اگلے دس سال: یہودی علماء کی نظر میں……(2)

یوں تو آمون اسحاق، 1990ء سے ہی دنیا بھر کے یہودیوں میںایک مقبول ترین ربائی رہا ہے، لیکن گذشتہ سال 27ستمبر 2019ء کو جب اس نے کرونا وائرس کی پیش گوئی کی اور ساتھ ہی یہ انکشاف کیا کہ بل گیٹس اس وائرس کو پھیلانے والا ہوگا اور یہ کہا کہ کارپوریٹ دنیا ایک ایسی ویکسین تیار کروائے گی جس کے ذریعے لوگوں کے جسموں میں ایک مائیکروچپ (Micro chip) داخل کی جائے گی جس سے پوری دنیا کو کنٹرول کرتے ہوئے 2021ء میں نیا ورلڈ آرڈر نافذ کر دیا جائے گا۔ بل گیٹس سے نفرت تو سمجھ میں آتی ہے، کیونکہ وہ کارپوریٹ دنیا میں واحد غیر یہودی سرمایہ دار ہے، لیکن آمون اسحاق کی اس سازشی موضوع پر بنائی گئی ویڈیوز یوٹیوب حذف (delete) کر دے گی، جن میں 21ستمبر 2019ء والی ویڈیو بھی شامل ہو تو پھر اس قصے کو سمجھنا کافی مشکل نظر آتا ہے۔ آمون اسحاق نے جس طرح تہذیب ِ مغرب، جمہورت اور جدید سیکولر دنیا کو یہودیت کا دشمن قرار دیا ہے، اس سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ ’’جدید تہذیبِ مغرب‘‘ کو اسی طرح یہودیوں کے لئے زہرِ قاتل تصور کرتا ہے جیسے مسلمان علماء و مفکرین کی اکثریت اپنے لیئے سمجھتی ہے۔ اس کے نزدیک ’’مسیحا‘‘ کے آنے سے پہلے پوری دنیا پر ایک شیطانی حکومت قائم ہونے والی ہے۔جب تک اسرائیل ایک قومی ریاست اور جمہوری آئینی وجود کے طور پراپنے وجود کو قائم رکھے گا اس پر مغرب کا یہ شیطانی اقتدارمسلط رہے گا۔یہ تمام تصور ہمارے ہاں ’’دجال ‘‘ اور ’’دجالی قوتوں‘‘ جیسا ہے، یعنی جس طرح مسلمان مفکرین کہتے ہیںاس وقت دنیا پر چھایا ہوا ’’مغربی دجالی نظام ‘‘پوری دنیا کو اپنے شکنجے میں لے چکا ہے ویسے ہی آمون اسحاق بھی گفتگو کرتا ہے ۔اس کے مطابق اب مغرب، دنیا میں ’’نیا ورلڈ آرڈر‘‘ نافذ کرنے والا ہے۔ آمون نے کہا کہ اقوام متحدہ نے 1992ء میں برازیل کی کانفرنس میںایک ’’ایجنڈا21ئ‘‘ منظور کیا تھاجسے ’’صدی کے ترقیاتی اہداف‘‘ (Millennium Development Goals) کہا جاتا ہے۔ وہ کامیاب نہیں ہوا، اس لئے اب ان کا ’’ایجنڈا30ئ‘‘ ہے جس کا نفاذ اس دنیا پر مکمل کنٹرول کے لئے بہت ضروری ہے۔’’ ایجنڈا21 ئ‘‘کے اہداف میں غربت ، بھوک اور بیماری، کا خاتمہ، صاف پانی ، ٹرانسپورٹ اور توانائی کی فراہمی شامل تھے۔ لیکن ’’ایجنڈ30ء ‘‘ کے نیو ورلڈ آرڈرکے تحت جو اہداف ہیں وہ بہت ہی خوفناک ہیں۔ اس کے تحت (1۔پوری دنیا میں صرف ایک حکومت قائم کی جائے گی، (2۔کیش کرنسی ختم کر دی جائے گی، (3۔دنیا پوری کا ایک ہی سنٹرل بینک ہوگا، (4۔ پوری دنیا کی ایک ہی فوج ہوگی، (5۔کسی قسم کی ریاستی خودمختاری یا قومی ریاست کا وجود نہیں ہوگا، (6۔ تمام کاروبار، گھر وغیرہ ریاست کی ملکیت ہوں گے اور کسی قسم کی نجی ملکیت نہیں ہوگی، (7۔خاندان نام کے ادارے کا خاتمہ کر دیا جائے گا اور بچے ریاست پالے گی، (8۔دنیا کی آبادی کو بہت حد تک کم کر نے کے بعدمزید بڑھنے سے بھی روکا جائے گا، (9۔ہر کسی کو زبردستی بے شمار ویکسین لگا کر کنٹرول کیا جائے گا، (10۔ عالمی سطح پر ہر فرد کی ایک بنیادی آمدنی ہوگی، (11۔ ہر فرد کے اندر زبردستی مائیکرو چپ لگائی جائے گی تاکہ اس کی زندگی کے ہر لمحے پر نظر رکھی جا سکے، (12۔عالمی سوشل کریڈٹ سسٹم کا قیام جس میں صحت، تعلیم، اور روزگار کا تحفظ ہوگا جیسے چین میں ہوتا ہے، (13۔5G کوایک بہت بڑے مانیٹرننگ سسٹم کی طرح بنا دیا جائے گا، (14۔تمام تعلیمی ادارے حکومت کی ملکیت ہوں گے، (15۔ تمام گاڑیاں بھی حکومت کی ملکیت ہوں گی، (16۔تمام کاروبار اور کارپوریشنیں بھی حکومت کی ملکیت ہوں گی، (17۔ضروری سٖفر کے علاوہ ہر قسم کے سفر پر پابندی ہو گی،(18۔لوگوں کی رہائش کے لئے شہر یا علاقے مخصوص کر دیئے جائیں گے اور ان کے علاوہ کہیںبھی رہائش نہیں رکھی جاسکے گی، (19۔ ذاتی گھر، ذاتی زراعت، ذاتی آبپاشی، ذاتی بھیڑ بکریوں کے ریوڑوں پر پابندی ہوگی، (20۔ انسانوں کی ضروریات کے مطابق زمین کا محدوداستعمال ہوگا، (21۔ہر طرح کی دیسی ادویات یا طریقِ علاج پر پابندی ہوگی اور صرف Synthetic ادویات استعمال ہوں گی، (22۔لکڑیاں جلانے یا دیگر فطری طریقے سے آگ جلانے پر پابندی ہوگی۔ آمون کے مطابق یہ ہے اس عالمی حکومت کا نقشہ جو مغرب نافذ کرنے جا رہا ہے۔ یہ حکومت دراصل یہودیوں کے آنے والے ’’مسیحا‘‘ کے مقابل قائم کی جائے گی، تاکہ اسے روکا جاسکے۔ آمون اسحاق نے کہا کہ یہ ایک ایسی حکومت ہوگی کہ آپ فرعون کے زمانے کو بھول جائیں گے۔
آمون اسحاق کی باتیں آج سب کو ایک دیوانے کا خواب نظر آتی ہیں،مگر اس کی باتوںپر یقین کرنے والوں کی اکثریت یہودیوں میں موجود ہے۔ ایسا ہی ایک ’’دیوانے کا خواب ‘‘ ایک اوریہودی ’’کارل مارکس‘‘ نے ڈیڑھ سو سال قبل دیکھا تھا۔ اس کیمونسٹ نظام میں بھی کوئی نجی ملکیت نہیں تھی، کسی ریاست کا تصور نہیں تھا، خاندان کا ادارہ موجود نہ تھا۔ کاروبار سب کا سب ریاست کی ملکیت تھا، زراعت اور صنعت بھی ریاست کی ذمہ داری تھی، گھر، روٹی کپڑا، صحت اور تعلیم ریاست کی ذمہ داری تھی۔ یہ سب جب اس نے فروری 1848ء میں’’کیمونسٹ مینی فیسٹو‘‘ تحریر کیا تو لوگوں کویہ باتیں دیوانے کی بڑ لگتی تھیں مگردنیا کے ہر خطے میں اس کے بیشمار ماننے والے پیدا ہوتے چلے گئے۔ برصغیر پاک و ہند کا ہر بڑا شاعر اور ادیب اس بظاہر ’’پاگل پن‘‘ نظر آنے والے تصور کا دیوانہ تھا۔ سجاد ظہر سے فیض احمد فیض اور اختر الایمان سے ساحر لدھیانوی تک سب اس نظام کی جدوجہد میں شریک تھے۔ صرف ایک علامہ اقبال تھے جو اسے ’’یہودی کی شرارت‘‘ کہتے تھے۔ وہ کال مارکس کے بارے میں تحریر کرتے ہیں
وہ کلیمِ بے تجلی، وہ مسیح بے صلیب
نیست پیغمبر و لیکن دربغل دارد کتاب
’’وہ ایک ایسا کلیم ہے جس کے پاس کوہ طور کی تجلی نہیںہے، ایسا مسیح ہے جس کے پاس کوئی صلیب نہیں،وہ پیغمبر نہیں ہے، لیکن بغل میں کتاب (داس کیپیٹل) لئے پھرتا ہے‘‘۔ لیکن انسانی تاریخ کو یہ دیوانے کا خواب ٹھیک ستر سال بعد 1917ء میں نافذ ہو کر حیران کرگیا۔ روس میں ’’کیمونسٹ انقلاب‘‘ آیا اور پھر یہی دیوانے کا خواب ایک نظام کی صورت 75سال تک آدھی دنیا پر نافذ رہا۔اس ’’دیوانے کے خواب‘‘ کو نافذ کرنے کے لیئے لینن کو مارکس سے تھوڑی بغاوت کرتے ہوئے ریاست کی صورت میں ایک ’’پرولتاریہ آمریت‘‘ (Proletariat Dictatorship)قائم کرنا پڑی ۔ اسی ریاستی تجربے کی راکھ میں سے اب یہ نئی چنگاری برآمد کی جا رہی ہے ۔ اس دفعہ بھی اس کی جنم بھومی ’’یہودی نسل‘‘ ہے۔ آمون نے اس ’’نیوورلڈ آڈر‘‘ کو ایک شیطانی حکمرانی کا نام دیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ’’کرونا کی دوسری لہر اور ویکسین کی ایجاد اس کا راستہ ہموار کرے گی، اور جب ’’نیوورلڈ آرڈر قائم ہو جائے گاتو اس کے نتیجے میں یہودیوں پر قیامت ٹوٹے گی، مگر ان کو بچانے کے لئے ایک ’’مسیحا ‘‘آئے گاجو یورپ کو نیست و نابود کرے گا اور یروشلم سے عالمی حکومت قائم کرے گا۔کیا کوئی مسلمان مفکر اس کے بارے میں سوچ رہا ہے۔( ختم شد )


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *