کروڑوں غریب۔ لاکھوں یتیم۔ بیوائیں

پنجاب میںفیاض الحسن چوہان کے جانے اور فردوس عاشق اعوان کے آنے پر ذہن میں فارسی کا ایک محاورہ گونج رہا ہے۔ لیکن لکھنا مناسب نہیں ہے۔

ترجمان بہت ہی معتبر اور محترم لفظ ہوتا تھا کبھی ۔ رسالوں کے نام یاد کرلیں۔ جلسوں کے پوسٹر یاد کریں کیسی کیسی برگزیدہ ہستیوں کے لیے یہ لقب استعمال ہوتا تھا۔ اب تو صبح سے رات گئے تک ترجمان چینلوں کی اسکرین پر دندناتے ہوئے آتے ہیں۔ الفاظ کے نیزے پھینکتے ہیں۔ بعض نیزے اتنے غیرتمند ہوتے ہیں کہ واپس نیزہ باز کو ہی لگ جاتے ہیں۔ بعض کو ترجمانوں کے عہدے سے اس وقت نوازا جاتا ہے جب وہ سپہ سالار سے ناکام ملاقات کرکے آتے ہیں۔ ترجمانی اس وقت تو بھلی لگتی ہے کہ جس کی کی جارہی ہو وہ بہت سنجیدہ اور عام طور پر خاموش رہتا ہے۔ جب موصوف یا موصوفہ خود ہی دن رات بول رہے ہوں تو ترجمانی کی ضرورت کیا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا نے آبادی کے صرف ایک فی صد یعنی سیاستدانوں کو اپنے شب و روز کا مرکز و محور بنایا ہوا ہے۔ باقی 99فی صد سینکڑوں یونیورسٹیوں۔ دینی مدارس۔ ہزاروں وفاقی اور صوبائی سیکرٹریوں۔ صنعتی علاقوں۔ تجارتی دفاتر۔ ادب گاہوں۔ سماجی انجمنوں میں 24گھنٹے کیا ہورہا ہے۔ اس سے وہ عوام کو با خبر نہیں کرنا چاہتے۔ شاید اس لیے کہ وہاں سب اچھے کام ہورہے ہیں۔ الزامات۔ تہمتیں نہیں لگ رہی ہیں۔ غداری ۔ نا اہلی اور کٹھ پتلی کے سر ٹیفکیٹ نہیں بانٹے جارہے ہیں۔ بلکہ وہاں پی ایچ ڈی کی اسناد تفویض کی جارہی ہیں۔ بہترین کارکردگی کے اعزاز تقسیم ہورہے ہیں۔نہ ہی ہمارایہ متحرک میڈیا ان کروڑوں کو یاد کرتا ہے جو روزانہ غربت کی لکیر سے نیچے دھکیل دیے جاتے ہیں ۔22کروڑ میں سے ساڑھے پانچ کروڑ غربت کی پاتال میں چلے گئے ہیں۔

بہت آگے گئے باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں

کیاکسی اینکر پرسن۔ کسی ترجمان۔ مجھ جیسے کسی کالم نویس کو فکر ہے کہ یہ ساڑھے پانچ کروڑ اس مہنگائی میں کیسے جی رہے ہوں گے۔ بچوں کے دودھ۔ دو وقت کی روٹی کا اہتمام کیسے کرتے ہوں گے؟میں، خبر نہیں، آج کیوں فکر مند ہورہا ہوں۔ گزشتہ تین چار دہائیوں میں یہ ملک جن ادبار۔ آفات۔ جنگوں۔ بم دھماکوں۔ انتہا پسندی۔ فرقہ واریت۔ لسانی اور نسلی قتل و غارت سے گزرا ہے۔ اس نے ملک میں کتنے یتیموں کا اضافہ کیا ہے۔ کتنی بیٹیوں کو بیوگی سے دوچار کیا ہے۔ کتنے چلتے پھرتے پاکستانی اپنی ٹانگیں ۔ اپنے ہاتھ گنوا بیٹھے ہیں۔ کتنی آنکھیں چلی گئی ہیں۔ کتنوں کی سماعت زد میں آئی ہے۔ ہمارے معاشرے میں معذوروں۔ اپاہجوں۔ نابینائوں۔ اور بہروں کی بڑی تعداد وجود میں آئی ہے۔ حادثات۔ بم دھماکوں۔ قبائلی جھگڑوں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارروائیوں میں زخمی ہونے والے اگر اشرافیہ سے تعلق رکھتے ہوں تو ان کے لیے بڑے اسپتال ہیں۔ غیر ممالک میں جاسکتے ہیں۔ مگر ہماری غریب اکثریت کو تو قریبی اسپتال میں بھی مناسب علاج اور دیکھ بھال نہیں ملتی۔حکومتیں سیاسی بھی آئیں۔ فوجی بھی۔ لیکن کسی نے ان ستم زدگان کے لیے کوئی جامع پالیسی تشکیل دی۔ نہ کوئی ادارہ قائم کیا۔

کیا کہیں ان معذوروں کی رجسٹریشن ہورہی ہے۔ ان کا حساب کتاب رکھا جارہا ہے۔فوج اور پولیس تو اپنے زخمیوں اور معذوروں کے لیے کوئی انتظام رکھتی ہیں۔ لیکن جو عام لوگ زخمی ہوتے ہیں۔ ان کا اندراج کون کرتا ہے؟مصدقہ اعداد و شُمار تو کہیں نہیں ملتے ہیں۔ وکی پیڈیا اور دوسرے مقامات سے مجھے جو تفصیلات ملی ہیں۔ ان کے مطابق پاکستان میں 42لاکھ یتیم ہیں۔ جن کی یتیمی کی وجوہ الگ الگ ہیں مگر عدم توجہی ایک سی ہے۔ بیوائیں 27لاکھ ہیں۔ یہ سب سے زیادہ مظلوم اور مجبور ہیں۔ ان میں وہ بھی ہیں جن کے سہاگ وطن پر جان قربان کرنے والے تھے۔ کچھ دہشت گردی کے واقعات میں چل بسے۔ ہمارے رسم و رواج۔ قبائلی روایات برادری کی رسمیں ان بیوائوں کو جیتے جی مار دیتی ہیں۔ذرائع کے مطابق صرف کے پی نے زخمیوں اور معذوروں کی رجسٹریشن کا بندوبست کیا ہے۔ اس کے مطابق 40ہزار مرد۔ 19½ہزار عورتیں۔ 19ہزار بچے۔ ان کے ہاں مندرج ہوئے ہیں۔ مالا کنڈ ڈویژن سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔سیاسی خلفشار۔ بم دھماکوں۔ مختلف تحریکوں۔ سماجی المیوں سے نفسیاتی امراض میں مبتلا ہونے والوں کی تعداد ایک کروڑ سے زیادہ ہے۔ ان میں سے اکثر اپنے آپ کو بیمار بھی نہیں سمجھتے۔ خواب آور دوائوں کے استعمال میں ہوش ربا اضافہ ہورہا ہے۔

بے روزگاروں کی تعداد 66لاکھ سے زیادہ بتائی جارہی ہے۔ کورونا کی وبا کا بہانہ بناکر پاکستانی میڈیا سے ہزاروں کارکن نکالے گئے۔ وہ معلوم نہیں اس فہرست میں شامل ہیں یا نہیں۔ اتنی بڑی تعداد۔ اتنے خاندان اپنے دن رات کیسے گزارتے ہیں۔ مہنگائی سر چڑھ کر بول رہی ہے۔ حکمران اور اپوزیشن ایک دوسرے پر الزامات عائد کرتے ہیں۔ قیمتیں کم کرنے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا جاتا۔تحریکیں 1953 سے چل رہی ہیں۔ سیاسی کارکنوں اور مذہبی پیروکاروں کے گھر ابتدا سے اجڑ رہے ہیں۔ کسی پارٹی کی حکومت آتی ہے تو اس کی اشرافیہ کے افراد کو وزارتیں۔ سرکاری ملازمتیں۔ سفارشیں۔ لائسنس، پرمٹ مل جاتے ہیں۔ تاریخ نے دیکھا ہے۔ بعض گھرانوں کے سارے افراد برسر روزگار ہوجاتے ہیں۔وہ وفادار کارکن جو اکیلا ہی دس پندرہ افراد کا کفیل ہوتا ہے وہ سیکرٹریٹ کے چکر لگاتا رہتا ہے۔ اس کو پارٹی پوچھتی ہے نہ ریاست۔

کیا کوئی ادارہ کوئی این جی او کوئی تحقیقی انسٹی ٹیوٹ۔ ان بد قسمت افراد خاندانوں کا مصدقہ ریکارڈ رکھتا ہے۔ کوئی سیاسی پارٹی ان کے اعداد و شُمار جمع کرتی ہے۔ ملک کے بہت سے خیراتی ادارے اپنے طور پر ان کی مدد کرتے ہیں لیکن کیا حکومت اور ریاست کے فرائض میں ان کی دیکھ بھال شامل نہیں ہے؟ ہمارا ملک نوجوان آبادی والا ملک کہلاتا ہے۔ ان متاثرین میں بھی زیادہ تعداد نوجوانوں کی ہے۔ یہ نوجوان جو ہماری طاقت ہیں۔ دولت ہیں۔ ان کی باقاعدہ دیکھ بھال ہو۔ تربیت ہو تو وہ نہ صرف پاکستان کی معیشت میں سرگرم کردار ادا کرسکتے ہیں وہ زیادہ عمر رسیدہ افراد والے ملکوں میں جاکر بھی خدمات انجام دے سکتے ہیں۔ یتیم بچوں کی درست پرورش ہمیں کارآمد شہری دے سکتی ہے۔ بیوائوں کی دیکھ بھال سے، ان کے احترام سے ہم بہت کچھ حاصل کرسکتے ہیں۔ وہ یتیم بچوں کی پرورش میں حصّہ لے سکتی ہیں۔

یتیموں۔ بیوائوں۔ معذوروں۔ ذہنی مریضوں۔ بے روزگاروں کی اتنی بڑی تعداد خطرے کی گھنٹی ہے۔ کسی کو سنائی دے رہی ہے یا نہیں۔


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *