قومی فلاح کی راہ

جلسہ کیسا ہو گا‘ ہو گا بھی کہ نہیں ہو گا‘ کتنے لوگ آئیں گے‘ کیا لائحہ عمل طے ہو گا۔ یوں سمجھ لیجیے کہ میں قطعاً نہیں جانتا‘ مگر اتنا جانتا ہوں کہ اس احساس ہی نے کہ کچھ ہو رہا ہے‘ دلوں کو ایک طرح سے گرفت میں لے رکھا ہے۔طبیعتوں میں ایک طرح کا کھچائو سا ہے۔ ایک عجیب نشہ ہے جس کا سرور تو شاید معلوم نہیں کہ ہے‘ البتہ پائوںضرورلڑکھڑا رہے ہیں۔ ہماری زندگیوںمیں یہ دن بار بار آتا رہا ہے‘ مگر اس وقت عجیب انداز میں آیا ہے کہ نہیں معلوم اس کے اثرات کیا مرتب ہوں گے۔
فرض کیجیے ہم یہ مان لیتے ہیں کہ اپوزیشن کا بیانیہ درست ہے۔ اسے نواز شریف کے ان الفاظ میں بیان نہ کیجیے جو انہوں نے اپنی تقریروں میں بیان کئے ہے۔ ذرا آسان‘ سادہ اور قابل قبول بیان ، شاہد خاقان عباسی کے الفاظ میں یوں کہہ لیجیے کہ یہ بات آئین کے مطابق ہونا چاہیے۔کتنا بے ضرر سا فقرہ دکھائی دیتا ہے مگر مفہوم یہی ہے کہ کوئی ہے جو ملک کو آئین کے مطابق نہیں چلنے دے رہا۔ موجودہ صورتحال کے حوالے سے یوں کہا جاتا ہے کہ یہ حکومت اپنی قوت سے برسر اقتدار آئی ہے نہ قائم ہے۔گویا کسی کے سہارے پر چل رہی ہے۔ کسی نے انہیں چنا۔اس لئے سلیکٹڈ اور کٹھ پتلی حکومت کے الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں۔ گویا یہ کہا جا رہا ہے کہ یہ امداد ہٹا لی جائے تو یہ حکومت ڈھرام سے گر جائے گی۔
مطلب یہ ہے کہ جب یہ کہا جاتا ہے کہ حکومت ان دھرنوں ‘ جلوسوں اور لانگ مارچ سے کیسے جائے گی تو بتایا جاتاہے کہ اگر یہ حمایت ختم ہو جائے جو اس احتجاج کے نتیجہ میں ممکن ہے تو اسمبلیوں میں تحریک عدم اعتماد بھی لائی جا سکتی ہے۔ جس دم بہت سے لوگوں کو یہ معلوم ہو گا کہ انہیں کوئی سہارا میسر نہیں تو وہ اس حکومت کی جبری حمایت چھوڑ دیں گے۔ اس طرح وہ ثابت کرتے ہیں کہ ان کی جدوجہد غیر جمہوری نہیں بلکہ ملک کو آئین کے مطابق چلانے کی بنیاد پر ہے۔ سادہ لفظوں میں حکومت کی غیر آئینی حمایت ختم ہو جائے تو حکومت ختم ہو جاتی ہے۔
درست‘ بالکل درست ان کا بیانیہ بھی درست اور اس کے نتیجہ خیز ہونے میں آپ کا تجزیہ بھی ٹھیک۔مگر اتنا تو بتائو یہ غیر آئینی حمایت اس وقت کیوں اپنی بیساکھیاں کھینچے گی۔ اس ملک میں عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ جب عوام کا لہجہ بدلتا ہے تو اس ملک کے نادیدہ کارپرداز اپنا رخ بدل لیا کرتے ہیں۔ آپ تو مگر انہی کو ٹارگٹ کر رہے ہیں۔ نواز شریف کے بیانیے میں تو فوج اور خفیہ ایجنسی دونوں کے سربراہوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ پھر آپ کی مدد کے لئے کون آئے گا۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ آپ کا بیانیہ غلط ہے‘ مگر جو پوچھنا چاہتا ہوں کہ آپ کسی کو مدد کے لئے پکار رہے ہیں اگر آپ کا کہنا ہے کہ پس پردہ قوتیں ہتھیار ڈال دیں گی‘تو یہاں سوال صرف اتنا ہے کہ کیا موجودہ حالات میں یہ ممکن ہے۔ آپ کی لڑائی حکومت کے خلاف تو ہے نہیں‘ ان نادیدہ قوتوں کے خلاف ہے اور ان کو بھی آپ نے نامزد کر دیا ہے۔ پھر آپ کا ٹارگٹ کیا ہے۔ خدانخواستہ آپ کا ٹارگٹ اس سے زیادہ کچھ ہو کہ یہ قوتیں حمایت چھوڑ دیں۔ مگر آپ نے تو ان کو بھی کسی کام کا نہیں چھوڑا۔منظم قوت کے خلاف حکمت عملی کیا ہے۔ ڈسپلنڈ ادارے اپنے نظم و نسق کے پابند ہوتے ہیں خدا کرے ہمارے ہاں ایسا ہی رہے اس لئے ٹارگٹ واضح نہیں ہے۔
تو کیا اس ملک میں 72سال سے جو کچھ ہو رہا ہے اسے ہونے دیں۔ نہیں ہرگز نہیں‘ مگر اسے ختم کرنے کا کیا مرحلہ آ چکا ہے۔ ترکی میں بڑے جتنوں کے بعد آیا تھا۔ انڈونیشیا کو بھی اس نتیجے تک پہنچنے میں وقت لگا تھا۔ پھر عالمی حالات میں بھی تبدیلی ضروری ہوتی ہے۔ ملک کے اندر سماجی و معاشی تبدیلیوں کو ایک خاص سطح پر ہونا چاہیے وگرنہ بہت سخت خرابی ہوتی ہے۔ کئی بار اس عمل کو برسوں لگتے ہیں۔ ترکی میں طیب اردوان ایسے ہی نہیں آ گیا۔ اس کی ایک لمبی تاریخ ہے۔
اچھا‘ اب یوں سوچ لیتے ہیں کہ حکومت کامیاب ہو جاتی ہے۔جب وزیر اعظم سے پوچھا گیا کہ اپوزیشن اس قدر پراعتماد کیوں ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ میں اس سے بھی زیادہ پر اعتماد ہوں۔ یہ بات کیا صرف ان کی اکڑ یا انانیت ہے یا اس کا بھی کوئی پس منظر ہے۔ ذرا غور کیجیے‘ وہ کیوں پریشان ہوں۔ انہیں جن سے ڈر لگنا چاہیے‘ وہ دونوں نشانے پر ہیں۔ یہ اب سول حکومت کی جنگ نہیں رہی‘ ان قوتوں کی جنگ بھی ہے جو اس کا براہ راست نشانہ ہیں۔ اگر کوئی کچھ اور سوچ رہا ہے تو اسے عالمی‘ علاقائی اور ملکی حالات کا جائزہ لینا چاہیے۔ ہمارے وزیر اعظم نے آج کل نیلسن منڈیلا کے بعد چی گویرا کا نام سن لیا ہے۔ بار بار حوالے دیتے ہیں۔ چی گویرا لاطینی امریکہ کا وہ انقلابی اور جیالا تھا جو کم از کم چھ ملکوں میں انقلاب برپا کرتے کرتے مارا گیا۔اصل انقلابی ان کے بارے میں کہتے ہیں کہ چی گویرائی مہم جوئی کا مطلب ہے کہ انقلابی قوتوں کو وقت سے پہلے سامراج سے ٹکرا کر پاش پاش کر دیا جائے۔ شاید ابھی انقلابی قوتوں کو سنبھال سنبھال کر رکھنے کی ضرورت ہے۔ باہم جلد ٹکرانے لگے ہیں۔اگر اس کے سوا کوئی بات ذہن میں ہے تو معلوم ہونا چاہیے تاکہ ذہنوں کا خلفشار ختم ہو۔
حکومت کے اس پراعتماد انداز کا اگر یہ مطلب لیا جائے کہ وہ بالکل محفوظ ہیں تو یہ بہت بڑی غلطی ہو گی۔اصل میں یہی وہ بات ہے جس کا حکومت کو علم ہونا چاہیے کہ وہ اپنے پائوں پر نہیں کھڑی ہے۔یقینا اس کا انجام یہ نکل سکتا ہے کہ حکومت کمزور ہو جائے مگر ساتھ ہی ملک کا انجر پنجر بھی ڈھیلا ہو جائے۔
یہ وہ صورت حال ہے جس سے امریکی عوام بھی پریشان ہیں۔ دو جماعتی نظام کا پروان چڑھنا ایک بات ہے اور دو متحارب لشکروں میں بٹ جانا دوسری بات ہے۔ ہماری کوئی کل بھی سیدھی نہیں۔ چار چھ سال پہلے ہم اعتدال پسند اسلام کا ذکر کرتے تھے تو امریکہ ہی کے ایک دانشور نے کہا کہ ماڈریٹ اسلام کا مطلب یہ ہے کہ جو امریکہ کے زیادہ قریب ہو وہ زیادہ ماڈریٹ ہے‘ زیادہ اعتدال پسند ہے۔ اس وقت ہم نے جن سیاستدانوں کو اعتدال پسند کہنا شروع کیا ہے‘ اس سے مراد یہ لی جاتی ہے کہ وہ مقتدرہ یا اسٹیبلشمنٹ کے کتنے قریب ہیں۔ مثال کے طور پر خود شہباز شریف کی یہی گت بنی۔دوسری طرف ہم جنہیں شدت پسند یا ہاکس کہتے ہیں انہیں ایک طبقہ جمہوریت پسند کے معتدل نام سے برانڈڈ کر دیتا ہے۔ حکومت انہیں انقلابی قرار دیتی ہے۔ یہ بھی برا نام نہیں ہے۔
آنے والے دنوں میں یہ تفریق باقی نہیں رہ پائے گی۔ تاہم اس وقت ہم ایک عجیب مخمصے میں ہیں۔طے نہیں کر پا رہے کہ توازن کیسے قائم رکھیں۔ ایک طرف یہ بیانیہ ہے کہ ملک میں آج تک نظام حکومت ماورائے آئین چلتا رہا اور اس وقت یہ صورت حال عروج پر ہے دوسری طرف یہ سمجھ نہیں آتا کہ اس مقصد کو لئے جو راستہ اپنایا ہے اس کا انجام کیوں کر ہو گا۔ کیا ایسے میں ملک اور قوم کا نقصان تو نہیں ہو جائے گا۔ دوسری طرف یہ تجزیہ ہے کہ اگر یہ بیانیہ قائم نہ ہو پایا تو کیا ملک کا غیر جمہوری مستقبل مزید طویل ہوتا جائے گا ۔نتیجے کے طور پر یہ ملک کبھی کامیاب فلاحی ریاست نہیں بن پائے گا۔ اس مخمصے نے قوم کو توڑ کر رکھ دیا ہے۔ سلامتی کی کسی راہ کی تلاش ہی اس وقت ہمارا قومی مقصد ہے۔ خدا ہمیں اس میں کامیاب کرے اور فلاح کے راستے پر ڈالے۔


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *