مٹی بہت زرخیز ہے!

میں ابھی ابھی نظریہ پاکستان ٹرسٹ کی شاہراہ پاکستان پر واقع شاندار عمارت میں ایک پروقار تقریب سے لوٹا ہوں جہاں ہمارے پیارے بھائی رئوف طاہر کی یاد میں ایک ریفرنس منعقد تھا۔ گورنر پنجاب چودھری محمد سرور مہمان خصوصی تھے اور محترم جاوید ہاشمی ملتان سے سیدھا اس تقریب میں شمولیت کے لیے پہنچے تھے۔ جاوید ہاشمی کا تعارف ایک بزرگ سیاست دان کے طور پر کرایا گیا۔ کل جو شخص بھرپور جوانی کے ساتھ ایک طالب علم کے طور پر اس شہر میں ابھرا تھا آج اس کی بزرگی کا تذکرہ سن کر سب غم کی اس گھڑی میں بھی مسکرا دیئے۔ اندازہ ہوا وقت کس تیزی سے گزر رہا ہے۔ میں نے اس بات کی شدت کو کم کرنے کے لیے کیا کہ یوں کہہ لو کہ جواں بزرگ جاوید ہاشمی۔ دراصل یہ سب فقرے بازی نہیں ہے بلکہ وقت کے بہتے دریا کا ایک سبق ہے۔ ابھی کل کی بات ہے کہ ہاشمی (میں انہیں اسی نام سے بلاتا ہوں) ایک ابھرتی ہوئی قیادت کی مجسم تصویر بن کر اس شہر میں ابھرے تھے اور پورے ملک پر چھا گئے تھے۔ انہوں نے بتایا رئوف طاہر سے ان کا 49 سال کا تعلق ہے گویا نصف صدی کا۔ جی ہاں‘ نصف صدی کا دو چار برس کی بات نہیں۔ میں نے اپنے دائیں طرف مڑ کر دیکھا‘ مجیب شامی میرے ساتھ بیٹھے تھے جن سے میرا چھپن ستاون برس کا تعلق ہے۔ رئوف طاہر اور جاوید ہاشمی سے بھی اسی دوران میری زندگی میں آئے۔ کئی کہانیاں نظروں میں گھوم گئیں۔ مشترکہ نظریاتی لڑائیوں کی ایک لمبی کہانی جو اس ملک میں لائی گئی تو کیا وہ سب جوانیاں اب بزرگی کے دائرے میں داخل ہو گئی ہیں۔ کم از کم رئوف طاہر کو دیکھ کر ایسا نہیں لگتا تھا۔ وہ ہم میں سے تھا مگر سچ مچ ان جواں جذبات سے معمورتھا جو ہمارے بچپن کے خواب تھے اور جن کی وجہ سے جاوید ہاشمی کبھی بوڑھے نہیں ہوں گے‘ وہ بزرگ ہیں‘ مگر سن و سال کی وجہ سے نہیں‘ اس تجربے‘ علم اور جدوجہد کی وجہ سے جو اس نسل کے سرخیل کے طور پر انہوں نے اس دیس میں انجام دی ہیں۔
ایک لمبی جدوجہد ہے جو اب بھی جاری ہے۔ سلمان غنی کو دیکھ لو اکیلا ہی چومکھی لڑتارہتا ہے۔ ان لوگوں میں گنا جاتا ہے جو بے لوث ا ور مخلص ہیں۔ کچھ کماتے کھاتے نہیں‘ بس اپنی ہٹ کے پکے ہوتے ہیں۔ رئوف طاہر کے بارے میں یہ بات سلمان ہی کہہ سکتا تھا کہ اس شہر میں ہمارے درمیان اگر کوئی شخص درویش کہلا نے کا حق دارہے تو وہ صرف رئوف طاہر ہے نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا۔ سب سے بڑی بات یہ کہ کبھی انا کی سولی پر لکٹنے کا شوق من میں نہیں سمایا۔ شامی صاحب نے کہا تھا کہ کوئی اگر ان کے خلاف بات کرتا تو وہ ڈٹ جاتا۔ خیر ان سے تو ان کا بہت گہرا تعلق تھا‘ مجھ جیسوں کے خلاف اگر کوئی زبان لعن دراز کرتا تو تیغ براںبن جاتا۔ آخر کیا تعلق تھا ،یہی تھا کہ ہم ایک ہی راہ کے مسافر تھے۔ یہ قبیلہ مٹتا جارہا ہے یا بکھرتا جارہا ہے۔ ابھی کل ارشاد احمد عارف، ڈاکٹر مغیث الدین شیخ کے صاحبزادے کے ولیمے میں ملے‘ کہنے لگے ہمیں ملتے رہنا چاہیے‘ ملاقاتوں میں لمبا لمبا وقفہ نہیں آنا چاہیے۔ یہ احساس صرف اس لیے پیدا نہیں ہو رہا کہ:
چراغ بجھتے چلے جا رہے ہیں مرحلہ وار
بلکہ اس لیے بھی کہ جواں جذبوں کو تازہ کرنے کی ضرورت کا جیسا احساس اب ہورہا ہے کبھی نہ تھا۔ ملک کی رگیں کھینچی جا رہی ہیں‘ گلہ گھونٹا جارہا ہے۔ ہر پانچ دس برس بعد ہم خواب دیکھتے ہیں کہ اندھیرے چھٹ جانے کا وقت آ گیا ہے‘ روشنی دور سے دکھائی دے رہی ہے مگر جانے پھر کیا ہوتا:
منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ،ٓہستہ
دل دکھتا ہے‘ مگر یہاں میں ان خوابوں کا ذکر نہیں کرنا چاہتا جو بکھرتے جا رہے ہیں، مبادا یہاں سے سیاست شروع ہو جائے۔ میںسیاست کو شجر ممنوعہ نہیں سمجھتا مگر آج اس کا کڑوا پھل کھانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ اگر میں اس محفل میں نہ گیا ہوتا تو ارادہ وہ اشاریے مرتب کرنے کا تھا جن کے مطابق ہم زندگی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ ایک بار پھر ہماری زندگیوں میں یہ موقع آ رہا تھا کہ لگتا تھا مری نسل بھی وہ دن دیکھے گی جب ہم کہہ سکیں گے کہ پاکستان دنیا کے صف اول کے ممالک میں ہیں۔ اب تو عالم اسلام میں بھی ہماری وہ حیثیت نہ رہی جو چند برس پہلے بوجوہ تھی۔ اب ہم لاکھ ڈھول پیٹیں کہ ہم ایٹمی طاقت ہے مگر دنیا ہمیں گھاس نہیں ڈالتی۔ گھاس سے یاد آیا کہ ہمارے لیڈروں نے کہا تھا کہ ہمیں چاہے گھاس کھانا پڑے ہم ایٹم بم بنائیں گے۔ ہم گھاس تو کھا رہے ہیں مگر ایٹم بم ہم سے ہمیں جو توقعات تھیں وہ بھی پوری نہیں ہو رہیں۔ حد احتیاط ‘وگرنہ جانے کیا کچھ کہہ جاتا۔ حد احترام‘ اس سب کا ذمہ دار کون ہے۔ اچھا چپ یہ اچھی ہے۔ کیونکہ بولوں تو رات گونجتی ہے۔ ایسا حساس سناٹا ہے۔
میں دوسرف طرف نکل گیا۔ ویسے بھی میں اس جلسے کی کارروائی لکھنے نہیں بیٹھا تھا‘ خاصے لوگ تھے‘ پھر بھی کہے دیتا ہوں کہ یہ چند مٹھی بھر نوجوان اٹھ کھڑے ہوں تو ملک کا مقدر بدل سکتے ہیں۔ میں پھر‘ ایک نیا خواب تو نہیں دیکھنے لگا ہوں۔ یہ ڈاکٹر فیاض رانجھا‘ یہ خالد مقبول‘ جمیل اطہر‘ عمران اسلم‘ ڈاکٹر سلیم مظہر‘ رشید شاہد‘ مصطفی تاثیر ایک پورا انبوہ ہے جو ایک قبیلہ ہے۔ وقت اس بات کا منتظر ہے کہ کوئی چنگاری یہیں سے بھڑکے تو شعلہ جوالا بننے کی نوید ملے۔ نہ سہی یہ سب لوگ جن جواں جذبوں کے ترجمان تھے‘ وہ جذبے زندہ ہو جائیں تو اس شعلے کو سنبھالنے والے بہت۔
مگر وقت زیادہ دیر انتظار نہیں کرتا۔ ہم نے بار بار وقت کو مایوس کیا۔ اس کی مزید گنجائش نہیں ہے۔ اس وقت طاغوت سے بھی ٹکرانے کی بھی ضرورت نہیں‘ صرف اپنے جذبوں کو زندہ کرنے اور انہیں صحیح سمت لگانے کی حاجت ہے ،وگرنہ یہ مٹی بہت زرخیز ہے۔


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *