سفینۂ رشیدی چل پڑا

ناخدا ہونے کا سزا وار وہی ہو سکتا ہے جو اپنے فیصلے کو ’’ری وزٹ‘‘ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو ۔ ری وزٹ یعنی دورۂ مکرر اور عمران خاں نے چند دنوں میں دوبار یہ ثابت کیا کہ وہ اپنے فیصلے پر دورۂ مکرر فرما سکتے ہیں۔ اپنے زیر حکمرانی صوبے میں انہوں نے آفریدی نام کے کسی صاحب کو نگرانی وزیر اعلیٰ مقرر فرمایا۔ اسی رات ایک تفصیلی اطمینان و تسلی بخش ملاقات بھی نامزد وزیر اعلیٰ سے فرمائی اور ٹھیک چوبیس گھنٹے کے بعد فیصلے پر ری وزٹ فرمایا اور نامزدگی واپس لے لی۔ دو روز بعد پنجاب میں ناصر کھوسہ کا نام تجویز کیا اور اس پر اصرار کیا ان کی بطور نگران وزیر اعلیٰ نامزدگی پر تعریفی کلمات بھی ارشاد فرمائے ان کی جماعت کے تین سے زائد رہنما کھوسہ صاحب کی تعریف میں رطب اللسان بھی رہے اور اس فیصلے کے ٹھیک 24گھنٹوں ک بعد اس فیصلے پر ری وزٹ فرمایا اور تائید واپس لے لی۔
اصولی طور پر اس باب میں کوئی شک نہیں رہ جاتا کہ قوم کی ڈوبتی نائو کو پار لگانے کی جیسی صلاحیت خان صاحب میں پائی جاتی ہے۔ ویسی حال میں نہ ماضی میں کسی اور میں نہیں پائی گئی۔ وہ مسلمہ طور پر ایک عظیم مدبر کے طور پر سامنے آئے ہیں ایسا مدبر جو صرف چوبیس گھنٹے کے تدبر کے بعد ایک صحیح فیصلے کو دوسرے صحیح فیصلے سے بدل سکتا ہے لیکن افسوس ہے کہ ان کی صلاحیت کو لوگوں نے مزاح اور طنز کی سان پر رکھ لیا ہے۔ بہت ہی صدمہ ہوا جب ایک ٹی وی پروگرام میں کسی صاحب کو یہ کہتے سنا کہ یار‘ یہ کیا بندہ ہے۔ بھئی تابعدار بندے ایسے ہی ہوتے ہیں۔ چند ماہ پہلے ایک اینکر پرسن نے تو یہ تک کہہ دیا کہ عوام میں خاں صاحب کے لیے رائے خراب ہوئی ہے۔ لاحول ولا۔ ایک صاحب نے تو یہاں تک طنز فرما دیا کہ خاں صاحب کیا کرتے‘ اوپر سے حکم والا وٹس ایپ آتے آتے تاخیر ہو گئی۔
٭٭٭٭٭
اس آخری طنز نے تو حد ہی کر دی۔ بھئی ضروری ہے کہ ہر فیصلہ اوپر سے ہی آئے۔ خان صاحب کا اپنا گھرانہ اس وقت ’’دارالحکمت ‘‘بنا ہوا ہے۔ خان صاحب فرما چکے ہیں کہ مولانا روم اور حضرت ابن عربی سے کہیں بڑھ کر ،معرفت کا خزانہ اس وقت ان کے گھر میں ہے اس سے حتمی طور پر یہ بھی معلوم ہوا کہ خان صاحب بذات خود بھی علم و دانش اور معرفت کے بہت ہی بالا مقام پر فائز ہیں کیونکہ یہ فیصلہ کرنا کہ علم و حکمت اور معرفت کے باب میں کون کس سے بڑھ کر ہے۔ معمولی دانش مند کا کام نہیں ہو سکتا۔ تو معلوم ہوا کہ چوبیس گھنٹے کے تدبر کے بعد ایک مزید صحیح فیصلے پر پہنچنے کے لیے ضروری نہیں کہ وٹس ایپ یا فون کا انتظار کیا جائے یہ گھر میں موجود دارالحکمت اور دانش کدے کی رہنمائی بھی تو ہو سکتی ہے جو زیر استفادہ آئی ہو۔ وٹس ایپ والی بات محض بدگمانی ہے۔ خوش گمانی کا تقاضا ہے کہ موخر الذکر امکان کو تسلیم کیا جائے۔
٭٭٭٭٭
تازہ تازہ مشرف بہ عمران ہونے والے اینکر نے فرمایا کہ عمران خان کے اس مدبرانہ نظرثانی والے فیصلے سے عوام میں اس تاثر کو تقویت ملے گی کہ خان صاحب الیکشن ملتوی کرانے کے کھیل کا حصہ ہیں۔
اول تو کھیل کا لفظ غیر معقول ہے یہ بہت سنجیدہ معاملہ ہے۔ ہو سکتا ہے یہ تاثر ٹھیک ہو لیکن بہرحال اس کا اس قصۂ رپورٹ سے کوئی تعلق نہیں جو بقول راوی‘ منگل کی رات خان صاحب کو کچھ اہم کار پردازوں یعنی رجال غیب نے پیش کی تھی۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ الیکشن بروقت ہوئے تو ایک اور شاندار شکست‘ جو شانداری میں 2013ء سے بڑھ کر ہو گی خان صاحب کا انتظار کر رہی ہے۔
٭٭٭٭٭
الیکشن کے التوا کے لیے رواں دواں سفینہ رشیدی میں حسب توقع اور حسب ہدایت سنجرانی ماڈل بھی سوار ہو گیا ہے سنجرانی ماڈل نے مطالبہ کیا ہے کہ الیکشن ایک ماہ کے لیے ملتوی کر دیے جائیں۔ التوا کے لیے انہوں نے جو وجہ سرفہرست بتائی ہے وہ حج ہے۔ سنجرانی ماڈل نے کہا ہے کہ الیکشن حج کے دوران آ رہا ہے بہت سے حاجی ووٹ دینے سے رہ جائیں گے۔
مزید دلیل یہ دی ہے کہ کوئٹہ کے کئی پولنگ سٹیشنوں پر بجلی نہیں ہے۔ کیا بات کی ہے آپ نے۔ الیکشن دو ماہ بعد ہونے ہیں، کیا ان دو ماہ میں پولنگ سٹیشنوں پر بجلی نہیں پہنچائی جا سکتی۔ اگر دو ماہ میں بجلی وہاں نہ آئی تو کیا ضمانت ہے کہ تیسرے ماہ آ جائے گی۔ آپ کی دال بہت کالی ہے۔ اس طرح نہیں گلے گی کچھ اور اپائے کیجیے!۔
سنا ہے آنے والے دنوں میں التوا کی کچھ عرضیاں اور بھی ڈالی جانے والی ہیں۔
٭٭٭٭٭
سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کارگل جنگ کو ایک غلطی قرار دیا ہے۔ سیمینار میں شریک دوسرے مقررین نے نہ صرف ان کی تائید کی بلکہ اس جنگ کے لیے غلطی سے بڑھ کر کچھ زیادہ سخت الفاظ کا استعمال کیا۔
حضور ‘ غلطی اسے کہتے ہیں جس سے مطلوبہ نتائج برآمد نہ ہو سکیں۔ جو منصوبہ اپنے ہدف کے حصول میں ایک سو ایک فیصد کامیاب ہو اسے غلطی نہیں کہتے۔ جو ہدف تھا وہ حاصل ہوا کہ نہیں اور پھر حاصل ہو کر پورے آٹھ سال فاتح کارگل کے پاس رہا کہ نہیں۔ ایک بالکل صحیح کو ایک غلط کہہ رہے ہیں یہ بالکل غلط بات ہے جناب۔
٭٭٭٭٭
پشاور میں 76ارب روپے سے بننے والی میٹرو کے ایک سینئر انجینئر گوہر خاں یہ کہتے ہوئے مستعفی ہو گئے کہ منصوبے میں استعمال ہونے والا سامان ناقص ہے اور کام کا بھی کوئی معیار نہیں۔ انہوں نے اسے بے سروپا منصوبہ قرار دیا۔
بے سروپا منصوبے تو لاہور ملتان اور پنڈی کے میٹرو کے تھے جن کی مجموعی لاگت بھی 76ارب سے کم تھی۔ ایسی عظیم الشان لاگت والا منصوبہ کیسے بے سروپا ہو سکتا ہے۔
رہی بات ناقص میٹریل کی تو یہ کوئی معنے نہیں رکھتی۔ آپ کو مدبرانہ قیادت پر اعتماد ہونا چاہیے۔


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *