نہ دیکھا ‘غم دوستاں شکر ہے

مریم بیٹی نے افسردہ لہجے میں فون پر رئوف طاہر صاحب کی مرگ ناگہانی کا ذکر کیا تو یقین نہ آیا‘ رئوف طاہر صاحب کا نمبر ملایا تو عزیزم آصف طاہر بس اتنا کہہ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے ’’انکل ابو…‘‘اس سے زیادہ وہ کچھ بول پائے نہ مجھے مزید پوچھنے کا یارا نہ رہا۔ دل میں آس اُمید کا دیا بجھ گیا جو اختر حسین جعفری کے الفاظ میں’’یا الٰہی مرگ یوسف کی خبر سچی نہ ہو‘‘ کی دعا کے ساتھ ٹمٹا رہا تھا‘ سوچا ع
اب نہیں ہوتیں دعائیں مستجاب
رئوف طاہر صاحب سے دوستانہ تعلق 1978ء میں استوار ہوا‘ ٹھیک بیالیس سال قبل جب ہم دونوں نے قریشی برادران (ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی اور الطاف حسن قریشی) کے زیر سایہ ماہنامہ اردو ڈائجسٹ اور ہفتہ روزہ زندگی میں صحافتی زندگی کا آغاز کیا‘ آباد شاہ پوری مرحوم ہم سب کے سینئر تھے اور ممتاز عامر‘ محسن فارانی‘ ریاض مسعود‘ طاہر نسیم‘ جمیل رانا‘ جاوید اقبال ندیم رفقاکار۔ ہفتہ روزہ زندگی بند ہوا تو یہ منڈلی بھی بکھر گئی۔ ایک ایک کر کے سب کوچۂ صحافت کو خیر باد کہہ گئے‘ محسن فارانی جوانی کا بیشتر حصہ اردو ڈائجسٹ میں گزار کر کچھ عرصہ نوائے وقت سے وابستہ رہے پھر ادارہ دارالسلام کے شعبہ تحقیق و تالیف کو پیارے ہو گئے‘ ریاض مسعود نے پی ٹی وی او رطاہر نسیم نے ایک سرکاری محکمہ میں پناہ لی‘ ممتاز عامر نے لاہور کو خیر باد کہا اور بہاولپور میں وکالت شروع کر دی‘ جو خوب چمکی ‘جبکہ جاوید اقبال ندیم شعبہ تدریس سے وابستہ ہوئے اور گورنمنٹ کالج یونیورسٹی سے ریٹائرمنٹ کے بعد نوجوان نسل کی بانداز دگررہنمائی میں مصروف ہیں۔ رئوف طاہر البتہ میدان صحافت میں ڈٹے رہے اور ایک بار سرکاری ملازمت کا مزہ چکھنے کے بعد میاں نواز شریف کی خواہش و کوشش کے باوجود اس کوچے کا رخ نہ کیا۔
رئوف طاہر اُن دیانتدار اور جفا کش صحافیوں میں سرفہرست تھے جو ہر روز نیا کنواں کھودتے اور اپنی اور اپنے بیوی بچوں کی پیاس بجھاتے ہیں‘ دوستوں کے وہ دوست تھے اور دشمنی کے لفظ سے تقریباًناآشنا‘ مجھے یاد نہیں کہ لاہور جیسے بڑے شہر میں جہاں طوطا چشمی‘ رقابت اور منافقت کے اژدھے آزاد پھرتے ہیں‘ رئوف طاہر نے کبھی کسی شخص کی رقابت‘ دشمنی اور بدخواہی کا کبھی ذکر کیا ہو‘ دوستوں اور خیر خواہوں کی خوبیوں اور مخلصانہ جذبات کا تذکرہ وہ دل کھول کر کرتے۔ اسلام اور پاکستان کے حوالے سے وہ ایک نظریاتی صحافی تھے اور اپنے نظریے و عقیدے پر سودے بازی کے سخت خلاف‘ مگر اپنے نظریے اور عقیدے پر کاربند رہتے ہوئے دوسروں کی رائے کا احترام اور مخالف نقطہ نظر کو تحمل سے سننے کی عادت ایسا وصف تھا جو آج کل مفقود ہے‘ نظریاتی طور پر ہم دونوں ہم خیال تھے‘ پاکستان کی فکری اساس کے حوالے سے اتفاق رائے کے باوجود ہم دونوں کے سیاسی خیالات میں عرصہ دراز سے بعد المشرقین تھا‘ میں پاکستان کے موجودہ بدبودار سیاسی کلچر اور جمہوریت کے نام پر خاندانی و موروثی آمریت‘ اقربا پروری اور لوٹ مار سے متنفر ہوں‘ عوامی نمائندگی کو قومی وسائل کی لوٹ مار کا ذریعہ بنانا اور دھن ‘ دھونس‘ دھاندلی کے ذریعے سیاسی عصبیت پیدا کر کے عوامی حمایت کو احتساب کے عمل سے چھٹکارے کے لئے استعمال کرنا مجھے پسند نہیں جبکہ رئوف طاہر جمہوریت کے والہ وشیدا تھے اور موجودہ بری بھلی جمہوریت ہی کو قومی مسائل و مشکلات کے حل کا ذریعہ سمجھتے تھے۔یہ اختلاف مگر ہمارے تعلقات میں کبھی حائل ہوا نہ باہمی احترام میں کمی کا باعث بنا‘ ایک بار روحانی پیشوا سید سرفراز شاہ صاحب کے گھر میں رئوف طاہر صاحب کی صاحبزادی نے تعجب سے پوچھا ’’ انکل آپ کے اور ابو کے سیاسی نظریات مختلف ہیں کئی بار ہمارے ڈرائنگ روم میں آپ دونوں سینگ پھنسا کر بیٹھے ہوتے ہیں اور ہم خوفزدہ کہ دوستی کے آئینے میں بال آیا ‘کہ آیا مگر تھوڑی دیر بعد یوں شیر و شکر نظر آتے ہیں کہ کبھی اختلاف تھا ہی نہیں‘ رئوف طاہر بولے‘ اخلاص بھرے بے لوث تعلقات کا یہی تو فائدہ ہے‘ یہی بات میرے بچے بھی کہتے اور حیران ہوتے ہیں۔
ذاتی ربط ضبط‘ دکھ سکھ میں شرکت اور شریفانہ برتائو نے رئوف طاہرکو میاں نواز شریف کی زلف گرہ گیر کا اسیر بنایا تو پھر وہ انہی کے ہو کر رہ گئے ؎
اپنی تو جہاں آنکھ لڑی پھر وہیں دیکھا
آئینے کو لپکاہے پریشان نظری کا
ان تعلقات میں مگر ذاتی منفعت کا شائبہ تھا نہ رئوف طاہر چاپلوسی کے ہنر سے آشنا تھے جو سیاستدانوں اور حکمرانوں کے دربار میں رسائی کی شاہ کلید ہے۔ مشہور زمانہ ٹویٹ ’’Rejected‘‘ کا تنازعہ کھڑا ہوا تو میاں نواز شریف نے جناب مجیب الرحمن شامی اور رئوف طاہر کو مشورے کے لئے جاتی امرا بلایا‘ میاں صاحب کے ساتھ مریم نواز شریف کاغذ پنسل سنبھال کر ایک ایسا بیان تیار کرنے کے لئے مستعد بیٹھی تھیں جو ڈی جی آئی ایس پی آر کے نہلے پر دہلا ثابت ہو اور سول بالادستی کا پرچم چار وانگ عالم میں لہرائے‘ میاں صاحب نے شامی صاحب سے پہلے رئوف طاہر کو مخاطب کیا اور کہا ’’چودھری صاحب! آپ کا کیا خیال ہے ‘اس توہین آمیز ٹویٹ کے بعد وزیر اعظم ہائوس میں بیٹھنا مناسب ہے’ مجھے اینٹ کا جواب پتھر سے دے کر گھر واپس نہیں آ جانا چاہیے‘‘؟رئوف طاہر صاحب
نے میاں صاحب کے مزاج اور خواہش کی پروا کیے بغیر جواب دیا’’نہیں میاں صاحب! آپ کو گھر کے میلے کپڑے بیچ بازار میں دھونے کے بجائے آرمی چیف سے رو‘ در‘ رو بات کرنی چاہیے۔ انہیں کہنا چاہیے کہ اس ٹویٹ سے آپ کی عزت میں اضافہ ہوا نہ فوج کی ساکھ بڑھی ہے‘ لہٰذا ٹویٹ واپس لے کر بدمزگی ختم کریں‘‘۔ مریم نواز شریف اس جواب پر جزبز ہوئیں‘ میاں صاحب بھی سٹپٹائے مگر جب شامی صاحب نے بھی رئوف طاہر کی تائید کی تو میاں صاحب نے سخت بیان جاری کرنے کا ارادہ ترک کیا۔ اس ضمن میں عرفان صدیقی صاحب اپنی کوششوں کا بھی ذکر کرتے ہیں ۔واللہ علم بالصواب۔ بہت کم صحافی نازک مزاج حکمرانوں کے سامنے دل کی بات زبان پر لاتے اور ان کی شکن آلود جبیں کی پروا نہیں کرتے‘ رئوف طاہر ان میں سے ایک تھے۔
مجلس آرائی کا شوق رئوف طاہر کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے لئے سم قاتل ثابت ہوا کہ وہ زبان و قلم کی توانائی بھر پور انداز میں بروئے کار لا کر اتنا آگے نہ بڑھ سکے جو ان کا حق تھا مگر وہ قناعت پسند آدمی تھے اور کثرت کی خواہش کے نتائج سے واقف‘ دیگر مجالس کی طرح کونسل آف نیشنل افیئرز کے اجلاسوں میں وہ اپنا نقطہ نظر منطق و استدلال اور بلند آہنگی کے ساتھ پیش کرتے اور بسا اوقات جذباتی ہو جاتے مگر شائستگی اور احترام کے تقاضے بہر صورت ملحوظ رکھتے‘ غلام مصطفی خان میرانی کے گھر ڈاکٹر شفیق چودھری ‘ ڈاکٹر سلیم مظہر‘ ڈاکٹر امان اللہ خان‘ پروفیسر شبیر احمد خان اور پروفیسر ہمایوں احسان کی موجودگی میں ایک الگ مجلس سجتی ‘جس میں رئوف طاہر ماضی کے سیاسی واقعات‘ لطائف و ظرائف اور جملے بازی سے اپنی دھاک بٹھاتے۔ مجھے یاد نہیں کہ کسی مجلس میں کوئی شخص حلقہ احباب میں سے کسی غیر حاضر دوست کی غیبت کا مرتکب ہو اور رئوف طاہر ڈانٹ نہ پلائیں‘ جن دنوں جسٹس ثاقب نثار کی عدالت میں جناب عطاء الحق قاسمی کا کیس زیر سماعت تھا‘ رئوف طاہر ہر جگہ قاسمی صاحب کا دفاع کرتے اور کسی کو تنقید کا موقع نہ دیتے‘ یہی رویہ ان کا دوسرے دوست احباب بالخصوص صحافت و ادب کے نامور افراد کے ضمن میں تھا۔ دسمبر کے آخری روز میں دو ہفتے گزار کر برطانیہ سے واپس لاہور آیا تو سوچا کہ اگلے ہفتے رئوف طاہر سمیت مخصوص احباب کو گھر پر مدعو کروں گا‘ خوب گپ شپ ہو گی‘ رئوف طاہر کے چٹکلے سننے کو ملیں گے مگر پیر کی دوپہر کو مرگ ناگہانی کی خبر مل گئی‘ نماز جنازہ میں ہر شخص اسی تاسف کا شکار تھا جس سے میں دوچار ہوں کہ ظالم نے آخری بار مل بیٹھنے‘ ہماری سننے‘ اپنی سنانے کا موقع ہی نہ دیا‘ عزیزان آصف طاہر اور کاشف طاہر کو بھی یہی رنج ہے کہ جاتے جاتے کوئی نصیحت کی نہ زباں سے حرفِ تسلی کہا‘ بس چپ چاپ ملک عدم کو چل دیے ؎
نہ دیکھا غم دوستاں شکر ہے
ہمیں داغ اپنا دکھا کر چلے


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *