بالآخر،اڑھائی سال بعد، حکومت کو گڈ گورننس کی کلید ملی گئی۔ کسی صاحب حال نے یہ نسخہ کیمیا حکومت کو بتایا ہے کہ قوالیاں کرائو، بیڈ گورننس گڈ ہو جائے گی۔ چنانچہ تمام کمشنروں ڈپٹی کمشنروں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ قوالیوں کی محفلیں سجائیں، انہیں کیبل پر نشر کرائیں اور ان قوالیوں کی تصویریں بنا کر وزیر اعلیٰ سیکرٹریٹ بھیجیں تا کہ سند رہے۔ قوالیوں سے گورننس گڈ کیسے ہو گی، یہ سمجھنا ہمارا آپ کا درد سر نہیں۔ رموز گڈ گورننس قوالی خان دانند۔ بس اتنا سمجھ لینا کافی ہے۔
٭٭٭٭٭
عرصہ ہوا ایک پرانی بلیک اینڈ وائٹ فلم دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ فلم کا نام تھا، دولہا دلہن، اس کی کہانی وغیرہ تو کچھ یاد نہیں، بس اتنا ذہن میں ہے کہ ہیرو(راجکپور) ایک موقع پر فلم کے ناظرین سامعین یا پھر دنیا والوں کو گاگا کر بتا رہا ہے کہ میں اصل میں قوال ہوں اور وہ بھی کلو قوال۔ ہیرو تو بس نظریہ ضرورت سے بن گیا۔ قوالی کا ایک بول کچھ یوں تھا ؎
مجھے کہتے ہیں کلّو قوال
میں ہوں ٹھمری تو تو ہے خیال
فی زمانہ جو خاندان قوالاں وہم نوایاں نافذ الوقت ہے، اس کے حساب سے خیال تو وہ خود ہیں(واضح رہے کہ خیال ایک گائیکی کی قسم ہے، اس کا معروف معنوں میں خیال سے کوئی تعلق ڈھونڈنا خام خیالی ہو گا) چنانچہ رعایت لفظی سے کام لیا جائے تو اس خاندان کا ہر کام اور ہر کلام بس خیال ہی خیال ہے۔ رہی ٹھمری تو وہ عوام ہیں، ایسی ٹھمری جواب کوئی گاتا ہے نہ کوئی سنتا ہے۔ سازمان قوالی نئے پاکستانی کی الماری میں کوئی خانہ، کوئی دراز اس ’’ٹھمری‘‘ کے نام نہیں۔
چنانچہ سازمان قوالان وہم نوایان نے ایک بات تو واضح کر دی کہ دراصل ہم ہیں قوال، حکمران تو نظریہ ضرورت والوں نے بنا دیا۔
٭٭٭٭٭
اب جو قوالی گائی جائے گی، حقیقی معنوں میں گائی جائے گی یعنی سچ مچ کے قوال، کلّن خان اور ہم نوا، سنتو میاں اور ہم نوا۔ قوالیاں کیبل پر چلیں گی، گلی محلّے میں قوالوں کے منچ جمیں گے، آہے واہے کی صدائیں راتوں کی نیند اڑائیں گی لیکن مجازی معنوں میں دیکھیے تو عرصہ اڑھائی سال سے قوالی ہی تو ہو رہی ہے بلکہ قوالیاں۔ ایک کے بعد ایک، درجنوں نہیں، گرسوں کے حساب سے ہو چکیں۔ بہت سی ایک بار تو ہٹ ہوئیں، پھر پٹ گئیں، کئی چلی ہی نہیں، بن کھلی کلیوں کی طرح مرجھا گئیں، ٹاپ آف دی لسٹ جو قوالی ہٹ ہوئی وہ کچھ یوں تھی۔
نہیں دیں گے، آہے، نہیں دیں گے، این آر او نہیں دیں گے
جو چاہیں یہ کرلیں سارے چور، این آر او نہیں دیں گے
ہٹ ہونے کے بعد یہ پٹنے لگی آخر قابل رحم حد تک مضحکہ خیز ہو گئی، اے قوالی تیرے انجام پہ رونا آیا۔
٭٭٭٭٭
ایک اور قوالی شروع میں ہٹ ہوئی، پھر پتہ نہیں اس پر پابندی لگ گئی یا سازمانِ قوالاں نے واپس لے لی۔ وہ کچھ یوں تھی، خان آئے گی۔ آہے، 20ارب ڈالر لائے گی آہے، سو ارب کسی منہ پر مارے گی۔ واہے، عرصہ ہوا، فرمائش پر بھی سننے کو نہیں مل رہی۔
اور ایک قوالی تو ایسی غائب ہوئی کہ آلہ فرمائش کرو تو سازمان قوالاں والے کاٹ کھانے کو اور حوالہ نیب کرنے کی دھمکی دیتے ہیں۔ پتہ نہیں کیا راز ہے۔ اس کے بول تھے، جان دے دیں گے، قرضے نہیں لیں گے، وزیر اعظم بن کر سائیکل چلاتے جائیں گے، پروٹوکول سارے ختم کر دیں گے، وغیرہ وغیرہ۔ ایک قوالی یہ تھی، جب چیزیں مہنگی ہوں اور بجلی کے ریٹ بڑھیں، تو سمجھ لو سمجھنے والو حکمران چور ہیں۔
یہ سب قوالیاں ممنوع ہو گئیں یا بھولی بسری ہو گئیں۔ ان میں پچاس لاکھ گھروں اور ایک کروڑ نوکریوں والی قوالی بھی شامل ہے۔ کچھ عرصہ بھارت کے یار، مودی کے وفادار، غدار ہے غدار والی قوالی بھی چلی، اب اس کی جگالی کم ہی ہوتی ہے۔
ان دنوں ایک اور قوالی بجانے کی کوشش ہو رہی ہے جس کا عنوان ہے ’’گا، گی، گے‘‘ گزرے سال گزرے سو گزرے، نیا سال ترقی کا ہو گا۔ خوشحالی لائیں گے، ترقی ہو گی۔ گائیگی کے نقادوں کا تبصرہ ہے کہ یہ قوالی سپر فلاپ ہوگی۔ لیجیے صاحب، تبصرے میں بھی ’’گی‘‘ کا لفظ آ گیا۔
٭٭٭٭٭
ایک اور پیرا نارمل یا میٹافزیکل قوالی آج کل ہفتہ وار بنیادوں پر گائی جاتی ہے، وقفے وقفے سے۔ یہ پیرا نارمل ہے تو کیوں اور میٹا فزیکل ہے تو کیوں، ذرا سا غور فرمائیے گا تو سمجھ جائیے گا۔ قوالی کچھ اس قسم کی ہوتی ہے کہ حکومتی اقدامات سے مہنگائی کم ہو گئی۔ قوالی سننے والے جب منڈی جا کر سودا خریدتے ہیں یا سودا خریدنے کی کوشش کرتے ہیں، تب سردھنتے ہیں اور سر ہی نہیں، سینہ بھی۔
15اشیاء مہنگی، چھ سستی، مہنگی یوں کہ فلاں چیز ڈیڑھ سو روپے سے بڑھ کر دوسو کی ہو گئی اور سستی یوں کہ فلاں چیز اٹھارہ پیسے سستی ہو گئی، یعنی پہلے سو روپے کی تھی تو اب ننانوے روپے 82پیسے کی ہو گئی۔ اس پر جملہ قوال اور ان کے جملہ ہمنوا یہ قوالی گاتے اور سامعین کے سینوں پر ماش مونگ دلتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
ایک اور قوالی بعنوان احتساب ہے۔ کسی کو نہیں چھوڑیں گے۔ سامعین کچھ عرصہ پہلے تک یہ قوالی سنتے ہی کانوں میں انگلی دے دیا کرتے تھے، اب اٹھ کر بھاگ کھڑے ہوتے ہیں۔ یاد آیا، آج ہی مریم اورنگ زیب کا بیان چھپا ہے کہ سو روز ہو گئے شہباز شریف کو گرفتار ہوئے، ایک روپے کی کرپشن بھی ثابت نہیں ہوئی۔بی بی کرپشن ثابت نہ ہونے کا مطلب یہ کہاں سے نکل آیا کہ کرپشن نہیں ہوئی۔ کرپشن کا ناقابل تردید ثبوت محض ایک ہی کافی ہے اور وہ یہ کہ جسے کلو قوال اور ان کے ہمنوا کرپٹ کہہ دیں، وہ کرپٹ ہے۔ اس کے بعد تو اصولی طور پر کسی نیب، کسی عدالت کی ضرورت ہی نہیں۔ یہ تو ہمنوائوں کی عنایت ہے کہ ایک ہلکا پھلکا پروسیجر چلاتے ہیں۔اور آپ سو روز کا رونا رو رہی ہیں، یہاں تو نواز شریف کو دو دو مقدمات میں سزائیں بھی ہو گئیں۔ عمر بھر کی نا اہلی بونس میں بھی مل گئی لیکن ثابت کچھ بھی نہیں ہو سکا۔ آمدن اثاثے کے فارمولے کے تحت چودہ سال قید ہو گئی۔


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *