پہلے شاپر بناؤ پھر اس سے دم گھونٹ لو

یہ تو آپ جانتے ہیں کہ پلاسٹک سنتھیٹک پولیمر سے بنتا ہے اور پولیمر پٹرولیم اور گیس کی ذیلی پروڈکٹ ہے۔نہ معدنی ایندھن ہوتا نہ پلاسٹک ہوتا۔

دونوں کی داستان ایک صدی سے اوپر کی نہیں ہے۔بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ دوسری عالمی جنگ کے پھیلاؤ اور تباہ کاری میں پٹرول اور ڈیزل نے جو کردار ادا کیا۔ماحولیات کی تباہی میں اس سے کہیں منفی کردار پٹرولیم مصنوعات بالخصوص پلاسٹک کا ہے۔

دوسری عالمی جنگ کے بعد پلاسٹک راتوں رات ہر شعبے کی آنکھ کا تارہ اور آہنی مصنوعات کا رقیب بن گیا۔زندگی بچانے والے طبی آلات لوہے کے بجائے پلاسٹک کے بننے لگے۔

اس کے استعمال سے گاڑیوں اور طیاروں کا وزن ہلکا ہو گیا۔یوں پٹرول کی بچت ہونے لگی۔مصنوعی سیاروں اور خلائی ٹیکنالوجی میں پلاسٹک نے اپنی پائیداری کے کمالات دکھانے شروع کر دیے۔ ہلکے وزن کے سیفٹی ہیلمٹ بننے لگے۔زنگ خوردہ آہنی پائپوں کو پلاسٹک پائپ نے معزول کرنا شروع کر دیا۔

مگر ہر روشن پہلو کے پہلو بہ پہلو ایک تاریک پہلو بھی تو ہوتا ہے اور بروقت دھیان نہ دیا جائے تو رحمت کو زحمت بنتے زیادہ دیر نہیں لگتی۔آج یہ بحث ہو رہی ہے کہ پلاسٹک سے پہلے کی دنیا اچھی تھی یا پلاسٹک والی دنیا زیادہ بہتر ہے۔

مصیبت کا دروازہ ایک ہی بار استعمال ہونے والی ڈسپوزایبل پلاسٹک مصنوعات (بیگ، کپ، پانی کی بوتل پیکیجنگ مٹیریل) نے کھولا۔کیونکہ دنیا میں جتنا بھی پلاسٹک بنتا ہے اس کا نصف ایک ہی بار چند منٹ ، گھنٹے یا دن بھر کے لیے استعمال ہوتا ہے اور پھر اسے پھینک دیا جاتا ہے۔

یہ رل ضرور جاتا ہے مرتا نہیں۔یہ پانچ سو برس تک اپنی شناخت برقرار رکھ سکتا ہے اور کاغذ کی طرح بائیو ڈی گریڈ ایبل نہیں۔چنانچہ پلاسٹک ماحولیات کا حصہ بننے کے بجائے ماحولیات کو یرغمال بنا لیتا ہے۔ یہ وہ پھندہ ہے جسے انسان نے نا صرف اپنے گلے میں ڈالا بلکہ ماؤنٹ ایورسٹ سے بحرالکاہل کی گہری ترین کھائی ماریانا ٹرنچ کی تہہ تک پھیلا دیا ۔

اس وقت دنیا میں جتنا بھی پلاسٹک موجود ہے اس کا نصف سن دو ہزار کے بعد تیار ہوا ہے۔انیس سو پچاس کی دہائی میں تئیس لاکھ ٹن پلاسٹک تیار ہوا تھا۔آج سالانہ پچاس کروڑ ٹن تیار ہو رہا ہے۔اور اگر اس کا ہاتھ نہ پکڑا گیا تو دو ہزار پچاس تک اس کی سالانہ پیداوار سو کروڑ ٹن تک پہنچ جائے گی۔

ہر سال اسی لاکھ سے ایک کروڑ ٹن پلاسٹک ، دریاؤں ، بحری ٹرانسپورٹ اور انسانوں کے توسط سے سمندر میں اتر جاتا ہے۔زیادہ تر پلاسٹک ساحل کے آس پاس ہی تیرتا رہتا ہے۔لیکن ایک بڑی مقدار بحری کرنٹس کے ذریعے کرہِ ارض کے دوسری جانب تک پہنچ سکتی ہے۔

مثلاً جنوبی بحرالکاہل کے وسط میں چلی اور نیوزی لینڈ سے مساوی فاصلے پر واقع جزیرہ ہنڈرسن کے پانیوں میں روس ، چین ، امریکا ، جاپان اور بیسیوں دیگر ممالک کا بنا ہوا پلاسٹک تیرتا ہوا پایا گیا۔

جب پلاسٹک سمندر میں اتر جاتا ہے تو لہریں ، سورج کی گرمی اور ہوا اس کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے (ایک انچ کے پانچویں حصے کے برابر ) کر دیتی ہے اور پھر یہ مائیکرو پلاسٹک سمندری حیات کے پیٹ میں چلا جاتا ہے اور وہاں سے دوبارہ ہمارے دستر خوان پر پہنچ کے جسم میں داخل ہو کر بیسیوں طرح کے سرطان اور معدے ، جگر ، آنت ، دل اور پھیھپڑوں کو نقصان پہنچاتا ہے۔

جو پلاسٹک آپ کو سطحِ آب پر تیرتا نظر آتا ہے یہ محض اس پلاسٹک کا ایک فیصد ہے جو زیرِ آب تہہ تک پہنچ چکا ہے اور بحری جانور اسے خوراک سمجھ کے نگل رہے ہیں۔

مائیکرو پلاسٹک کے مزید ٹکڑے مائیکرو فائبر کی شکل میں لگ بھگ ہر طرح کی بحری مخلوق کے معدوں میں پہنچ جاتے ہیں اور پانی اور ہوا کے ذریعے ہمارے کھانوں اور سانس کی نالیوں میں بھی اتر جاتے ہیں۔

زمین پر رہنے والے سات سو سے زائد اقسام کے چرند پرند یہ مائیکرو فائبر کھا لیتے ہیں۔آپ نے مچھلیوں ، کچھوؤں ، آکٹوپس اور بحری پرندوں کی لاتعداد تصاویر دیکھی ہوں گی۔جن کے منہ پر پلاسٹک لپٹنے سے دم گھٹ جاتا ہے۔ پلاسٹک کے ناکارہ جال گچھوں کی شکل میں جانوروں کی گردن اور منہ سے لپٹ کر ان کی موت کا سبب بن جاتے ہیں۔

کیا دریاؤں اور سمندروں کو پلاسٹک سے پاک کیا جا سکتا ہے ؟ جب تک پلاسٹک مصنوعات ساحل کے قریب تیرتی رہتی ہیں اور ٹوٹ کر چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں نہیں بدل جاتیں تب تک ان کی صفائی ممکن ہے۔لیکن مائیکرو پلاسٹک کے لگ بھگ پچاس سے پچھتر کھرب ٹکڑوں سے سمندر کی نجات اب تقریباً ناممکن ہے۔

جب تک کچرے کی ری سائکلنگ یا طریقے سے ٹھکانے لگانے کا موثر عالمگیر نظام نہیں بن جاتا تب تک کوئی امید نہ رکھی جائے۔ویسے بھی انسان پہلے اپنی تباہی کا انتظام اور پھر اس تباہی کا توڑ کرنے کا نظام وضع کرنے میں تمام جانوروں سے کوسوں آگے ہے۔

دو ہزار اکیس میں سائنس ایڈوانسز ریسرچ کے تحت جاری ہونے والی تحقیقی رپورٹ سے پتہ چلا کہ سمندر کی اسی فیصد آلودگی کی ذمے دار پلاسٹک مصنوعات ہیں۔ ستر فیصد سے زائد پلاسٹک آلودگی کے ذمے دار پانچ ایشیائی ممالک ہیں۔

ان میں فلپینز کا حصہ ساڑھے چھتیس فیصد، بھارت کا تیرہ فیصد ، ملائشیا اور چین کا علی الترتیب ساڑھے سات فیصد اور انڈونیشیا کا حصہ چھ فیصد ہے۔

پاکستان کے کسی نہ کسی صوبے میں پلاسٹک کی تھیلیوں پر ہر برس دو برس میں پابندی کا اعلان ہو جاتا ہے اور پھر زور دیا جاتا ہے کہ شاپنگ کے لیے کاغذ کی تھیلیوں کا استعمال کیا جائے جو ضایع ہونے کی صلاحیت ( بائیو ڈی گریڈ ایبل ) رکھتے ہیں۔

مگر اتنی ہی آلودگی ڈسپوزایبل پانی کی بوتلیں بھی پھیلا رہی ہیں۔ان پر کسی پابندی کی بات کرتے ہوئے اس لیے پر جلتے ہیں کیونکہ ان بوتلوں کو بارسوخ بین الاقوامی و مقامی کمپنیاں بنا رہی ہیں۔

ایک دوکان دار پلاسٹک شاپنگ بیگ پابندی کے باوجود استعمال کرے تو یہ جرم ہے۔ یہی شاپنگ بیگ بنانا اور دوکان دار کو سپلائی یا فروخت کرنا جرم نہیں۔

عجب ہے تیری سیاست عجب ہے تیرا نظام۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *