آنے والی افراتفری سے کیسے بچنا ہے

پوری دنیا کو تہ بالا کیا ہے اس نے

شہر اُجڑے ہیں۔ گلستاں ویراں

موت ہر ملک میں انساں کے لہو کی پیاسی

آئیں قتالۂ عالم کو کریں اب رخصت!

وبا سے رومان میں شاعری بہت ہو رہی ہے۔ یہ نظم ابھی زیر تعمیر ہے کہ کالم کا وقت آگیا۔ کورونا کو قتالۂ عالم کہہ سکتے ہیں یا نہیں۔ امداد حسینی بتائیں، افتخار عارف یا مستنصر حسین تارڑ۔ وفاقی کابینہ میں تو کوئی اس حوالے سے نظر نہیں آرہا۔

آج اتوار ہے۔ بچوں کے ساتھ خاص طور پر بیٹھیں۔ شام کو اپنے پیاروں سے فون پر بات کریں۔ اب بہت ہو چکی۔ آئیں مل جل کر اس قتالۂ عالم کو رخصت کرنے کی تدابیر سوچیں۔ نیت اور سمت درست ہوگی تو اللہ بھی ہماری مدد کرے گا۔ ہم کوئی انوکھی کوشش نہیں کریں گے۔ بہت سی قومیں یہ آغاز کر چکی ہیں۔ تھنک ٹینک بہت فاضلانہ رپورٹیں جاری کر رہے ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ یہ قتالۂ عالم حکمرانوں کے ٹویٹ دیکھتی ہے نہ تقریریں سنتی ہے۔ اور نہ ہی ٹاک شوز کے ارسطوئوں اور بقراطوں کی خرد افروزی سے مستفید ہوتی ہے۔ یہ تو اپنی دھن میں کشتوں کے پشتے لگاتی آگے بڑھ رہی ہے۔

اکثر ممالک اپنے اپنے علاقائی تناظر اور اپنے ماضی کی روشنی میں تدابیر اختیار کر رہے ہیں۔ حوالہ گزشتہ عالمی جنگوں اور وبائوں کا ہے کہ اس دوران ان کے ہاں کیا سماجی رویے تھے۔ معیشت کو کس طرح سنبھالا دیا گیا۔ زراعت نے کیسے مدد کی۔

یہ وادیٔ سندھ۔ جہاں اب ہمارا عظیم ملک پاکستان ہے۔ مجھے تو کوشش کے باوجود کوئی حوالہ نہیں مل سکا کہ یہاں بیسویں صدی کے آغاز اور وسط میں جنگوں کے بعد یا اس سے پہلے وبائوں کے مقابلے میں کیا رویے رہے تھے۔ مبارک علی صاحب سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر سید جعفر احمد، پروفیسر انوار احمد، اشفاق سلیم مرزا رہنمائی کر سکتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ہمارے رویے، عادتیں اپنے بزرگوں سے مختلف تو نہیں ہوں گی۔

یہ تحقیق تو ہوتی رہے گی۔ میری پہلی درخواست تو آپ سے یہ ہے کہ افراتفری شدت کی آنے والی ہے، کسی حد تک آبھی چکی ہے۔ اس لیے جتنا زیادہ پیسہ بچا سکتے ہیں بچائیں۔ کوئی ہماری مدد کو نہیں آنے والا ہے۔ نہ کوئی من و سلویٰ اتارا جانے والا ہے۔ آئندہ کم از کم چھ سے آٹھ مہینے بہت سوچ سمجھ کر بہت ہی ضروری خریداری کریں۔ آگے آمدنی اور کم ہوگی۔ بیروزگاری بڑھے گی۔ ان دنوں میں کسی کو قرضہ دیں نہ کسی سے قرضہ لیں۔ بہت سے بینک اور ادارے بڑی خوش نما اسکیمیں لے کر آئیں گے۔ اپنی جائیداد کہیں گروی نہ رکھیں۔ ابھی تو کورونا کی چوٹ تازہ تازہ ہے۔ اس لیے ہمیں اس کی تباہ کاری محسوس نہیں ہو رہی ہے۔ دنیا بھر میں ماہرین خبردار کر رہے ہیں۔ قومیں بھی اور افراد بھی اقتصادی مشکلات سے دوچار ہوں گے۔ زندگی کے اطوار بدلنے والے ہیں۔ آپ اپنی ضروریات کے سامنے بے بس ہوں گے۔ بنیادی تنخواہیں بھی آدھی کی جا رہی ہیں۔ عام ملازمین کو کو مہنگائی الائونس، رینٹ اور دوسری مراعات ملتی تھیں۔ وہ واپس لے لی گئی ہیں۔ کمپنیاں مقابلے کی دوڑ میں اپنے اعلیٰ افسروں کو رہائش ٹرانسپورٹ اور سفر کے لیے جو پُر کشش پیکیج دیتی تھیں وہ ختم کیے جا رہے ہیں۔ ساری کمپنیوں کو اپنے کاروبار محدود کرنا پڑ رہے ہیں۔ یہ خطرہ ہے کہ کئی کاروبار بالکل بند ہو سکتے ہیں۔ باشعور سمجھدار قومیں تو زندگی کا اسلوب بدل رہی ہیں۔ ان کے ہاں پہلے بھی نپے تلے اخراجات ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں ایک طبقہ تو ایسا ہے کہ اس کے پاس بے حساب پیسہ ہے۔ جائز ذرائع سے کمایا ہوا یا بالائی آمدنی۔ اسے تو فضول خرچی سے تعیشات سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہمارا سماجی اقتصادی سرکاری نظام بھی اسی کو زیادہ فائدہ پہنچاتا ہے لیکن 90فیصد کے قریب اکثریت ایسی ہے جس کی آمدنی اس کی حقیقی ضروریات سے ہمیشہ کم رہی ہے۔ گزشتہ چار دہائیوں سے باقاعدہ ملازمت کے بجائے کنٹریکٹ نوکری کی شرح بڑھ گئی ہے۔ صرف تنخواہ۔ نوکری کی سیکورٹی نہیں۔ سب سے برا وقت اس کے لیے آنے والا ہے۔ سیاسی پارٹیاں زیادہ تر ملکوں میں بے فیض ثابت ہو رہی ہیں۔ وہ اپنے ووٹروں کے لیے کوئی لائحہ عمل نہیں بنا پا رہی ہیں۔ پاکستان میں صورتحال بدتر ہے۔ پاکستان میں نوجوانوں کی اکثریت ہے۔2019میں تازہ گریجویشن کرنے والے جن ملازمتوں کی امید لگائے ہوئے تھے وہ اچانک مسدود کر دی گئی ہیں۔

فیس بک پر نوشکی سے رفیع مینگل کی ایک اچھی تجویز دیکھی کہ کورونا اور ٹڈی دل کی وجہ سے زراعت، صحت اور روزگار کی تباہی میں پرائیویٹ سیکٹر اور این جی اوز کو چاہئے کہ نوجوانوں کی مدد کے لیے منصوبے بنائیں۔ چھوٹے کاروبار کے لیے قرضے دیں۔ حکومت این جی اوز کو پابند کرے کہ انسانی بہبود کے ساتھ ساتھ انسانی خوشحالی کو ترجیحات میں شامل کریں، کروڑوں روپے جو تربیت، تواضع اور سفر کے لیے مختص کیے جاتے ہیں وہ نوجوانوں کے روزگار کیلئے صَرف کیے جائیں۔اندازہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں جب سادگی اختیار ہوگی۔ پرانے لباس اور دیگر اشیائے ضروریہ پر اکتفا کرنے کا رجحان ہوگا تو کپڑے ڈینم وغیرہ کی مانگ بہت کم ہو جائے گی۔ برآمدات کے آرڈر پہلے ہی کم ہو چکے ہیں۔ اس لیے فیکٹریوں میں پیداوار کم کرنا پڑے گی۔ اس سے بھی بیروزگاری بڑھے گی۔ جن ملکوں کے زرمبادلہ کے ذخائر وافر ہیں وہ تو آسانی سے نئی فلاحی اسکیمیں لا سکیں گے لیکن پاکستان جیسے ممالک جو قرضوں پر انحصار کرتے ہیں، وہ بیروزگاری کیلئے کوئی فلاحی اسکیمیں نہیں لا سکتے۔ پلاننگ کمیشن کو رہنمائی کرنا چاہئے۔ تاجروں صنعتکاروں کی فیڈریشن کوئی ممکنہ لائحہ عمل لے کر آئے۔ ایم این اے، ایم پی اے اپنے اپنے علاقوں میں صحت اور روزگار کی رپورٹیں مرتب کریں۔

ساری صورت حال کا تقاضا سادگی اور کفایت شعاری ہے لیکن گھروں میں بیٹھے پاکستانی میڈیا پر جو ڈرامے اور خبروں میں اجلاس دیکھتے ہیں اور جن مصنوعات کے اشتہار دیے جارہے ہیں وہاں تو مہنگی مہنگی گاڑیاں، قیمتی لباس، پُر تکلف کھانے نظر آتے ہیں۔ مارکیٹوں میں رش۔ مہنگے ٹیلی فون۔ دکھائے جاتے ہیں۔ ماہرین کمپنیوں اور تاجروں کی منافع کی ہوس کی بھی بات کر رہے ہیں۔ اس وقت بھی منافع کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ پاکستان میں ہم ماسک، سینی ٹائزر، وینٹی لیٹر، آکسیجن سلنڈر پر منافع خوری دیکھ رہے ہیں۔ یہ منافع کسی نہ کسی کو تو نقصان بھی پہنچا رہا ہے۔ وہ غریب اور مجبور طبقہ ہے۔ اس کی پنشن میں کمی کی جائے گی۔ حکومت اشیائے ضروریہ کی قیمتیں کنٹرول نہیں کر پا رہی ہے۔ آنے والی افراتفری سے کیسے بچ سکتے ہیں۔ سوچئے۔ مشورہ کیجئے۔ مگر پیسہ اور اپنے اثاثے بچائیے۔ اور اپنی صحت کو بھی بچائیے۔ صحت کی خرابی پیسہ خرچ کرواتی ہے۔ پیسے کی قلت صحت متاثر کرتی ہے۔


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *