درویشی بھی عیّاری ہے سلطانی بھی عیاّری ہے

کسی قوم کا مزاج صدیوں میں ڈھلتا ہے اور محض نعروںِ سے بدل نہیں سکتا‘ پیہم ریاضت کا مطالبہ کرتا ہے‘ یہ پیہم ریاضت کا۔
مولانا فضل الرحمن کے بارے میں ناچیز کی رائے ڈھکی چھپی نہیں۔ ایک بات سمجھ میں آئی نہیں آئی۔ ان کے خلاف بغاوت اور جمعیت کی شکست و ریخت پر شادیانے کیوں بجائے جا رہے ہیں۔
سبکدوشی کے کئی برس بعد‘ جنرل مشرف کے ایک نائب نے اپنی خودنوشت رقم کی۔خودنوشت کیا‘ اپنے سابق باس کو انہوں نے چارج شیٹ کیا۔ایک سابق چیف آف آرمی سٹاف نے انہی دنوں ملاقات ہوئی۔ عرض کیا کہ ان اوراق میں سچائی کا عنصر یقینا موجود ہے۔ دانا آدمی نے کہا: سچ وہ ہوتا ہے‘ جو بروقت بولا جائے۔
جنرل نے لکھا تھا: پرویز مشرف نے منفی انداز میں سرکارؐ کی ایک حدیث کا ذکر کیا’’ یہ دنیا مومن کا قید خانہ ہے‘‘
ان کی خدمت میںعرض کیا کہ: جب یہ بات یہ جنرل نے کہی تھی تو آپ کی غیرت سوئی کیوں رہی ۔ اس وقت کہا ہوتا کہ حضور اس مبارک قول کا مفہوم آپ پا نہیں سکے۔ مومن وہ ہے اخروی حیات کے نقطہِ نظرسے اپنی ترجیحات جو طے کرتا ہے۔
شعبِ ابی طالب‘ بدر واحد اور جنگ خندق‘ سرکارؐ اور ان کے رفقا کی زندگی ایک بعد دوسری آزمائشں تھی سے بھری تھی۔ انہی پر کیا موقوف۔ ایک ہی کربلا نہیں تھی اموی اور عباسی ادوار کی تمام صدیاں اہلِ بیت کے لئے‘ پیہم کربلا رہیں۔عمر بن عبدالعزیزؓ ہوں یا صلاح الدین ایوبی‘ امام ابی حنیفہ ہوں یا امام مالک جس کسی نے آنجنابؐ کی پیروی کی‘ زخم پہ زخم کھاتا رہا۔
تین دن کے بھوکے نابغۂِ روزگار شیخ عبدالقادر جیلانی ؒمسجد کی سڑھیاں چڑھ رہے تھے‘ ابلیس نے سرگوشی کی:اللہ کی راہ میں دکھ جھیلنے سے آپ کو کیا ملا؟ شیطانِ نہیں اپنے نفس کوآپ نے مخاطب کیا: اچھا؟ تو اس کی بات سنتا ہے؟ تمام رات عبادت گاہ کے زینوں پر نوافل میں بتا دی۔ پھر خوف اور غم سے وہ آزاد کر دیے گئے۔ پھر وہ وقت آیا کہ نماز جمعہ کے لئے دس ہزار دینار کا جبّہ سلوایا۔ تجارت آغاز کی تو پورے کا پورا بحری جہاز آپ کے سامانِ تجارت سے لدا ہوتا۔عظمت ٹوٹ ٹوٹ کر برسنے لگی۔
پروردگار کا وعدہ یہی ہے: خوف اور غم سے وہ آزاد کر دیے جاتے ہیں۔ مومن کی زندگی دشوار ہوتی ہے‘ لیکن سبک۔ منکر کی حیات سہل ہو سکتی ہے‘ لیکن ہمہ وقت خوف اور احساسِ جرم‘مستقل بے قراری۔آدمی فطرت کے جتنا قریب ہوتا ہے‘ اتنا ہی آسودہ۔اتنا ہی بے چین جتنا کہ اس سے دور۔
فقط ترجیحات کی بات نہیں بلکہ حسنِ عمل میں ڈھالنے کی۔حضرت مولانا محمد خان شیرانی‘ حافظ حسین احمد‘ مولانا گل نصیب اور مولانا شجاع الملک کے بعض اعتراضات درست ہو سکتے ہیں۔ ہو کیا سکتے ہیں‘ واقعی درست ہیں۔ سوال دوسرا ہے۔ مولانا فضل الرحمن کے تمام عیب اور ساری خامیاں آپ کو اب یاد آئیں؟۔
دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا
وہ تیری یاد تھی اب یاد آیا
حافظ حسین احمد جب تک سینیٹر یا قومی اسمبلی کے ممبر رہے‘ اپنے لیڈر سے رتی برابر اختلاف نہ تھا۔ وفاداری ثابت کرنے کے لئے گاہے اچھل کود بھی کرتے۔افغانستان پر روسی بمباری کے ردعمل میں متحدہ مجلس عمل تشکیل پائی۔ پختون خواہ میں 2002ء کا الیکشن سہولت سے جیت لیا۔ وزیر اعلیٰ کا منصب جمعیت کے اکرم درانی کو سونپا گیا ۔ اس کی سیٹیں‘ حلیف جماعت اسلامی سے دو چار زیادہ تھیں۔ فطری طور پر دوسرا بڑا عہدہ‘ جماعت اسلامی کو ملنا چاہیے تھا۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کے لئے قاضی حسین احمد کا نام تجویز ہوا۔ حافظ حسین احمد تلوار سونت کر کھڑے ہو گئے۔ظاہر ہے کہ حضرت مولانا فضل الرحمن کے اشارہِ آبرو پر۔
اس وقت مولانا فضل الرحمن کے محاسن سے وہ بے خبر تھے؟
مولانا شیرانی کا ارشاد ہے کہ مولانا فضل الرحمن نے‘ تقویٰ اورطہارت کو فروغ دینے کے لئے بنائی گئی جماعت کو سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا۔ فرمایا :جمعیت کی بجائے‘مزدور کسان پارٹی‘ اب اس کا نام رکھ لیجیے۔ جہاں سے مزدوری ملے‘ وہاں ڈیرہ ڈال دیجیے۔
عمر اور تجربے میں مولانا شیرانی بے شک‘ مولانا فضل الرحمن سے بڑے ہیں۔ شاید علم میں بھی ۔ انہی کے فیض سے مگر آپ اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ بنے تھے۔ دل پر ہاتھ رکھ کر کیا وہ کہہ سکتے ہیں کہ اس منصب کے اہل تھے؟
اللہ اور ابلیس کا ایک مکالمہ اقبال نے نقل کیا ہے۔
ابلیس
اے خدائے کن فکاں مجھ کو نہ تھا آدم سے بیر
آہ وہ زندانیِ نزدیک و دور و دیر و زود
حرفِ انکار تیرے سامنے ممکن نہ تھا
ہاں مگر تیری مشیّت میں نہ تھا میرا سجود
یزداں
کب کھلا تجھ پہ راز انکار سے پہلے کہ بعد
ابلیس
بعد اے تیری تجلی سے کمالاتِ وجود
یزداں
(فرشتوں کی طرف دیکھ کر )
پستی فطرت نے سکھلائی ہے یہ حجت اسے کہتا ہے تیری مشیت میں نہ تھا میرا سجود
دے رہا اپنی آزادی کو مجبوری کا نام
ظالم اپنے شعلۂِ سوزاں کو خود کہتا ہے دود
حافظ حسین احمد پہ مولانا فضل الرحمن مستقل اگر مہربان ہوتے۔ سینٹ یا قومی اسمبلی میں بٹھاتے۔کیا تب بھی ان کے ضمیر کا شعلہ اسی اسی طرح بھڑکتا؟ مولانا محمد خان شیرانی‘ اگر جمعیت علماء اسلام بلوچستان کی امارت سے محروم نہ کر دیے جاتے ؟کیا تب بھی عناد پالتے اپنے لیڈر کو جھوٹا اور خائن کہتے‘ جس کے سائے میں پھلتے پھولتے رہے۔ مولانا گل نصیب اور مولانا شجاع الملک سے موزوں مناصب کا اگر پیمان کر لیا جاتا تو کیا تب بھی نالاں ہوتے۔
مولانا فضل الرحمن آج بھی وہی ہیں کل تھے۔ امکان اور امید ہے کہ ان والے برسوں میں بھی وہی رہیں گے۔ کل اگر وہ صداقت شعار اور امانت دار تھے تو آج بھی ہیں۔ باغیوں کے بقول آج اگر خائن ہیں تو کل بھی تھے۔ راتوں رات کوئی شخصیت یکسر بدلی نہیں جاتی۔ آدمی آدمی ہوتا ہے‘ اژدر نہیں کہ راتوں رات کینچلی بدل ڈالیں۔
برصغیر میں کبھی کوئی سیاسی پارٹی کارفرما نہیں تھی۔ لیڈر ہوتے ہیں یہاں پارٹیاں نہیں۔ حضرت مولانا مفتی محمود کی فضیلت پر مولانا فضل الرحمن کے مخالفین بھی متفق ہیں۔ وہ بھول گئے کہ سیاست کے جوگر مولانا برتا کرتے ہیں‘ ان کی تربیت پسر نے پدر ہی سے پائی ہے۔ آخری تجزیے میں مولانا فضل الرحمن اپنے جلیل القدر والد ہی کا عکس ہیں۔دوسری سیاسی پارٹیوں کی طرح مذہبی سیاسی جماعتیں بھی حصول اقتدار کے لئے بنائی جاتی ہیں‘کم از کم حبِ جاہ کے لئے مختلف نہیں۔ کہا جا سکتا ہے کہ مفتی صاحب مرحوم نسبتاً ایک برتر عالم دین تھے مگر کتنے برتر؟ ان کی تصانیف کی تعداد کیا ہے معترضین کے لئے مولانا مفتی محمود مرحوم اگر دیوتا ہیں تو مولانا فضل الرحمن کیوں نہیں۔جھگڑا کیا صرف حصّہ رسدی کا نہیں؟
خداوندا ترے یہ سادہ دل بندے کدھر جائیں
کہ درویشی بھی عیّاری ہے‘ سلطانی بھی عیّاری
جمعیت علماء اسلام آج جو کچھ بھی ہے‘ مولانا فضل الرحمن کے طفیل ہے۔ ان کی ہنر مندی‘ تحرّک اور ریاضت کے طفیل۔ تحریک انصاف عمران خان کی ہے۔ اے این پی باچا خان ‘ پیپلز پارٹی اول بھٹو اور اب زرداری خاندان‘ پشتون خواہ ملی عوامی پارٹی اچکزئی کنبے کی میراث۔
یہ ملوکیت کی سرزمین ہے۔ غلامی‘ شخصیت پرستی اور احساس کمتری کی۔صدیوں سے ایسا ہی ہوتا ہے آئندہ بھی ایسا ہی ہوتا رہے گا۔ الاّ یہ کہ علم اور احساس فروغ پائے۔دلوں میں درد کی فصلیں اگیں۔تاریکیاں بتدریج چھٹ جائیں۔
کسی قوم کا مزاج صدیوں میں ڈھلتا ہے اور محض نعروںِ سے بدل نہیں سکتا‘ پیہم ریاضت کا مطالبہ کرتا ہے‘ یہ پیہم ریاضت کا۔


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *