دل رکھنے والا لاجواب سنگر جواد احمد کر رہا ہے) کیونکہ لوگ ایک ایسے شخص کے پیچھے نہیں چلیں گے جو آپ کے بارے میں یہ بھی نہیں جانتے کہ آپ کتنے بڑے افسانہ نگار ہیں، آپ کون ہیں، کیا کرتے ہیں، کیا کرتے رہے ہیں اور صرف یہی نہیں بلکہ آپ کے پاس سرمایہ بھی نہیں ہے اور کوئی ڈھنگ کا سیاسی چہرہ بھی نہیں ہے جو آپ کے ساتھ چل سکے اور لوگ اس کے پیچھے چل سکیں۔ مگر مفتی صاحب کا کہنا تھا وہی جو احمد فراز نے کہا تھا ؎

شکوئہ ظلمت ِ شب سے تو کہیں بہتر تھا

اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

مگر یہ جلائی گئی شمع کچھ عرصے بعد بجھ گئی۔ شمع تو بجھ گئی مگر مسعود مفتی کی کتابیں ہمارے لئے مشعل راہ ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ ظلم اپنے بچے ضرور دیتا ہے جس کے نتیجے میں بنگلہ دیش وجود میں آتا ہے۔

یہ کالم لکھتے ہوئے مجھے یاد آیا کہ ممتاز شاعر نصیر ترابی نے جس گھڑی مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی خبر سنی، وہ غم کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوب گئے اور اُنہوں نے فی البدیہہ ایک غزل کہی جو اگلے کالم میں آپ کی نذر کریں گے، فی الحال آپ خوبصورت نوجوان شاعر ابرار ندیم کی نظم ’’16؍ دسمبر 1971ء‘‘ پڑھئے۔

دعائیں بین کرتی ہیں!

مرے مالک، مرے مولا

یہ کیا منظر ہے جو آنکھوں نے دیکھا ہے

مگر دیکھا نہیں جاتا

یہ اِک لمحہ قیامت کا

کئی صدیوں پہ بھاری ہے

فضا میں ہر طرف جیسے

سکوتِ مرگ طاری ہے

عجب اک ہو کا عالم ہے

رگوں میں خون نہیں شاید

مسلسل درد جاری ہے

مگر یہ بے بسی اپنی !

بہت رونے کی خواہش ہے

مگر رویا نہیں جاتا

کسی نے دل کے آنگن میں

مسل کر میرے خوابوں کو

مرے دل کے نہاں خانوں میں ایسا خوف بویا ہے

تھکن سے چور ہیں آنکھیں

مگر سویا نہیں جاتا

خزاں کے سرد موسم میں

بہت تاریک راتوں میں

مرے اجڑے چمن میں

چار سو پھولوں کا ماتم ہے

مرے چاروں طرف جیسے

کلیجہ چیرتی ٹھنڈی ہوائیں بین کرتی ہیں

لئے ہاتھوں میں اپنے پھول سی نوخیز کلیوں کو

کفن دے کر پیشانی چومتی بے حال مائیں بین کرتی ہیں

فلک خاموش ہے لیکن دعائیں بین کرتی ہیں

سپریم کورٹ آف پاکستان نے وزیرِ اعظم کے معاونینِ خصوصی اور مشیروں کی تعیناتی کے خلاف کیس میں وزیرِ اعظم کے معاونینِ خصوصی کی تعیناتی کے خلاف اپیل مسترد کر دی، معاونینِ خصوصی کی تعیناتی سے متعلق اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے اپیل خارج کر دی۔

نیشنل بینک آف پاکستان (این بی پی) کے میڈیا ہیڈ سید ابن حسن کورونا وائرس کے باعث انتقال کرگئے۔

بھارتی کرکٹر ویرات کوہلی کی اہلیہ اور نامور اداکارہ انوشکا شرما نے سوشل میڈیا پر اپنے مداحوں کو بتایا ہے کہ وہ اب پہلے کی طرح بیٹھ نہیں سکتی لیکن کھا سکتی ہیں۔

آکلینڈ میں کھیلے جارہے سیریز کے پہلے ٹی ٹوئنٹی میچ میں پاکستان ٹیم پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے مشکلات کا شکار ہے۔

خیبر پختون خوا کے دالخلافہ پشاور میں 25 دسمبر کو تخریب کاری کا بڑا منصوبہ ناکام بناتے ہوئے 12 مبینہ دہشت گردوں کو گرفتار کر لیا گیا۔

پاکستانی اداکار عثمان مختار عالمی وبا کورونا وائرس کے دور میں بغیر کوئی احتیاطی تدابیر اپنائے شادی سیزن منانے والوں پر برہم دکھائی دے رہے ہیں۔

پاکستان فلم انڈسٹری کی معروف اداکارہ و ہدایتکارہ سنگیتا بھی عالمی وبا کورونا وائرس میں مبتلا ہوگئیں۔

وزیرِ اعظم عمران خان کے معاونِ خصوصی برائے سیاسی روابط ڈاکٹرشہباز گِل کہتے ہیں کہ پاکستان اسٹاک ایکسچینج ڈھائی سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا۔

ٹیسٹ کرکٹر کامران اکمل کا کہنا ہے کہ محمد عامر کی ریٹائرمنٹ کا فیصلہ پاکستان کرکٹ کے لیے اچھا نہیں ہے، تجربے کرکے ملکی کرکٹ کا برا حال کردیا گیا ہے۔

پشاور کے بی آر ٹی کے تہکال اسٹیشن پر بس میں مبینہ خرابی کے باعث اسٹیشن پر بس رکنے کی وجہ سے بی آر ٹی بسوں کی قطار لگ گئی، بی آر ٹی اسٹاف بس کو راستے سے ہٹانے میں مصروف ہے۔

ہم نیند کی کمی سے نمٹنے کے لیے جمائی لیتے ہیں لیکن حیرت انگیز بات یہ پہے کہ جمائی ہمیں جگا کر نہیں رکھتی ہے بلکہ اس کا مقصد تو کچھ اور ہی ہے۔

وزیرِ اعظم عمران خان پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے افغان طالبان کے سیاسی کمیشن سے آج ملاقات کریں گے۔

عالمی وبا کورونا وائرس میں مبتلا فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون کی اہلیہ بریگیٹ میکرون کا کورونا وائرس ٹیسٹ منفی آگیا۔

سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کا کہنا ہے کہ سینیٹ الیکشن کا شیڈول مقررہ تاریخ سے پہلے آسکتا ہے، حکومت کےپاس آئینی جواز نہیں کہ وہ سینیٹ الیکشن تبدیل کرانے کیلئے الیکشن کمیشن کو رائے دے۔

سابق اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کہتے ہیں کہ 150 ارکانِ اسمبلی استعفے دے دیں گے تو اسمبلی نہیں چل سکتی۔

دنیا بھر میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد 7 کروڑ 52 لاکھ 82 ہزار 798 تک جا پہنچی ہے جبکہ اس موذی وائرس سے ہلاکتیں 16 لاکھ 68 ہزار 356 ہو گئیں۔


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *