تہذیب، خنجر اور خودکشی

حصولِ علم اور عقل کا استعمال قرآن کی بنیادی اور جوہری تعلیمات میں شامل ہے تو ہماری ترجیحات میں شامل کیوں نہیں ؟ المیہ یہ کہ الٹا انہیں مادیت اور شیطانیت بنا دیاگیا۔یہ لکھتے ہوئے بھی ہاتھ کانپتے ہیں کہ کہاں کہاں کیسی کیسی پریکٹسنرکس نام پر ہو رہی ہیں۔

مومن اگر واقعی اپنے عہد، اپنے عصر سے ہم آہنگ ہوتا ہے تو اس کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ بہت سی چیزوں کو ری ڈیفائن کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم نے گدھے، گھوڑے، خچر، اونٹ، ہاتھی کو تو موٹر سائیکل، کار، بس، ریل، راکٹ، جہاز سے ری پلیس کر دیا تو باقی کس نے کرنا تھا ؟ کل تک تصویر ’’حرام‘‘ تھی پھر پاسپورٹ ویزے کی مجبوری نے ’’رولز ریلیکس ‘‘ کر دیئے کہ یہی بات علی شریعتی کرتے ہیں یعنی ۔۔۔

“CHANGING RULES FOR THE CHANGING NEEDS AND UNCHANGING RULES FOR THE UNCHANGING NEEDS”

آج اگر حرام اور شیطانی ’’سٹل کیمرہ‘‘ کی جگہ مووی کیمرہ کے سامنے نا محرموں کے ساتھ بن ٹھن کے بیٹھنا قابل قبول ہی نہیں ،روٹین بن چکا ہے تو کچھ دیگر معاملات پر بھی نظرثانی کرلی جائے تو کیا خیال ہے ؟

پہلی جنگ عظیم کے بعد انہیں آپس میں بری طرح متصادم اور برسر پیکار دیکھ کر (شاید) علامہ اقبال نے پیش گوئی کی تھی کہ ’’ان کی تہذیب خود ان کے خنجر سے خودکشی کرے گی کیونکہ ’’شاخِ نازک‘‘ پر بنا ہوا ’’آشیانہ ‘‘ ناپائیدار ہو گا اور یہ پیش گوئی تقریباً سو سال پرانی ہے لیکن سب کچھ الٹ ثابت ہوا کیونکہ ان کی تہذیب کا آشیانہ جو سائنس اور ٹیکنالوجی یعنی علم و ہنر کے تنکوں سے بنا تھا، ناقابل تسخیر ثابت ہوا اور ان کی تہذیب ہرنوں کی طرح قلانچیں بھرتی ہوئی مریخ تک جا پہنچی اور ہم ’’جمعہ کی چھٹی ‘‘…’’شلوار کے سائز‘‘ …’’نیل پینٹ کے ساتھ وضو ہو سکتا ہے یا نہیں‘‘ اور ’’عید کے چاند‘‘ میں ہی پھنسے رہ گئے ۔پاکستان اپنی تمام تر غربت، بدانتظامی، جہالت، اداروں کی تباہی، کرپشن، اخلاقیات کی بربادی کے باوجود شاید عالم اسلام کا واحد سچ مچ جاندار ملک ہے جن کے عوام کی سوچ اور سمت تبدیل کر دی جائے تو شاید یہ باقی ماندہ عالم اسلام کو بھی موٹی ویٹ، موبلائز اور انسپائر کرکے بہتری کی کوئی صورت پیدا کر سکے۔غلبہ تو دور کی بات، تاریخ اور تاریخی غلطیاں ہمیں اس موڑ پر لے آئی ہیں جہاں ’’سروائیول‘‘ ہی مسئلہ بن چکا ہے۔ہم جن ’’برادرز‘‘ پر تکیہ کرتے ہیں ان کا حال تو حال ہی میں کھل کر سامنے آچکا تو سچی بات ہے مجھے کوئی گلہ، شکوہ، شکایت نہیں کہ ’’سروائیول‘‘ بری بلا ہے لیکن سوچتا یہ ہوں کہ کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ چند باقی چیزوں کی طرح ہم بھی ’’تہذیب‘‘کو ری ڈی فائن کریں کہ مادیت روحانیت کی دشمن کیا ضد بھی نہیں کیونکہ مادہ بھی اسی کی تخلیق ہے جو اشرف المخلوقات سے لیکر ان گنت کائناتوں تک کا مالک ہے۔

ناکامی اور کامیابی کے درمیان، غالب اور

مغلوب کے درمیان، حاکم اور محکوم دنیا کے درمیان خلیج اتنی وسیع اور گہری ہوتی جا رہی ہے کہ شاید آج ہی اسے پاٹنا ممکن نہ ہو لیکن تقریباً ایک صدی کے لگ بھگ بعد یہ کام نا ممکن ہو جائے گا لیکن یہاں ہمیں ڈسکوں اور سینیسٹوںسے ہی فرصت نہیں۔تین مین سٹریم نام نہاد سیاسی جمہوری جتھوں کے رویوں، سوچوں، حرکتوں پر غور کریں تو کسی پیش گوئی کی ضرورت نہیں۔

ہم بھی بہت عجیب ہیں اتنے عجیب ہیں کہ بس

خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں

جتنے سال ضائع اور برباد ہو گئے، ان پر ملال سے کہیں زیادہ فکر اس بات پر کہ اگر مزید ستر 75برس بھی اسی چال چلن کی بھینٹ چڑھ گئے تو انجام کتنا دردناک اور شرمناک ہو گا۔اس دنیا بلکہ گلوبل ویلیج کے ’’برہمن‘‘ بنیں نہ بنیں لیکن اچھوت اور شودر بننے، ادھیک اور اچھیک بننے سے خوف آتا ہے۔ ’’ادھیک‘‘ وہ جسے دیکھنے سے آنکھیں گندی ہو جائیں اور ’’اچھیک‘‘ وہ جسے چھونے سے ہاتھ غلیظ ہو جائیں تو کبھی سوچا یہ سبز پاسپورٹ کہاں کھڑا ہے؟

حیرت ہوتی ہے اس بیمار فالج زدہ ذہنیت پر جو اس خام خیال پر بغلیں بجاتی ہے کہ امریکہ سے ’’سپرپاور‘‘ کاسٹیٹس چھن جائے گا کہ چین سیلابی ریلے کی طرح چڑھا چلا آ رہا ہے ۔اول تو یقین رکھیں ’’ہنوز دلی دور است ‘‘ لیکن اگر چند عشروں بعد ایسا ہو بھی جائے تو ہمارے تمہارے کس کام کا ؟مسئلہ یہ نہیں کہ کون ’’سپرپاور‘‘ ہے ۔اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم کہاں اور کس حال میں ہوں گے ؟احمقانہ خواب دکھانے اور بے سری لوریاں سنانے والوں کی کوئی کمی نہیں، دوچار تو ایسے بھی ہوں تو مسلسل چتائونیاں دیتے رہیں اور آخری بات یہ ہے کہ بہت طاقتور اور بہت کمزور میں دوستی اور بھائی چارہ صرف کہانیوں میں ہوتا ہے اور حقیقت یہ کہ ’’سپرپاور‘‘ تو ہزاروں میل دور بھی ہو تو بے رحم اور خود غرض ہوتی ہے لیکن یہی ’’سپرپاور‘‘ اگر پڑوس میں ہو تو خود ہی سوچ لو کیسے کیسے رنگ اور ڈھنگ نہ دکھائے گی اور غلاموں کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ’’آقا‘‘ کون ہے؟ ڈکٹیشن کون دے رہا ہے اور اس کی رنگت کیسی ہے؟ قد کتنا ہے؟ناک کیسی ہے ؟زبان کون سی ہے ؟اس کا مذہب کیا ہے اور ہے بھی یا نہیں؟

جانتا ہوں کہ صحرا میں اذان دے رہا ہوں لیکن

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

گزشتہ سماعت پراٹارنی جنرل پاکستان اور دیگر فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر عدالت عظمیٰ نے رائے محفوظ کی تھی

ضلع میرپور میں تمام تعلیمی ادارے اور پبلک ٹرانسپورٹ بھی بند رہے گی۔

سابق گورنر خیبرپختونخوا علی محمد جان اورکزئی کے گھر پر ڈکیتی کا مقدمہ درج ہوگیا۔

برطانیہ اور اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق نے میانمار میں فوجی بغاوت کے خلاف سراپا احتجاج پُرامن مظاہرین پر طاقت کےاستعمال کی شدید مذمت کرتے ہوئے میانمار کی فوج سے طاقت کا استعمال فوری روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔

تھائی لینڈ میں حکومت کے خاتمے کا مطالبہ لے کر ہزاروں لوگ سڑکوں پر نکل آئے، پولیس نے ربر کی گولیاں اور پانی کی توپیں چلا کر مظاہرین کو منتشر کیا، جسکے نتیجے میں متعدد مظاہرین زخمی ہوگئے۔

میانمار میں فوجی بغاوت کے خلاف احتجاج کرنے والے مظاہرین پر پولیس نے فا ئرنگ کی، ربر کی گولیوں کے استعمال سے دس سے زائد افراد ہلاک ہوگئے،

امریکا اورافغان طالبان کے درمیان ہونے والے دوحا معاہدے کو ایک سال مکمل ہوگیا، طالبان نے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ دوحا معاہدے کا متبادل تلاش کرنے کا نتیجہ ناکامی ہوگا، طالبان نے امریکا پر زوردیا کہ وہ اپنے وعدوں پر عمل کرے۔

ناقدین کی جانب سے متنازع ٹیکنالوجی سے جُڑے سکیورٹی خدشات خصوصاً خواتین کو ممکنہ طور پر لاحق ہونیوالے خطرات پر تحفظات کا اظہار کیا جارہا ہے۔

پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) 6 کے 11ویں میچ میں لاہور قلندرز نے دلچسپ مقابلے کے بعد دفاعی چیمپئن کراچی کنگز کو 6 وکٹ سے مات دے دی۔

امریکی ریاست نیویارک کے گورنر Andrew Cuomo ایک ہفتے میں دوسری بار جنسی ہراسانی کے الزمات کی زد میں آگئے۔ ایک اور سابقہ ماتحت خاتون اہلکار اینڈریو کومو کے خلاف ہراسانی کے الزمات کے ساتھ سامنے آگئیں۔

نثار کھوڑو نے کہا کہ سینیٹ میں سندھ تو کیا وفاق میں بھی کامیابی سے تبدیلی سرکار کو سرپرائز دینگے۔

امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا ہے کہ سندھ حکومت تعلیم کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہ کرے۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے سنی تحریک کے سربراہ ثروت اعجاز قادری نے ملاقات کی ہے۔

اٹلی میں نہروں کے شہر وینس کی رونقیں مانند پڑنے لگیں۔ غیر معمولی کم لہروں کے باعث وینس کی گلیوں میں پانی کی سطح انتہائی کم ہوگئی۔

انٹارکٹیکا میں برطانوی ریسرچ سینٹر کے قریب نیویارک شہر کے رقبے سے بھی بڑا آئس برگ ٹوٹ کر علیحدہ ہوگیا۔ ماہرین نے دس سال قبل اس مقام پر دراڑ پڑنے سے متعلق آگاہ کیا تھا۔


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *