’’حُسینیت ؑ ، یزیدیت اور عُلمائے سُو، کُو بہ کُو!‘‘

معزز قارئین!۔ آج 10 محرم اُلحرام ہے ، ’’ شُہدائے کربلا ؑ ‘‘ کے احترام اور اُن کی یاد کا دِن۔ متحدہ ہندوستان میں نائب رسول ؐ فی الہند خواجہ غریب نواز حضرت مُعین الد ّین چشتی اجمیری ؒ نے تبلیغ اسلام کے لئے نواسہ ٔ رسول ؐ ، سیّد اُلشہدا حضرت امام حسین علیہ السلام کی بادشاہت ؔ کا تعارف کراتے ہُوئے کہا تھا کہ …
 شاہ ہست حُسینؑ پادشاہ ہست حُسین ؑ !
دِیں ہست حُسینؑ دِیں پناہ ہست حُسین ؑ!
سَرداد نَداد دست در دستِ یزید!
حقّا کہ بِنائے لا اِلہ ہست حُسین ؑ!
یعنی۔’’ ہمارے ( اصل) شاہ اور بادشاہ حضرت امام حُسین ؑ ہیں۔ دِینِ اسلام اور دِین کی پناہ بھی امام حُسین ؑ ہی ہیں (آپؑ نے دِین کی بقا کے لئے ) اپنا سر قلم کروالیا لیکن خلافت کے نام پر یزید کی ملوکیت اور خاندانی بادشاہت کو قبول نہیں کِیا‘‘ لیکن سلسلہ ٔ قادریہ کے ولی اور پنجابی زبان کے نامور شاعر حضرت سُلطان باہوؒ (1629ئ۔ 1690ئ) نے سانحہ کربلا کو منفرد انداز میں پیش کرتے ہُوئے کہا تھا کہ …
جے کر دِین عِلم وِچ ہوندا ،
 تاں سِر نیزے کیوں چڑھدے ہُو!
اٹّھاراں ہزار جے عالم آہا ،
 اوہ اگے حُسینؑ دے مَردے ہُو!
جو کُجھ ملاحظہ سَرورؐ دا کر دے،
 تاں خیمے تمبو کیوں سَڑدے ہُو!
پر صادق دِین تِنہاں دے باہُو ،
 جو سرِ قُربانی کردے ہُو!
یعنی’’ اگر دِین اسلام ( محض) عِلم میں ہوتا تو پھر ( میدانِ کربلا میں اہل بیتؑ) کے سروں کو نیزوں پر کیوں چڑھایا جاتا؟ سانحۂ کربلا کے وقت یزید کی سلطنت میں 18 ہزار عُلمائے دِین موجود تھے ( انہوں نے یزید کے خلاف بغاوت کا جھنڈا بلند کیوں نہیں کِیا؟اور اُنہوں نے حضرت امام حُسین ؑ پر اپنی جانیں کیوں نہ قربان کردیں؟ اگر وہ عُلماء حق پرست ہوتے تو وہ آل رسولؐ  کے خیموں کو آگ کی نذر کیوں ہونے دیتے؟ اگر اُس وقت مسلمان کہلانے والے لوگ حضورؐ  کی اطاعت / تابعداری کرنے والے ہوتے تو وہ اہلِ بَیتؑ کا پانی کیوں بند کرتے؟۔ اے باہوؑ ! جو لوگ حق پرست لوگوں کے لئے قربانی دے سکیں ، وہی دِین کی حفاظت کرنے والے اور سچے ہیں! ‘‘۔
حضرت امام حُسین ؑ کی جنگ ملوکیت، جُورو جبر ، خیانت ، نجاست ، بربریت اور جہالت کے خلاف تھی لیکن اُس جنگ میں حضرت امام حُسین ؑ کے قبیلے کے لوگ اور چند عقیدت مند ہی تھے۔ اُن میں پردہ دار خواتین ، کم سِن اور شیر خوار بچے بھی شامل تھے ۔ سب کو شہید کردِیا گیا ۔ اُس کے بعد چشم فلک نے قبیلۂ امام حسینؑ اور عقیدت مندانِ اہل بیتؑ کا خون بہانے والوں کا بُرا حشر بھی دیکھا۔ حضرت امام حُسینؑ اُن کے رشتہ داروں اور عقیدت مندوں کی قربانیوں نے فی الحقیقت اسلام کو زندہ کردِیا ۔ سانحہ کربلا کے بعد حضرت زینب بنتِ مولا علی ؑنے حُسنیت ؑکے پرچم صداقت کو بلند رکھا ۔10 محرم الحرام 61 ھ کو حضرت امام حُسینؑ اُن کے ساتھیوں اور عقیدت 
مندوں کی شہادت کے بعد حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے ہی شہدائے کربلا کی بیوائوں اور یتیم بچوں کو اپنی سرپرستی میں لے لیا تھا۔ کوفہ میں حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی تقریریں اُس کے بعد یزید کے دربار میں فصیح و بلیغ خطبے اور برجستہ جوابات سے متعلق مُؤرخین لکھتے ہیں کہ ’’ گویا حضرت علی ؑ خطبہ دے رہے ہیں ‘‘۔معزز قارئین!۔ مَیں نے حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے یوم وِلادت پر 2007ء میں ایک منقبت لکھی تھی، جس کے دو بند پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہُوں !…
خُدا کی رحمت ، مَدام ، تُم پر!
رِدائے خَیراُالاَنامؐ  تُم پر!
بتُول کا نُورِ تام تُم پر!
علی ؑ کی بیٹی  ؑ سلام تُم پر!
…O…
مُلوکِیت جیسے غم کدہ تھی !
یزِیدیت زلزلہ زدہ تھی!
ہے ختم زورِ کلام تُم پر!
علی ؑ کی بیٹی  ؑ سلام تُم پر!
…O…
جہاں کو پیغام ِ حقّ سُنایا!
حُسینَیِتؑ کا عَلم اُٹھایا!
ہوں کیوں نہ نازاں امام ؑ تُم پر!

علی ؑ کی بیٹی  ؑ سلام تُم پر!
دسمبر 2011ء میں محرم اُلحرام کے آغاز میں میرے دو لہوری دوست سیّد یوسف جعفری اور سیّد شاہد رشید میرے ’’ڈیرے ‘‘ پر تھے کہ جعفری صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ  ’’بھائی اثر چوہان ! ۔ کیا آپ کے عِلم میں ہے کہ سانحہ کربلا میں حضرت امام حسین ؑ کے چند عقیدت مند ’’ ہندو براہمن‘‘ بھی شہید ہُوئے تھے؟۔ مَیں نے کہا ’’جی ہاں!‘‘ مَیں نے یہ واقعہ کئی بار پڑھا ہے لیکن مجھے اِس بات کا بہت دُکھ ہے کہ اُس دَور میں ہندوستان کا کوئی راجپوت ؔ۔امامِ عالی مقام ؑکے ساتھ کیوں شہید نہیں ہُوا؟۔ معزیز قارئین!۔ دو دِن بعد (ایک مسلمان راجپوت) مَیں نے ۔ پنجابی زبان میں …
’’جے کربل وِچ مَیں وِی ہوندا ‘‘
کے عنوان سے امام حُسین ؑ کے حضور نذرانۂ عقیدت پیش کِیا جِس کے تین بند پیش خدمت ہیں…
تیرے غُلاماں نال کھلوندا !
پنج ستّ وَیری ماردا کوہندا!
فیر مَیں ، مَوت دی نِیندر سوندا!
جے کَربَل وِچّ مَیں وی ہوندا!
…O…
جے مِل جاندا تیرا وسِیلہ!
بخشیا جاندا میرا قبِیلہ!
جنّت وِچّ ، مِل جاندا گھروندا!
جے کَربَل وِچّ مَیں وی ہوندا!
…O…
ماتم کِیتا بی بی سکِینہ ؑ !
اتھرّوُ وگائے شاہِ مدِینہؐ!
پاکے ، سِر تے سُواہ مَیں روندا!
جے کَربَل وِچّ مَیں وی ہوند!
…O…
کوہندے اثرؔ نُوں یزِید دے چیلے!
اپنے لہو نال مَردے ویلے!
مولاؑ ، تیرے پَیر میں دھوندا!
جے کَربَل وِچّ مَیں وی ہوندا!
معزز قارئین!۔ یکم اکتوبر 2017ء کے روزنامہ ’’92 نیوز‘‘ میں ، مَیں نے اپنی منقبت کے تین بند شامل کئے تو، تحریکِ نفاذِ فقہ جعفریہ کے سربراہ آغا سیّد حامد علی شاہ صاحب نے میرا یہ کالم پڑھا تو، اُن کی طرف سے انجینئر دانشور اور کئی کتابوں کے مصنف سیّد عباس کاظمی نے مجھے فون پر بتایا کہ ’’ اثر چوہان صاحب !۔ قبلہ آغا حامد علی شاہ صاحب کا اپنے تمام رُفقاء کے لئے فرمان / پیغام ہے کہ ’’ آج سے اثر چوہان صاحب کو ’’ حسینی راجپوت‘‘ کہا جائے!‘‘۔ مَیں نے سوچا کہ علامہ محمد اقبالؒ کے آبائو اجداد ’’ ہندو براہمن ‘‘ تھے اور قائداعظمؒ کے بزرگ ’’ کشتری ‘‘ (راجپوت) لیکن پنجتن پاک اور حسینیت سے اُن دونوں لیڈروں کی لا فانی اور لاثانی محبت کے باعث اللہ تعالیٰ نے اپنے کرم و فضل سے اُنہیں ’’مصور پاکستان ‘‘ اور ’’بانی ٔ پاکستان ‘‘ کا مرتبہ عطاء فرمایا لیکن ہندوئوں کے باپو ؔ موہن داس کرم چند گاندھی ؔکے چرنوں میں بیٹھ کر باری باری ( ہندوئوں کی متعصب سیاسی جماعت) ’’ انڈین نیشنل کانگریس‘‘ کی صدارت پر فائز رہنے والے ، ’’کسی مولوی کو یہ مرتبہ حاصل نہیں ہوسکا؟۔ 
بعض عُلماء یہ حدیث رسول مقبول ؐ بیان کِیا کرتے ہیں کہ ’’ میری اُمت کے عُلماء بنی اسرائیل کے پیغمبروں سے افضل ہیں‘‘۔ یقینا نبی آخر اُلزّمان نے ایسا ہی کہا ہوگا لیکن نبیؐ کی امُت کے ایسے عُلماء کہاں ہیں؟۔ یہی وجہ ہے کہ ، علاّمہ اقبالؒنے پہلے ہی کہہ دِیا تھا کہ …
’’دین ِ مُلاّ فی سبیل اللہ فساد!‘‘
حضرت قائداعظمؒ نے بھی واضح کردِیا تھا کہ ’’ پاکستان میں  “THEOCRACY” (مولویوں کی حکومت) نہیں ہوگی اور وہاں تمام مذاہب کے لوگوں کو مساوی مذہبی، سیاسی، سماجی اور اقتصادی حقوق حاصل ہوں گے‘‘۔معزز قارئین!  ۔ کیا یہ پاکستانی مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ کا احسان نہیں ہے کہ کسی بھی دَور میں ہونے والے عام انتخابات میں ، کانگریسی مولویت کی باقیات کو بھاری مینڈیٹ نہیں مِلا؟ اور ہاں! اِس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ ’’ ہمارے ملک میں قائم ’’ اسلامی نظریاتی کونسل‘‘ اور فیڈرل شریعت کورٹ نے آج تک کبھی اِس طرح کا فیصلہ نہیں دِیا کہ ’’ متحدہ ہندوستان کے جن مسلمانوں نے ، مسلمان بادشاہوں، انگریزوں اور سِکھ حکمرانوں کی خدمات کے عوض جاگیریں حاصل کی تھیں ، اُنہیں بحق سرکارِ پاکستان ضبط کرلِیا جائے؟۔ ‘‘  معزز قارئین!۔ حضرت عیسیٰ ؑ کے نزول تک ’’ عُلمائے سُو‘‘ کُو بہ کُو ‘‘۔ حُسینیت ؑ کا کیا بگاڑ لیں گے؟ 
 


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *