گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کیوں اور کیسے؟

ایک بات طے ہو گئی کہ 2018میں نئے نظام کا جو تجربہ کیا گیا، وہ بری طرح ناکامی سے دوچار ہوگیا۔ ریاستی اداروں نے اپنی حدود سے آگے بڑھ کر اُس کے ساتھ تعاون کیا۔ میڈیا نے مثبت رپورٹنگ کی نئی تاریخ رقم کردی لیکن اُس کے باوجود یہ نظام چلنے کا نام نہیں لے رہا۔ اِن حالات میں ایک بار پھر تبدیلی کی صدائیں بلند ہونے لگی ہیں لیکن سنجیدہ حلقے تبدیلی سے زیادہ گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ پر زور دے رہے ہیں۔ وجہ صاف ظاہر ہے، اِس وقت جن مسائل کا سامنا ہے اُن میں بعض تو حکومت سے متعلق ہیں لیکن زیادہ تر کا تعلق ریاست سے ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ حکومت کو خطرات کم لیکن ریاست کو زیادہ درپیش ہیں اور اِس لئے ریاستی اداروں کے مابین گرینڈ ڈائیلاگ کی ضرورت زیادہ محسوس کی جارہی ہے۔ گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ اور ری کنسیلیشن کی ضرورت جس تناظر میں محسوس کی جار ہی، اُس کے چیدہ چیدہ نکات حسبِ ذیل ہیں:

:1حکومت متنازعہ ہے، سوائے پی ٹی آئی کے باقی ہر جماعت نے انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دیا تھا۔:2سینیٹ ہو یا قومی اسمبلی یا پھر صوبائی اسمبلیاں، ویسے تو اپوزیشن کے لوگ بھی اِس میں بیٹھے ہیں لیکن اُن کو کوئی جینوئن منتخب ادارہ سمجھتا ہے اور نہ اُن کے پاس کوئی اختیار ہے۔ :3ملک معاشی طور پر تباہی سے دوچار ہے، تاریخ میں پہلی مرتبہ جی ڈی پی گروتھ منفی کی طرف جارہی ہے۔ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو اقتصادی حوالوں سے پاکستان کے لئے سلامتی کا خطرہ بن سکتا ہے۔ :4فوج کے ادارے سے متعلق پہلی مرتبہ سوالات اُٹھ رہے ہیں۔ ماضی میں صرف بلوچستان، پختونخوا اور سندھ سے تنقید ہوتی تھی، آج پنجاب کا لیڈر نواز شریف سب سے سخت لہجہ استعمال کررہا ہے۔ :5ماضی میں حکومتیں اپوزیشن اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان پل کا کردار کرتی تھیں لیکن موجودہ حکومت کو اپنی بقا اِس میں نظر آتی ہے کہ وہ اپوزیشن کو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ لڑا دے۔ اپوزیشن پر جب غداری کے الزامات لگتے ہیں تو جواب میں اُن کی طرف سے بھی بعض اوقات ایسے بیانات آجاتے ہیں جو قومی مفاد کے لئے نقصان کا باعث بن جاتے ہیں۔ :6بلوچستان، قبائلی اضلاع اور گلگت بلتستان کی محرومیاں اپنی جگہ برقرار ہیں جبکہ مسنگ پرسنز کا معاملہ ریاست اور عوام کے مابین خلیج بڑھا رہا ہے۔ :7الیکشن سے پہلے اور الیکشن کے بعد عدلیہ پر جس طرح دبائو ڈالا گیا یا پھر ثاقب نثار اور ارشد ملک (اللہ اُن کی مغفرت کرے) جیسے ججز نے جو کردار ادا کیا، اس کی وجہ سے عدلیہ پر عوام کا اعتماد بہت مجروح ہو گیا ہے۔ اِس میں اب کوئی شک نہیں رہا کہ قومی احتساب بیورو، احتساب کا نہیں بلکہ سیاسی انتقام اور سیاسی بلیک میلنگ کا ادارہ ہے۔ خود چیئرمین نیب بھی بلیک میل ہورہے ہیں اور جب نیب سے متعلق اصل حقائق سامنے آئیں گے تو قیامت صغریٰ برپا ہوگی۔ :8مقبوضہ کشمیر کو مودی نے ہڑپ کر لیا لیکن سفارتی محاذ پر پاکستان کی تنہائی کا یہ عالم ہے کہ انڈیا کو کسی صورت فیصلہ واپس لینے پر مجبور نہیں کرپا رہا۔ دوسرا آپشن جنگ کا ہے لیکن ظاہر ہے اِس وقت پاکستان جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ یہ خطرہ موجود ہے کہ کشمیری پاکستان سے مایوس ہو جائیں جبکہ دوسری طرف ملک کے اندر سیاسی پولرائزیشن کی وجہ سے اپوزیشن، حکومت اور اُس کے سہولت کاروں پر کشمیر فروشی کا الزام لگ رہا ہے۔:9اقتصادی اور سفارتی میدانوں میں ماضی کے عرب دوست ہمارا بڑا سہارا ہوا کرتے تھے لیکن عمران خان کی ناتجربہ کاری کی وجہ سے وہ ہم سے دور ہو گئے ہیں۔ ہم ایران کے اعتماد کو بحال کر نہیں سکے تھے کہ سعودی عرب اور یو اے ای کا اعتماد کھو بیٹھے۔ یہ ایک نیا چیلنج ہے۔ :10مڈل ایسٹ یا مشرق وسطیٰ کی تبدیلیاں بھی ہمارے لئے نیا چیلنج بن گئی ہیں۔ سعودی عرب اور یو اے ای اب ایران سے زیادہ ترکی کو خطرہ سمجھنے لگے ہیں۔ اِسی تناظرمیں اسرائیل کو تسلیم کیا جارہا ہے بلکہ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ یو اے ای، اسرائیل اور انڈیا اسٹرٹیجک الائنس کرنے جارہے ہیں۔ اِسی طرح پاکستان پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لئے دبائو بڑھے گا۔ اِن ملکوں کے ساتھ تعلقات میں توازن پل صراط پر سفر ہے۔ اور اگر عمران خان کی حکومت پر چھوڑا جائے گا تو وہ روایتی افراط و تفریط سے کام لے کر معاملات کو مزید تباہ کردے گی۔

یہ وہ چیلنجز ہیں جن کا اِس وقت ملک کو سامنا ہے اور اگر اِن کے مقابلے کے لئے قوم کی اجتماعی ذہانت کو بروئے کار نہ لایا گیا تو اِس ملک کو خانہ جنگی سے صرف اللہ کا کرم ہی بچا سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اِس وقت ملک میں بدترین غربت اور بےروزگاری کے ساتھ ساتھ بدترین گھٹن بھی جنم لے چکی ہے جو کسی وقت بھی ایک لاوے کی شکل میں پھٹ سکتی ہے اور اِس تباہی کا راستہ روکنے کا اِس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ہنگامی بنیادوں پر گرینڈ قومی ڈائیلاگ کا آغاز کیا جائے جس میں تمام اسٹیک ہولڈرز شریک ہوں۔ سوال یہ ہے کہ اس ڈائیلاگ کا اہتمام کون کرے؟ کیا حکومت کرے؟ نہیں، حکومت نہیں کر سکتی کیونکہ یہ تاریخ کی متنازعہ ترین حکومت ہے۔ تو پھر کیا فوج کرے لیکن فوج کے لئے بھی مناسب نہیں ہوگا کیونکہ وہ نہ صرف ایک ادارہ ہے بلکہ اہم فریق بھی سمجھا جاتا ہے۔ تو پھر کیا عدلیہ کرے؟ میرے نزدیک عدلیہ بھی چونکہ ریاستی ادارہ ہے اور ڈائیلاگ میں فریق بھی، اس لئے شاید عدلیہ کے لئے بھی مناسب نہیں۔

میرے نزدیک مناسب ترین فورم سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن ہو سکتا ہے یا پھر ایک کونسل آف ایلڈرز (Elders) تشکیل دی جانی چاہئے جس میں جنرل وحید کاکڑ جیسے ریٹائرڈ فوجی، ایل ایف او کے تحت حلف نہ اٹھانے والے ججز، اچھے کردار کے حامل چند بزرگ سیاستدان اور اعلیٰ پائے کے پروفیسر وغیرہ شامل ہوں۔ سوال یہ ہے کہ ڈائیلاگ میں کون شریک ہوں؟ ظاہر ہے اِس ڈائیلاگ میں حکومت، اپوزیشن، فوج اور عدلیہ کو شریک ہونا چاہئے ۔ یہ ڈائیلاگ آئین کے بنیادی ڈھانچے کے دائرے کے اندر ہونا چاہئے ۔ اس کے چار اہداف ہونے چاہئیں:

:1وجودہ سیاسی بحران کا فوری حل ، انتخابی اصلاحات اور نئے انتخابات کے لئے وقت کا تعین۔ :2ہر ادارے کے کردار کو آئین میں متعین کردہ کردار تک محدود کرنے کے رولزم آف گیم بنانا۔ :3احتساب کا ایسا نظام تشکیل دینا جو سب کا بلاامتیاز محاسبہ کرے۔:4ٹروتھ اینڈ ری کنسیلیشن کمیشن کا قیام، اِس کے طریق کار اور مینڈیٹ کا تعین۔

ظاہر ہے یہ تجویز حتمی ہے، نہ اس کا اہتمام کرنے والا فورم اور نہ اس کا مینڈیٹ۔ یہ مجھ جیسے سیاست کے ایک ادنیٰ طالب علم کی خام سی رائے ہے۔ ان میں ہر حوالے سے کمی بیشی ہوسکتی ہے لیکن اب وقت آگیا ہے کہ اس ریاست کو خانہ جنگی سے بچانے کے لئے اس ڈائیلاگ کا اہتمام ہو۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

پاکستانی اداکارہ زرنش خان کوصحت سےمتعلق مسئلے کےسامنا ہے۔ان کی اچانک معمولی سرجری ہوئی ہے جس کے بعد انہوں نے مداحوں سے دعائےصحت کی اپیل کی ہے۔

وزیراعظم اس موقع پر ترقیاتی منصوبوں کے لیے 17ارب روپے کی گرانٹ کا اعلان کریں گے

فواد چودھری کا کہنا تھا کہ اگر اختلافی مسئلے سے بات شروع کریں گے تو بات کیسے ہوگی؟ مسائل کے حل کے لیے حکومت اور اپوزیشن کو ایک ایک قدم پیچھے ہٹنا ہوگا۔

شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ استعفے تمام اسمبلیوں سے دیے جائیں گے۔ تین چار ہفتے کا پراسس ہے جس میں جلسے، احتجاج اور شٹرڈاؤن شامل ہے

اجلاس میں یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ استعفے چاروں صوبائی اسمبلیوں اور قومی اسمبلی سے دیے جائیں گے

ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال تارڑ کی عدالت نے 14 دسمبر تک عبوری ضمانت منظور کی

وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت ہونے والی وفاقی کابینہ اجلاس کی اندرونی کہانی سامنےآگئی ہے ۔

کے آر ایل نے پوپو فٹبال کلب کو 0-9 سے آؤٹ کلاس کیا، عمیر علی اور افتخار علی نے ہیٹ ٹرک بنائی، مدثر اور جنید نے ایک ایک گول کیا

شبلی فراز نےدعویٰ کیا ہےکہ غیر منتخب مولانا فضل الرحمٰن اور مریم نواز کے کہنے پر کوئی بھی استعفیٰ نہیں دے گا۔

اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کا لاہور جلسے کے بعد کا لائحہ عمل سامنے آگیا ہے۔

اس پیکیج کی مدد سے شہر میں کلین گرین پاکستان منصوبے کے تحت 5 نئے پارکس قائم کیے جائیں گے، عثمان ڈار

ترجمان ایف بی آر نے کہا ہے کہ انکم ٹیکس گوشوارے جمع کرانے کی تاریخ میں مزید کوئی توسیع نہیں کی جائے گی۔ تمام کمرشل بینک ٹیکس گزاروں کی سہولت کے لئے آج رات 9 بجے تک کھلے رہے گے۔

اپوزیشن کے مفادات اور پاکستان کے مفادات الگ الگ ہیں، فتح پاکستان کی، اس کے عوام کی اور وزیراعظم عمران خان کی ہے، رہنما پی ٹی آئی

پولیس کے محکمہ انسداد دہشت گردی نے کراچی میں کارروائی کرتے ہوئے کالعدم تنظیم کے دو دہشت گردوں کو گرفتار کرلیا۔ ملزمان نے مفتی نظام الدین شامزئی، مفتی یوسف لدھیانوی سمیت کئی افراد کی ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ہونے کا اعتراف کیا ہے۔

اپوزیشن اتحاد( پی ڈی ایم) کا استعفوں سے متعلق ڈیڈلائن سامنے آنے کے بعد اپوزیشن کی دوسری بڑی جماعت پیپلز پارٹی کی طرف سے پہلا استعفیٰ سامنے آگیا ہے۔

مسلم لیگ ن کی رہنما مریم اونگزیب نے کہا ہے کہ عمران خان کون سے این آر او ؟کس کو این آر او دینے کی بات کر رہے ہیں۔ آپ ایک نہیں سو نیب بنائیں۔ گھر تو جانا ہو گا۔ عمران خان صاحب آپ چھُپ چھُپ کے اپوزیشن سے این آر او مانگ رہے ہیں۔ پی ڈی ایم ملک میں انتشار پھیلا نہیں ختم کر رہی ہے۔


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *