فراغتے و کتابے و خوشہ چمنے

نور نظر آمنہ شاہ سے ملنے‘ نومولود نواسی حلیمہ شاہ کو دیکھنے اور چند دن سیاست و صحافت کے ہنگاموں سے دور رہنے کی خواہش دیار مغرب کے سیاسی و ثقافتی مرکز لندن لے آئی ہے‘ گھر میں مقید نہ سہی محصور ہوں کہ قرنطینہ کے نئے برطانوی قوانین کے تحت کم از کم پانچ دن تک گھر سے باہر نکلنا منع ہے ورنہ ایک ہزار پائونڈ جرمانے کی سزا‘ برطانیہ کے حکمران خاصے ہوشیار ہیں‘ مختلف ممالک نے کورونا وائرس سے نمٹنے کے لئے قوانین وضع کئے تو ایئر لائنز کو پابند کر دیا کہ صرف مستند لیبارٹریوں سے نیگٹو ٹیسٹ رپورٹ کے حامل مسافروں کو جہاز میں بیٹھنے کی اجازت دیں‘ پچھلے ماہ عزیزم شاہ حسن نے ترکی جانے سے قبل ٹیسٹ کرایا اور آرام سے استنبول سمیت کئی شہر گھوم پھر آئے‘ ڈاکٹر عبیر فاطمہ ساتھ تھی‘ دیگر ایئر لائنز اور ممالک کا بھی کم و بیش یہی معاملہ ہے مگر برطانیہ نے اپنی حدود میں داخل ہونے والی پروازوں پر ایسی کوئی پابندی نہیں لگائی‘ آپ کسی قسم کا ٹیسٹ کرائے بغیر آئیں‘ دس دن قرنطینہ کریں اور پھر آزادی سے گھومیں پھریں‘ مقصد یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ سیاح برطانیہ آئیں‘ زرمبادلہ خرچ کریں‘ برطانوی معیشت کو سہارا دیں اور ہنستے کھیلتے واپس چلے جائیں‘جو لوگ دس دن معتکف رہنا نہیں چاہتے وہ برطانیہ کی کسی لیبارٹری سے پیشگی ادائیگی پر پانچ روز بعد ٹیسٹ کی سہولت حاصل کریں اور رپورٹ نیگٹو آنے پر آزاد ‘ٹیسٹ کے نرخ سو سے دو سو پائونڈ ہیں ‘میں نے یہی آپشن اختیار کی‘ دو دن گزر گئے تین دن بعد دیکھتے ہیں کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ کورونا سے زیادہ ٹیسٹ کا خوف ہے۔
لندن میں تیسرے درجے کا لاک ڈائون ہے جس کے تحت ریستوران ‘ پب اور تفریحی مقامات بند ہیں البتہ مارکیٹیں کھلی ہیں اور آزاد منش برطانوی ایس او پیز کی پابندی کے خوگر نہیں‘ ہر شخص اپنے بچائو کا خود ذمہ دار ہے اور یہی بات ہم پاکستانیوں کو مسرور کرتی ہے‘ پاکستانی شہری دنیا بھر میں بدنام تھے کہ وہ حفظان صحت کے اُصولوں اور حفاظتی تدابیر کی پابندی کے عادی نہیں مگر کورونا وبا پھیلی تو پتہ چلا کہ قانون پسند امریکہ و یورپ اس معاملے میں ہم سے بھی چند قدم آگے ہے‘ ہم تو پھر بھی کچھ نہ کچھ احتیاط پسند واقع ہوئے ہیں‘ امریکی و یورپی باشندے بالکل نہیں۔ غالباً اسی باعث صرف پاکستان ہی نہیں کم و بیش تمام مسلم
ممالک میں کورونا متاثرین کی تعداد امریکہ‘ برطانیہ‘ اٹلی‘ جرمنی‘ فرانس اور اسپین سے کم ہے البتہ بھارت ہماری طرح کے معاشی‘ اقتصادی‘ سماجی حالات کے باوجود امریکہ کے ہم پلّہ ہے جس سے یہ پروپیگنڈا بھی خام ثابت ہو رہا ہے کہ جن ممالک میں لوگ محنت کش‘ کم تر شہری سہولتوں کے عادی اور سردی‘ گرمی سمیت بدترین موسمی حالات سے نمٹنے کے عادی ہیں وہاں کورونا کی تباہ کاریوں کا دائرہ محدود ہے۔ مودی کے سخت لاک ڈائون نے کورونا کی روک تھام میں مدد کی نہ دیگر اقدامات کا فائدہ ہوا‘ اس بات پر ایمان لانا پڑتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر کامل یقین ‘ ہاتھ منہ دھونے‘ نہانے اور صفائی ستھرائی کے اہتمام اور روکھی سوکھی کھا کر بھی کلمہ شکر ادا کرنے سے قوت مدافعت غیر معمولی طور پر بڑھتی اور موذی مرض سے محفوظ رکھتی ہے۔ صدقہ و خیرات بھی انسان کے رزق میں برکت کے علاوہ صحت و تندرستی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
برطانیہ جنوری میں بریگزٹ پر عملدرآمد کی تیاری کر رہا ہے اور برطانوی حکومت بعداز بریگزٹ سیاسی‘ اقتصادی و معاشی منصوبہ بندی میں مصروف۔ کورونا نے برطانوی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے بریگزٹ اس میں مزید اضافے کا موجب بن سکتا ہے۔ بدترین کورونا کے باوجود سیاحوں کو خوش آمدید کہنے اور داخلے سے قبل ٹیسٹ کی پابندی سے مستثنیٰ رکھنے کا ایک سبب یہ معاشی دبائو بھی ہے‘ اردگرد کے کئی ممالک مثلاً فرانس وغیرہ سے ساٹھ ستر پائونڈ کا فضائی ٹکٹ خرید کر آپ آدھ پون گھنٹے میں لندن پہنچ سکتے ہیں۔ سو ڈیڑھ سو پائونڈ کا کورونا ٹیسٹ پیشگی کرانا پڑے تو مسافر محض سیروتفریح کے لئے برطانیہ کا رخ کیوں کریں؟ اس خدشے کے پیش نظر حکومت نے پیشگی کورونا ٹیسٹ کی شرط نہیں رکھی 23دسمبر سے بہت سی پابندیاں نرم کی جا رہی ہیں تاکہ کرسمس اور نئے سال کی تقریبات میں شرکت کے لئے لاکھوں سیاح برطانیہ کا رخ کریں اور برطانوی معیشت پر پڑنے والے مالی بوجھ کو
کم کر سکیں۔ بورس جانسن کے ان اقدامات کے خلاف اپوزیشن نے وہ منفی پروپیگنڈا شروع کر رکھا ہے جو پاکستان جیسے ممالک کی سیاست کا خاصہ ہے نہ شہریوں نے حکومت پر دبائو بڑھایا ہے کہ ان کی صحت سے نہ کھیلے‘ البتہ محدود سطح کی پابندیوں پر اظہار ناراضگی ضرور پایا جاتا ہے۔ یہ بھی حیران کن بات ہے کہ ریستوران‘ پب اور دیگر تفریحی مقامات لاک ڈائون کی زد میں ہیں مگر تعلیمی ادارے سکول کی سطح تک کھلے ہیں اور والدین کو ان پر کوئی اعتراض نہیں‘ یہ تعلیم سے حکومت اور والدین کا شغف ہے یا معیشت کا دبائو؟ کسی نے سوال کیا نہ حکومت کو جواب دینے کی ضرورت ہے۔ میرے ایک ٹویٹ سے لندن اور مضامات میں موجود بعض دوستوں کو پتہ چل گیا کہ مسافر لندن میں ہے لہٰذا رابطے شروع ہیں اور میں پانچ روزہ قرنطینہ کے بہانے انہیں ٹال رہا ہوں۔ ویسے بھی نومولود نواسی حلیمہ مجھے اور میری اہلیہ کو سارا دن مصروف رکھتی ہے اور بیٹی آمنہ کے علاوہ حسن علی گیلانی کو دو ماہ بعد قدرے آرام کا موقع ملا ہے ۔حلیمہ ماں سے زیادہ نانی کی گود میں رہنا پسند کرتی ہے اور کبھی کبھی مجھے بھی لفٹ کرا دیتی ہے۔ میری ایک مجبوری یہ بھی ہے کہ اپنی دوسری نواسی نائرہ علی رضوی کی ناراضگی کا خوف لاحق رہتا ہے جو کسی دوسرے بچے حتیٰ کہ اپنی ماں مریم شاہ کے ساتھ میری بے تکلفی کو پسند نہیں کرتی‘ اپنا حق وقتاً فوقتاً جتلاتی رہتی ہے اور میں بھی ایفائے عہد کا پابند ہوں کہ میرے لئے نائرہ سے بڑھ کر کوئی نہیں ورنہ کٹی کی دھمکی۔ برطانیہ میں قومی سیاست بالخصوص حکومت اپوزیشن محاذ آرائی پر تارکین وطن کی سوچ کیا ہے؟ یہ قرنطینہ سے نکل کر‘ مختلف احباب سے میل ملاپ میں ہی پتہ چلے گا فی الحال تو فراغت ہے‘ بچوں سے گپ شپ ہے‘ یا پھر وقت گزاری کے لئے ترک ڈرامہ گریٹ سلجوق جو پاکستان میں پی ٹی وی نے دکھایا تو ارطغرل کی طرح ریکارڈ توڑ ثابت ہو گا‘ اس فراغت سے فائدہ اٹھا کر میں ساتھ لائی وہ کتابیں پڑھ ڈالنا چاہتا ہوں جو عرصہ دراز سے الماری میں پڑی اپنے قاری کی منتظر تھیں۔ ایک کتاب تو دوران سفر کام آئی‘ حافظ شیراز نے کتاب بینی کے لئے ؎
دو یار زیرک داز بادہ کہن دو منے
فراغتے و کتابے و خوشہ چمنے
کی شرط لگائی تھی یہاں دو من بادۂ کہن سے شغف نہ گوشہ چمن میّسر‘ مگر فراغت کتب بینی کے لئے غنیمت ہے۔ سو ہم بھی معجزے اپنے ہُنر کے دیکھتے ہیں۔


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *