ہمارا رئوف طاہر

بس یوں سمجھو ایک شخص ہمارے درمیان سے اٹھ کر چلا گیا اور ہمیں اداس چھوڑ گیا۔ شامی صاحب کا فون آیا۔ سسکیوں کی آواز میں وہ صرف اتنا کہہ پائے کہ رئوف طاہر‘ پھر چپ ہوئے ،اتنا کہا کیا ہو گیا۔ شاید دل نہیں کر رہا تھا کہ وہ ان کے چلے جانے کی بات کریں‘ ان کے مرنے کی خبر دیں۔ وہ جیسا صحافی یا لکھاری تھا‘اس کے تذکرے تو ہوتے رہیں گے‘ مگر ہمارے لئے وہ ایک بہت ہی پیارا ساتھی تھا۔ میں ایسے متنوع مزاج کے بیسیوں لوگوں کو جانتا ہوں جن سے اس کے انتہائی ذاتی تعلقات تھے۔ وہ رابطے رکھنے جانتا تھا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ رابطے کسی پی آر کی خواہش کا نتیجہ نہ ہوتے، سراسر محبت اور خلوص پر مبنی ہوتے۔ بہت سے لوگوں نے اس کے لئے بے ساختہ درویش کا لفظ استعمال کیا ہے۔ اپنے نظریات سے وفا دار‘ دلیل کی قوت پر ڈٹ جانے والا‘ مخالفوں پر یوں سمجھو دم رزم جھپٹ پڑنے والا۔ مگر تعلقات کو سراسر ذاتی اور انسانی مسئلہ سمجھنے والا۔ وہ عجیب شخص تھا۔ ہمارے بھائی افتخار احمد ان لوگوں میں ہیں جو پیپلز پارٹی کے اساسی اجلاس میں شریک تھے مگر رئوف طاہر کے جنازے میں ایسے دل گرفتہ تھے جیسے کوئی انتہائی عزیز دوست چھن گیا ہو۔ کہنے لگے وہ ہم میں سے تھا۔ اس نے پوری زندگی درویشی میں گزار دی۔ سلمان غنی کہتے ہیں اس شہر لاہور میں وہ ایساشخص تھا جس پر درویشی کا لفظ صادق آتا ہے:
ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
بزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
جب کبھی پاکستان‘ اسلام‘ نظریہ پاکستان کی حفاظت کی جنگ ہو تو میں نے عرض کیا وہ مخالف پر شیر کی طرح لپکتا تھا‘ مگر جب یہ معرکہ سرد ہو جائے تو اس کے لئے کوئی بھی شخص ایک انسان اور پیارا انسان تھا،جس سے رابطہ رکھنا انسانیت کا تقاضا ہو۔ یہی ہی نہیں اس کے ملنے جلنے اور رابطوں کو انسانوں کی تفہیم کا ایک ایسا عمل بنا دیا تھا جو گویا زندگی کرنے کا بنیادی قرینہ ہو۔
وہ لاہور آیااور ایک کارکن صحافی کے طور پر میدان میں آ اترا۔ یہ بڑی کٹھن جدوجہد تھی۔ ایک وقت آیا کہ اس نے محسوس کیا کہ دیانتداری سے زندگی گزارنا بہت مشکل ہے۔ بددیانتی کی اس میں صلاحیت ہی نہ تھی۔ جس واقعہ نے اسے سعودی عرب جانے کا فیصلہ کرنے پر مجبور کیا‘ وہ میں یہاں لکھنا نہیں چاہتا۔ بہرحال وہ یہاں کی پرجوش فعال زندگی چھوڑ کر سعودی عرب چلا گیا۔ ان دنوں میاں نواز شریف بھی جلا وطن ہو کر وہاں آ گئے تھے۔ ان کے ساتھ ایسے قریبی تعلقات ہوئے کہ شاید ہی کسی اور کے ہوں۔ دن رات کا ملنا جلنا تھا۔ خاندانوں کا آنا جانا تھا۔ میں عمرے کے لئے گیا تو جدہ میں انہوں نے اور مرحوم ظفر اقبال نے میرے اعزاز میں جدہ پریس کلب میں افطاری کا انتظار کیا۔ میں میاں صاحب سے ملنا چاہتا تھا۔ رئوف طاہر ہی مجھے لے کر گئے جہاں رات کا کھانا ان کے ساتھ سرور پیلس میں طے تھا۔ کچھ جمع پونجی اکٹھی ہوئی تو یہ واپس گھر کو پلٹے۔ پھر باقی زندگی جدوجہد ہی کرتے رہے۔ جو کمایا تھا اس سے ایک گھر بنا لیا جو دو بار لٹا۔ فقیر کے گھر میں تھا کیا،جو وہ لے گیا۔ ان دنوں ان کی اہلیہ علیل تھی جو اس بیماری سے جانبر نہ ہو سکی۔ یہ سارے غم بڑے استقامت سے جھیل گئے۔ نواز شریف اور بیگم کلثوم نواز تعزیت کے لئے آئے وہ اس وقت وزیر اعظم تھے۔بہت دیر تک دلجوئی کرتے رہے۔ یہ وہ دور تھا جس میں اتنا قریبی تعلق رکھنے والا بہت کچھ پا سکتا تھا‘ مگر اس درویش نے تو اتنا بھی نہ کہا کہ ہم کہہ سکتے:
تو ہی ناداں چند کلیوں میں قناعت کر گیا
وگرنہ گلشن میں علاج تنگیٔ داماں بھی ہے
اس عرصے میں، کراچی سے میں بھی لاہور آ گیا تھا، یہ ان کا معمول تھا کہ مہینے میں دو چار بار ضرور گھر تشریف لاتے اور دو چار گھنٹے کھل کر گپ شپ ہوتی۔ عموماً دو ایک دوست بھی ساتھ ہوتے۔ محفل جم جاتی تو کسی اور کو بھی فون کر کے بلا لیتے۔ رونق لگ جاتی۔ ہم فقیروں کی کٹیا بھی آباد ہو جاتی۔ جو دال روٹی میسر ہوتی‘ اس پر قناعت کر لیتے۔ کبھی کبھی الطاف قریشی صاحب کو بھی زحمت دے لیتے۔ دنیا جہاں کے موضوعات پر بات ہوتی، میں نے کبھی نہیں سنا کہ انہوں نے کبھی کسی کی برائی کی ہو۔ فکری اعتراض تو وہ ہر مخالف پر کر سکتے تھے۔ مگر ذاتی مفاد نہیں پالتے تھے۔ ہم جیسوں کے بارے میں تو وہ تیغ برآں تھے۔فکری اور نظریاتی ہم آہنگی کو انہوں نے ذاتی محبت میں بدل دیا تھا‘ کئی بار پتا چلا کہ کسی مخالف نے تیر چلانے کی کوشش کی تو یہ ڈھال دے کر سامنے ڈٹ جاتے۔ ایسے مخلص دوست اب کہاں۔ نظریات کی دنیا میں تو بالکل نہیں۔بڑا سہارا تھا۔ اس مرد درویش کا۔
انتقال سے دو چار روز پہلے شام کو فون آیا کہ اگر میں فارغ ہوں تو وہ آ جائیں۔ ہم بیکاروں کو کام ہی کیا ہوتا ہے۔ دل کی کلی کھل اٹھی۔ ڈاکٹر امان اللہ کے ساتھ تشریف لائے۔ کوئی دو گھنٹے تک بیٹھے رہے۔ پھر خیال آیا کہ کہیں وقت دیا ہوا ہے۔ فوراً اجازت لے کر چل دیے۔ میری اہلیہ کو اب تک صدمہ ہے کہ وہ رکے نہیں‘ وہ ان کے لئے کھانے کا انتظام کر رہی تھی۔ جانے کیوں اس دن وہ چائے پینے میں بھی احتیاط کر رہے تھے۔ اگر یہ دو تین ہفتے نہیں آئے تو میرے گھر میں پوچھا جاتا کہ رئوف طاہر بہت دنوں سے آئے نہیں۔ ایسا ہی معاملہ تھا ان سے۔
کچھ عرصے سے وہ ایک اخبار میں کالم لکھتے‘ ظفر علی خاں ٹرسٹ میں سیکرٹری کے طور پر کام کرتے اور کسی یونیورسٹی میں جز وقتی لیکچر دیتے۔ بڑی فعال زندگی گزارتے۔ اتنا پیدل چلتے کہ ہم میں شاید ہی کوئی چلتا۔ اپنی گاڑی انہوں نے اپنے بچوں کے لئے وقف کر رکھی تھی۔ خود ایسے یہ گزر کر لیتے۔حیرانی ہوتی کہ وہ کیسے اتنا فعال ہیں۔ کبھی یہاں ہوتے‘ کبھی وہاں۔ کبھی ایک کے پاس‘ کبھی دوسرے کے پاس۔ یہ ایک شخص محفل سونی کر گیا ہے۔
علمی اور فکری طور پر رئوف طاہر پر لکھنے کی اس وقت مجھ میں سکت نہیں‘ تاہم اتنا عرض کرنا چاہتا ہوں کہ رئوف طاہر ایک انسائیکلو پیڈیا تھے۔ خاص طور پر پاکستان کی سیاسی اور نظریاتی تاریخ کا۔ ایک وقت مجھے خیال ہوا کہ اس نے کوئی بہت مسبوط انداز میں اپنا کوئی ریفرنس سیکشن بنا رکھا ہے۔ وگرنہ کیسے ممکن ہے کہ تاریخ‘ وقت‘ مہینے‘ سال ہر خبرکے ساتھ وہ واقعے کو یوں بیاں کر دیتے ہیں کہ سب کچھ نظروں کے سامنے گھوم جاتا ہے۔ یہی نہیں وہ اتنی تفصیل سے حالات و واقعات کا تذکرہ کرتے اور یوں بات کو سیاق و سباق سے بیان کرتے کہ یقین نہ آتا کہ یہ سب کچھ حافظے کے زور پر ہے۔ ایک آدھ مجھے کسی بات کی ضرورت محسوس ہوتی،تو انہوں نے محض حافظے کے زور پر سب کچھ دہرا دیا۔ تب مجھے پتا چلا کہ یہ کسی ریفرنس سیکشن کا کمال نہیں‘ محض حافظے کے زور سے بیان ہوا ہے۔ مجیب الرحمن شامی صاحب نے کہیں کہا ہے کہ وہ ان کے ساتھ مل کر پاکستان کی سیاسی تاریخ لکھنا چاہتے تھے۔ بہت درست فیصلہ تھا‘ مگر قدرت کو شاید یہ منظور نہ تھا۔ مجھے یقین ہے بہت پانے کی دستاویز ہوتی۔ ایک یہی دستاویز جو مرتب نہ ہو سکی، اس میں ایک نظریاتی جیت بھی ہوتی جو ہمیں ایک ایسی دنیا سے متعارف کراتی جس کی اشد ضرورت ہے۔
کیا لکھوں؟ میں یہ چند سطریں بھی تقریباًاندھیرے میں لکھ رہا ہوں۔ یو پی ایس اور جنریٹر دونوں نے جواب دے دیا ہے‘ مگر میں اسے ابھی مکمل کرنا چاہتا ہوں۔ بس اتنا کہوں گا:
چراغ بجھتے چلے جا رہے ہیں مرحلہ وار
میں خود کو دیکھ رہا ہوں فسانہ ہوتے ہوئے


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *