جامعہ اشرفیہ کے بانی مفتی محمد حسن صاحب ڈاکٹر صاحب (ڈاکٹر امیر الدین) کے والد شہاب الدین صاحب کے دوست تھے۔ اپنی علالت کے دوران مفتی صاحب نے دو مریضوں کو باتیں کرتے ہوئے سن لیا‘ ایک مریض دوسرے سے کہہ رہا تھا۔ ’’آج تمہیں ایک داڑھی منڈاولی دکھائوں گا۔‘‘ ڈاکٹر صاحب وارڈ میں داخل ہوئے تو ان کی طرف اشارہ کر کے کہا‘ یہ رہا وہ ولی! یہ قصہ سن کر شہاب الدین پھولے نہیں سما رہے تھے۔ آخر باپ تھے اور افتخار کا جواز تھا۔ خود شہاب الدین صاحب کا قریبی تعلق شرق پور والے حضرت میاں شیر محمدؒ صاحب کے ساتھ رہا تھا۔ وہ وقتاً فوقتاً ان کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے ع
صحبت اہل صفا نور و حضور و سرور
ایک دفعہ شہاب الدین صاحب نے ارادہ کیا کہ فلاں کام میں منافع ہوا تو رقم مہمان خانے کی توسیع کے لیے پیش کروں۔ پھر کسی وجہ سے ایسی پیشکش موخرکردی۔ اگلی دفعہ حاضری دی تو میاںؒ صاحب (حضرت میاں شیر محمد)نے فرمایا: ’’شہاب الدین انسان جو کام کرنے کی نیت کر لے اسے پورا کردینا چاہیے۔‘‘
ڈاکٹر صاحب میٹرک میں تھے جب’’چیرا‘‘ دلوانے کے لیے چھوٹے بھائی کو جراح کے پاس لے گئے۔ خون بہتا دیکھ کر ڈاکٹر صاحب بے ہوش ہو گئے۔ رشتے داروں کو مذاق ہاتھ آ گیا۔ لو اورسنو! شہاب الدین کہتا ہے میرا بیٹا ڈاکٹر بنے گا۔
نواب امیر محمد خان کالا باغ کبھی نہ بھلا سکے کہ برسوں پہلے جب وہ ایک غیر معروف شخص تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے ان کے وفادار ملازم نورے کا آپریشن کیا تھا اور بڑی توجہ سے مریض کی نگہداشت کی تھی۔ گورنر مغربی پاکستان کی حیثیت سے ہر سہ ماہی نواب صاحب کی ذاتی گاڑی آتی۔ ایک ٹوکری میں شہد کی بوتل‘ موسم کا پھل اور سبزی ہوتی۔ ساتھ ایک کارڈ منسلک ہوتا:
To My good Friend. Dr. Amir-ud-Din.
نواب کالا باغ کے بیٹے کی شادی سردار محمد خان لغاری کی بیٹی کے ساتھ ہوئی تھی۔ لغاری صاحب کے ہاں تو بڑا مجمع تھا مگر نواب صاحب پندرہ سولہ احباب کی بارات لے کر آئے تھے جس میں ڈاکٹر صاحب بھی شامل تھے۔ نواب صاحب نے ہی صدر محمد ایوب خان کو مشورہ دیا تھا کہ بیرون ملک جانے کی بجائے ہرنیا کا آپریشن ڈاکٹر امیرالدین سے کروالیں۔ جزئیات طے کرنے کے لیے جنرل اے زیڈ محی الدین آ گئے۔ تین روز کے لیے ڈاکٹر صاحب راولپنڈی چلے گئے۔ سٹیٹ گیسٹ ہائوس میں قیام رہا۔ آپریشن بخیر انجام پایا۔ صاحب صدر بہت خوش تھے۔ ساتھ ہی انہیں احساس تھا کہ ڈاکٹر صاحب کے مریض لاہور میں ان کے منتظر ہوں گے۔ وقت رخصت انہوں نے مربیانہ انداز میں پوچھا:
What can i do for your family?
جواب تھا: ’’میری تین بیٹیاں ہیں۔ خدا کا شکر ہے وہ اپنے اپنے گھر میں خوش ہیں۔‘‘ بڑی بیٹی کا خاوند ڈاکٹر تھا۔ میں سول سروس میں تھا مگر اس مرد درویش نے فرض منصبی جان کر آپریشن کیا تھا۔ موقع سے فائدہ اٹھا کر احسان لینا منظور نہ تھا:
دوش برمن عرض کردند آنچہ درکونین بود
زآں ہمہ کالائے رنگارنگ دل برداشتم
تعلیم ختم کرنے کے بعد سروس ٹیکسٹائل مل اور پرائم انڈسٹریز کے مالک چودھری محمد سعید امرت سر میں محکمہ صنعت میں ملازم ہو گئے تھے۔ انہیں پیشاب کی تکلیف رہنے لگی۔ پتھری کا شک تھا۔ مشورے کے لیے ڈاکٹر صاحب کے کلینک پہنچے۔ معائنے کے بعد چودھری صاحب نے فیس دینی چاہی۔ ڈاکٹر صاحب نے فیس دینی چاہی۔ ڈاکٹر صاحب نے پوچھا‘ کیا کام کرتے ہو؟ سن کر کہا۔ اس پوسٹ میں تمہاری تنخواہ واجبی ہوگی۔ چودھری صاحب نے کہا: ’’ایسی بات نہیں۔ میں فیس ادا کرسکتا ہوں۔‘‘ ڈاکٹر صاحب نہ مانے۔ گوجرانوالہ کے معروف صنعتکار اور سماجی کارکن عزیز ذوالفقار نے بتلایا‘ میرا ایک عزیز ریلوے ورکشاپ میں فورمین تھا۔ اسے تکلیف تھی۔ میں اسے ڈاکٹر صاحب کے پاس لے گیا۔ ڈاکٹر صاحب کو اندازہ ہو گیا کہ اس کی ملازمت معمولی نوعیت کی ہے۔ میں نے اصرار کیا کہ میں فیس ادا کرسکتا ہوں۔ ڈاکٹر صاحب کا جواب تھا۔ فیس نہ لے کر میں بھی بھوکوں نہیں مرتا۔ ساتھ ہی عزیز ذوالفقار صاحب نے ڈاکٹر صاحب کے ایک معروف ہم عصر کا قصہ سنایا۔ ایک مریض کا آپریشن ہونا تھا اور ڈاکٹر صاحب اپنی فیس چکا رہے تھے۔ چند خستہ حال عورتیں لجاجت سے کہہ رہی تھیں‘ ڈاکٹر صاحب ہم ماڑے لوگ ہیں۔ کچھ رعایت کر دیجئے۔ جواب تھا‘ بی بی تم چوری کرو یا ڈاکہ مارو‘ مجھے اس سے غرض نہیں‘ میری فیس یہی ہے۔
قُل کے موقع پر ایک بات سن کے میں آنسو نہ روک سکا۔ ہم عصر‘ ہم پیشہ‘ دوست احباب‘ چھوٹے بڑے سبھی چلے آ رہے تھے۔ ایک صاحب میرے پاس آ کر کہنے لگے‘ میں پاکستان فوج کا ریٹائرڈ کرنل ہوں۔ اس خاندان کے کسی فرد کو نہیں جانتا۔ طالب علمی کے زمانے میں میری والدہ سخت بیمار ہو گئی تھیں۔ آپریشن ناگزیر تھا۔ میری مالی حالت آپریشن کی متحمل نہیں ہو سکتی تھی۔ میں نے ڈاکٹر صاحب کو صورت حال بتائی۔ انہوں نے آپریشن کیا اور تمام اخراجات خود برداشت کئے۔
ڈاکٹر صاحب کے انتقال کے بعد ہمارے دوست عبدالمجید مفتی نے ایک ایسی بات بتائی جو میرے علم میں نہیں تھی۔ شاید اس لیے بھی کہ 1961ء میں ملازمت کے سلسلے میں مشرقی پاکستان میں تھا۔ مفتی صاحب اس وقت پنجاب سول سیکرٹریٹ میں ڈپٹی سیکرٹری تھے۔ کہنے لگے۔ چیف سیکرٹری نے مجھ سے کہا کہ ڈاکٹر صاحب سب سے سینئر ہیں‘ ان سے پوچھ آئو کیا وہ محکمہ صحت کا سیکرٹری بننا پسند کریں گے؟ میں ڈاکٹر صاحب کے پاس گیا اور آنے کا مدعا بیان کیا۔ کام سے شیفتگی کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے دو ٹوک جواب دے دیا۔ میاں! ہوش کے ناخن لو۔ میں سرجن ہوں۔ اپنا کام چھوڑ کر سیکرٹریٹ میں جا بیٹھوں؟ ہمارے زمانے میں صاحب اقتدار ہونے اور حکومت کرنے کا شوق جنوں کی حد تک ہے۔ وہاں استغنا کی فرماں روائی تھی۔
رب کریم کا فضل ہمیشہ شامل حال رہا۔ وہ جب تک جیے‘ لوگوں کی آنکھ کا تارا بن کر جیے۔ وفاقی حکومت کے وزیر صحت جنرل برکی کہنے لگے‘ ڈاکٹر صاحب! جب تک آپ چلنے پھرنے کے قابل ہیں ہم نے آپ کو میو سے نہیں جانے دینا۔ ریٹائر ہو کر کئی برس پروفیسر ایمریطس رہے۔ اپنے وارڈ میں مریضوں کی نگہداشت کے لیے روزانہ پابندی سے جاتے رہے۔
ہائوس سرجن کو ہدائت تھی کہ مریضوں کا حال بتلانے اور ضروری ہدایات لینے کے لیے رات کو نو بجے فون کرے۔ ہم لوگ کھانے کی میز پر تھے جب نو بجے فون کی گھنٹی بجی۔ ڈاکٹر صاحب نے ریسیور اٹھایا۔ غیر متوقع طور پر ہم نے سنا: ’’دونوں ڈوب گئے۔‘‘
دوسری طرف سے جواب اثبات میں ہوگا۔ ڈاکٹر صاحب نے اتنا کہا۔
’’اللہ تیرا شکر ہے۔‘‘
فون کراچی سے تھا۔ یہ جاننے کی ضرورت نہ تھی کہ یہ سنائونی کس نے سنائی۔ کوئی صاحب بڑے داماد کے ڈوب جانے کی اطلاع دے رہے تھے جو بھائی کو بچاتے ہوئے خود بھی ظالم لہروں کی نذر ہو گئے تھے۔ وہ بڑی کڑی آزمائش تھی‘ مگر پائے استقلال میں لغزش نہیں آئی۔ غم گساروںکا تانتا بندھ گیا۔ ہفتوں لوگ پُرسا دینے کے لیے آتے رہے۔ وہ تسلیم و رضا کی تصویر بنے برآمدے میں بیٹھے رہتے ع
ہر چہ از دوست می رسد نیکوست
کی زندہ علامت‘ البتہ اس جانکاہ حادثے کے بعد گانا سننے کا شوق یکسر ختم ہو گیا۔ یتیم بچوں کی نگہداشت باپ بن کر کی۔ وہ ڈاکٹر صاحب کے گھر ہی میں پھلے پھولے۔ تعلیم مکمل کی اور وہیں سے بیاہے گئے۔


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *