ایک تازہ زخم

یہ ابھی دو ڈھائی دن پہلے سقوط ڈھاکہ کے سانحے کی یادیں دل کو چیر کے کھا گئی ہیں۔ اسی دن کئی برس بعد دشمن نے پھر وار کیا اور آرمی پبلک سکول کو نشانہ بنایا۔ نشانہ اب بھی پرانے والا تھا۔ایسے میں بحث چھڑ پڑی کہ یہ جو بلوچستانی گاندھی عبدالصمد خاں کا بیٹا ہے۔ اس نے لاہور کے جلسے میں زندہ دلان لاہور پر کچھ اوچھے وار کئے ہیں۔ دل پھر چھلنی ہو گیا۔ لاہور کے جلسے کے اپنے طنطنے تھے۔ دونوں طرف سے بحث جاری تھی۔ لگتا تھا جمہوریت لوٹ آئی ہے۔ کیا دن تھے جب ایسے جلسے دن کی رونقیں جگا جایا کرتے تھے ۔جمہوریت کی خاطر جب بھی کوئی اتحاد بنا۔ بڑے بڑے طرم خانوں نے مروت و اخوت کے رشتوں کے ساتھ اتحاد و یکجہتی کا پیام دیا۔ یہ کون سا موقع تھا کہ ایسے قومی اجتماع کے موقع پر آپ اپنی تنگ نظری کا پرچار کرنے لگے۔ یہ نہیں کہ ہم نے سرحدی گاندھی یا بلوچستانی گاندھی کو معاف کر دیا ہے۔تاہم جمہوریت کے سفر نے سب کو ساتھ ساتھ رہنا سکھا دیا ہے۔ باچا خاں کے خاندان نے تو اس تناظر میں کئی بار اس دھرتی سے اپنی محبت کو آشکار بھی کیا۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار میں نے بھی باچا خان کا انٹرویو کیا تھا۔ اس خیال سے کہ لاہور میں بیٹھ کر ان سے پاکستان کے حوالے سے دوچار لفظ سن لوں۔ ان دنوں ولی خاں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کو روکنے کے لئے بڑا نمایاں کردار ادا کر رہے تھے۔ پھر یہ ہوا کہ غفار خاں نے سرحد پار جلال آباد میں دفنائے جانے کا فیصلہ کیا۔یہ تو وہ سفر آخرت تھا کہ جہاں سے کوئی لوٹ کر نہیں آتا۔ وگرنہ شاید وہ وہاں سے بھی پلٹ آتے۔ اجمل خٹک بھی کس اکڑ کے ساتھ سرحد پار کر کے گئے تھے اسی جلال آبادمیں۔ پھر لوٹ آئے تو ایسے پاکستانی تھے کہ مجید نظامی بھی ان کے گن گانے لگے۔ سرحد پار جانے والوں میں کئی بلوچی جوان بھی تھے۔ ہم بھٹو کو کوستے رہے کہ اس نے ان نوجوانوں کو پہاڑوں پر جانے اور ہجرت کرنے پر مجبور کیا ہے۔ ان دنوں مری قبیلے کے ایک انقلابی شیر محمد مری تھے جو جنرل شیروف کہلاتے تھے۔ اسے جب اسی جلال آباد میں افغانوں نے گھیر لیا تو پاکستانی سفارت خانے نے افغان حکومت سے استدعا کی کہ انہیں بچایا جائے یہ ہمارا شہری ہے۔ جب اس بڑے انقلابی سے پوچھا گیا کہ وہ کہاں جانا چاہیں گے تو اس نے اپنے علاج کے لئے بھارت جانے کی خواہش کی۔ اسے بھیج دیا گیا۔ پھر میں نے اسے آخری عمر میں کراچی میں دیکھا ہے جہاں وہ مست شامیں گزارتا اور بیتے دنوں کو یاد کرتا اسے بالآخر اسی
دھرتی نے پناہ دی تھی۔ میں نے اسے پہلی بار کراچی جیل میں دیکھا تھا‘ پھر کراچی کی سہانی شاموں میں دیکھا۔ وطن کی مٹی گواہ رہنا‘ ان لوگوں کو خبر ہو اپنا وطن اپنا وطن ہی ہے۔
محمود خاں اچکزئی سے میں شاید 76ء میں کوئٹہ ہی میں پہلی بار ملا تھا۔ ان کے والد کے قتل پر ہم حکومت ہی کومطئوںٹھہراتے تھے کہ ہو نا ہو یہ سب بھٹو کا کیا دھرا ہے۔ ان سے ہمدردی بھی تھی۔ کراچی میں انہیں اردو زبان سے اپنا بغض یاد آیا اور لاہور آ کر پنجاب کو طعنے دینے کا شوق پیدا ہوا۔ بھلا یہ کسی بھلے آدمی کا چلن نہیں۔ آدمی بھی وہ جو خود کو سیاست دان سمجھتا ہو اور جمہوریت کے سفر پر نکلا ہو۔ اسے بھلا یہ باتیں زیب دیتی ہیں۔کسی نے مجھے بتایا کہ اس نے نواز شریف کے نااہل ہونے پر کہا تھا کہ دیکھا ہم نے ایک پنجابی وزیر اعظم کو فوج سے لڑوا دیا۔اس وقت اسے صرف فقرے بازی سمجھا گیا مگر لگتا ہے دل صاف نہیں ہے۔دو ایک سال پہلے انہوں نے افغانستان کا جس طرح ذکر کیا تھا اس پر زیادہ سے زیادہ یہ کہا گیا کہ اسے دو ملکوں کا شہری کہہا گیا تو۔بہت لیپا توپی کی گئی۔ اتحادیوں کو طعنے دیے گئے کہ تم ایسے لوگوں کو ساتھ لے کر کیوں چلتے ہو۔ ایسے بھی تھے جنہوں نے مسلم لیگیوں کو داد دی کہ وسعت قلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہر طرح کے قوم پرستوں کو ساتھ رکھتے ہیں۔ سندھ ہو یا بلوچستان سارے علاقائی تعصب کا مظاہرہ کرنے والے نواز شریف کے ساتھ ساتھ چلتے تھے۔ لیکن لگتا ہے ان کے دلوں میں کوئی اور بات ہے۔
کوئی کہے گا اگر تاریخ یہی ہے تو پھر کہنے کا حق ہے۔ پہلے تو تاریخ اس کی نفی کرتی ہے۔ تاریخ یہ ہے ہی نہیں‘یہ صرف ہماری نظر کا کمال ہے کراچی کی ایک نشست مجھے یاد آئی۔ سلیم احمد کے ہاں ایک فکری نشست برپا تھی۔ ایک نوجوان دانشور نے ایک طویل مکالمہ پڑھا جو وہ پنجابی میں لکھ کر لائے تھے مگر روانی سے اردو میں پڑھتے رہے۔ اس میں پنجاب کے حوالے سے کچھ ایسے ہی تجزیے تھے۔ اپنا اپنا انداز فکر ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ہمارے بابا فرید کو وہ سنت فرید کہتے تھے۔ جمیل الدین عالی بھی اس نشست میں موجود
تھے۔ انہوں نے براہ راست بات کرنے کے بجائے مجھ سے پوچھ لیا کہ یہ جو پنجاب پر الزام ہے کہ اس نے ہر حملہ آور کو خوش آمدید کہا اور اسے ہنسی خوشی پانی پت تک چھوڑ کر آئے۔انہوں نے مجھ سے یہ سوال اس لئے کیا تھا کہ وہ جانتے تھے میں اس سوال کو برداشت بھی کر لوں گا اور انہیں بھی غداری کا سرٹیفکیٹ عطا نہیں کروں گا۔ میں نے عرض کیا‘عالی جی‘ میں تاریخ کو ایک اور طرح بیان کرتا ہوں۔ وہ یوں کہ جب اولین حملہ آور آئے تو پنجاب نے ان کا راستہ روکا حتیٰ کہ سکندر اعظم کا بھی۔پھر یہ ہوا کہ پنجاب مسلمان ہو گیا اور اس نے ہر مسلمان حملہ آور کو دلی کے حکمرانوں کے ظلم و ستم کے خلاف خوش آمدید کہا۔وہ حکمران جن پر ہندوئوں کا غلبہ ہو چکا ہوتا تھا یہ فقرہ میں نے جانے کیوں انگریزی میں ادا کیا تھا۔
Punjab Welcome Every Muslim invadir againt to tyranny of hindu-dominated delhi rule.
محفل میں ایک سناٹا چھا گیا۔ مزید عرض کیا۔ آخری حملہ آور (یعنی انگریز)دوسری طرف سے آئے تھے اور پورے برصغیر پر چھا گئے۔ یہ بھی عرض کیا کہ اس وقت پنجاب پر سکھوں کا قبضہ تھا۔پنجاب محکوم تھا۔ وغیرہ وغیرہ اب تاریخ کو قلم کی ایک جنبش سے جس راہ پر چاہیں ڈال دیں۔ چاہے تو مبارک بھی بن جائیں۔ چاہے تو الٹ راستہ اختیار کر لیں۔ ویسے یہ جو افغان بمقابلہ پنجاب کی بحث شروع کر رکھی ہے۔ یہ بنتی نہیں ہے۔ ہمارے تو سارے حملہ آور افغانستان ہی کے راسے سے آتے تھے۔ غزنوی‘ غوری‘ بابر حتیٰ کہ احمد شاہ ابدالی تک ادھر سے آئے تھے یہ تو تم ہمیں بتا رہے ہو وہ فاتحین تھے جنہوں نے ہمیں شکست دی۔ ایسے میں کچھ لوگ پنجابی ہیرو تلاش کرنے لگے ہیں۔ وہ پورس سے لے کر رنجیت سنگھ سب کو اپنا ہیرو بنا لیں گے۔ کچھ مگر بڑی شرافت سے عزیمت کی وہ داستانیں سناتے ہیں جو اس سرزمین نے رقم کیں۔ دلا بھٹی سے لے کر احمد خان کھرل تک ایک لمبی تاریخ گنا دی جاتی ہے۔
دیکھیے آزادی کی جدوجہد اس برصغیر کے چپے چپے پر ہوئی اور خوئے غلامی بھی ہر جگہ نظر آئی۔ لوگ پھبتی کستے ہیں بلوچ سرداروں نے انگریزوں کی بگیوں میں جت کر اس کا اظہار کیا تھا۔ ہر طرح کی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ جانے آپ یہ باتیں کر کے کس کا کھیل کھیل رہے ہیں۔
ویسے ہمیں بھی سوچنا چاہیے کہ کہیں بلوچستان میں ہم آج بھی نفرت کے بیج تو نہیں بو رہے۔ کئی سوال ہیں جو جواب طلب ہیں۔


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *