میں نے اس سے پوچھا ’’آپ کو آخر ہم سے پرابلم کیا ہے؟‘‘ وہ ہنس کر بولا ’’ہم بھی آپ سے یہی پوچھ رہے ہیں‘ آپ کو آخر ہم سے پرابلم کیا ہے‘ آپ نہ عربی ہیں‘ نہ آپ کی ہم سے کوئی جنگ ہوئی‘ نہ ہم نے ایک دوسرے کی زمین پر قبضہ کیا اور نہ ہی ہمارا اور آپ کا کوئی تنازع چل رہا ہے پھر آپ ہم سے ناراض کیوں ہیں‘‘۔

میں نے جواب دیا ’’ہمارا مسئلہ فلسطین ہے‘ آپ لوگوں نے 70 برسوں میں فلسطینیوں کی چار نسلیں دربدر کر دیں‘ ارض مقدس میں کوئی ایک ایسا مسلمان خاندان نہیں جس کے کندھے پر شہداء کا بوجھ نہ ہو‘ مسلمان ایک جسم کی طرح ہوتے ہیں‘ ایک عضو کا دکھ دوسرے عضو کو محسوس ہوتا ہے‘ ہم پاکستانی اپنے فلسطینی بھائیوں کا درد محسوس کرتے ہیں چناں چہ ہم آپ کو نہیں مانتے‘ ہم آپ کو مانیں گے بھی نہیں‘‘میں جذباتی ہو گیا‘ وہ نرم آواز میں بولا ’’یہ آپ کا حق ہے۔

آپ جسے چاہیں مانیں اور جسے چاہیں نہ مانیں لیکن میں اگر آپ سے یہ کہوں فلسطینیوں اور اسرائیل کا ایشو آج سے پچاس سال پہلے سیٹل ہو جانا تھا اگر آپ لوگ درمیان میں نہ آتے توآپ کو کیسا محسوس ہو گا؟‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا ’’کیا مطلب؟‘‘ وہ بولا ’’اسرائیل کا ایشو مذہبی نہیں سیاسی ہے‘ ہماری جنگ مسلمانوں سے نہیں عرب ڈکٹیٹروں سے ہے‘ ہمیں عرب ڈکٹیٹر فلسطینیوں کے ساتھ نہیں بیٹھنے دیتے‘ ہم پر جتنے حملے ہوئے یا ہماری جتنی جنگیں ہوئیں ان کے محرک عرب حکمران تھے‘یہ جمال عبدالناصر یا انور السادات تھا۔

یہ کرنل قذافی اور صدام حسین تھا یا پھر یہ شاہ حسین‘ حافظ الاسد اور حسنی مبارک تھا اور یہ کون تھے؟ یہ آمر تھے اور یہ سب اپنے اقتدار کے دوام اور اپنی عوام کو مطمئن کرنے کے لیے ہمارے خلاف محاذ کھول لیتے تھے‘ فلسطین حاصل کرنا یا اسرائیل کو ختم کرنا ان کا مقصد نہیں تھا‘ یہ صرف اپنی عوام کو باندھ کر رکھنے کے لیے اسرائیل دشمنی کا نعرہ لگاتے تھے اور ان لوگوں کی وجہ سے لاکھوں یہودی اور فلسطینی مسلمان مارے گئے‘ ہم شروع دن سے یہ تنازع حل کرنا چاہتے تھے‘ ہمارے سب سے بڑے دشمن عیسائی تھے‘ ہمارے درمیان دو ہزار سال سے جنگ چل رہی ہے۔

ہمیں ان دو ہزار برسوں میں صرف اور صرف عیسائیوں نے نقصان پہنچایا لیکن ہم نے پھر ان کے ساتھ اپنے سارے تنازعے نبٹالیے‘ ہم آج ایک دوسرے کے دوست بھی ہیں اور اتحادی بھی جب کہ مسلمانوں کے ساتھ ہماری کبھی جنگ تھی اور نہ ہو گی‘ ہم ایک دوسرے کا ذبیحہ تک کھا لیتے ہیں اور آپ آل ابراہیم پر درود بھیجتے ہیں‘ قبلہ اول بھی آپ کا اور ہمارا ہے جب کہ عیسائیوں کے ساتھ ہمارا کوئی ایسا تعلق نہیں تھا چناں چہ ہم عالم اسلام کے ساتھ زیادہ آسانی سے اپنے تنازعے حل کر سکتے ہیں مگر ہم جب بھی قریب پہنچتے ہیں تو عرب ملکوں کے آمر ہمارے راستے کی رکاوٹ بن جاتے ہیں۔

آج بھی ایران کے شدت پسند اور ترکی کا مستقبل کا سلطان طیب اردگان مسلمانوں اور ہمارے درمیان رکاوٹ ہے‘ یہ دونوں جس دن ہٹ جائیں گے مسلمانوں کے ساتھ ہمارے سارے مسئلے نبٹ جائیں گے‘‘ میں نے ایک لمبی سانس لی اور کہا ’’یہ باتیں سننے میں بہت اچھی لگتی ہیں مگر حقائق اس سے بالکل مختلف ہیں‘‘ وہ ہنس کر بولا ’’مثلاً‘‘۔

میں بات آگے بڑھانے سے پہلے آپ کو اس ’’وہ‘‘ کے بارے میں بتاتا چلوں‘ یہ جرمن صحافی ہے‘ یہودی ہے‘ مڈل ایسٹ پر کام کرتا ہے اور میرا اس سے فیس بک کے ذریعے رابطہ ہوا تھا‘ یو اے ای نے نومبر 2020 میںاچانک پاکستان کے ویزے بند کر دیے تھے‘ میں نے اس سے رابطہ کیا اور صورت حال کو سمجھنے کی کوشش کی‘ اس نے تسلیم کیا یہ اسرائیل کی طرف سے پاکستان کو پہلا جھٹکا ہے‘ دوسرا جھٹکا اب دوسرے اسلامی ملک کی طرف سے آئے گا اور پھر اس کے بعد یوں پاکستان اکیلا رہ جائے گا۔

ایران اور شاید ترکی حمایت کریں لیکن یہ حمایت بھی بس زبانی کلامی ہو گی‘ یہ میرے لیے ایٹمی خبر تھی چناں چہ میں نے اس سے پوچھ لیا ’’آپ کو آخر ہم سے پرابلم کیا ہے‘‘ اور اس کے بعد ہمارا مکالمہ شروع ہو گیا‘ اس کا خیال تھا ’’آپ لوگ خیالوں میں زندہ ہیں‘ آپ بدلتے ہوئے حقائق کو سمجھنے کی کوشش نہیں کر رہے‘ ہم تنازعے ختم کرنا چاہتے ہیں‘ ہم نے عرب حکمرانوں کے ساتھ ’’گیواینڈ ٹیک‘‘ کر لیا ہے‘ آپ بھی اگر اب ہمارے ساتھ میز پر بیٹھ جائیں تو ٹھیک ورنہ ہم اپنے آپ کو بچانے کے لیے کسی بھی اسٹیج تک چلے جائیں گے‘ ‘ میں نے وجہ پوچھی۔

اس کا کہنا تھا ’’ہم یہودیوں نے پانچ ہزار سال مار کھائی‘ ہم حضرت یعقوب ؑ کے دور میں فلسطین سے مصر پہنچے تھے اور پھر ہمیں کسی نے سیدھا کھڑا نہیں ہونے دیا‘ احرام مصر کی تعمیر سے لے کر ہٹلر کے کیمپوں تک ہماری تاریخ میں خون اور آنسوئوں کے سوا کچھ نہیں‘ ہم مسلسل پانچ ہزار سال مار کھانے کے بعد اسرائیل پہنچے لہٰذا ہم نے جس دن اپنا پرچم لہرایا تھا ہم نے اس دن ’’نیور اگین‘‘ کا فیصلہ کر لیا تھا یعنی ہم اب دنیا کے کسی ملک کو اپنے اوپر ظلم کا موقع نہیں دیں گے‘یہ نیور اگین ’’دوبارہ نہیں‘‘ اسرائیل کا ماٹو ہے۔

ہم نے فیصلہ کیا ہوا ہے ہم اب تاریخ کو اپنے آپ کو دہرانے نہیں دیں گے اور ہم دہرانے نہیں دے رہے‘ آپ کو اگر یقین نہ آئے تو آپ 1948 سے آج تک ہماری تاریخ کھول کر دیکھ لیں‘ ہم نے اپنے راستے کا ہر کانٹا نکال کر پھینک دیا‘ وہ خواہ جمال عبدالناصر ہو‘انور السادات ہو‘ شاہ حسین ہو‘ حافظ الاسد ہو‘ شاہ فیصل ہو‘ ذوالفقار علی بھٹو ہو‘ جنرل ضیاء الحق ہو یا پھر صدام حسین اور کرنل قذافی ہو۔

آپ آج کے عراق‘ لیبیا اور شام کو بھی دیکھ لیں اور آپ کل کے ایران اور پاکستان کو بھی دیکھ لینا‘ ہم کسی کو دوبارہ یہ موقع نہیں دیں گے یہ اٹھے اور ہمیں تباہ کر دے‘ آپ کیا سمجھتے ہیں عراق پر صدر بش نے حملہ کیا تھا؟ جی نہیں‘ کیمیائی ہتھیاروں کا ایشو بھی ہم نے اٹھایا تھا‘ عرب اسپرنگ کے پیچھے بھی ہم تھے ‘ کرنل قذافی کے مخالفوں کو بھی رقم اور ہتھیار ہم نے دیے تھے اور بھارتی پائلٹوں کو بھی اب ہم ٹریننگ دے رہے ہیں‘ ہم ہی انڈیا کو فرانس سے رافیل طیارے لے کر دے رہے ہیں اور ہم ہی اسے سیٹلائٹ ٹیکنالوجی دیںگے ‘‘۔

میں نے ہنس کر کہا ’’تم مجھے ڈرانے کی کوشش کر رہے ہو لیکن تم یہ نہیں جانتے ہم ڈرنے والی مٹی سے نہیں بنے‘‘ وہ ہنس پڑا اور بولا ’’میں ڈرا نہیں رہا‘ میں بتا رہا ہوں‘ ہم نے عربوں کو عرب اسپرنگ دکھانے کے بعد سمجھایا‘ آپ ہمیں نہ چھیڑیں ہم آپ کو نہیں چھیڑتے‘ آپ اپنا ملک ہمارے لیے کھول دیں ہم اپنی سرحدیں آپ کے لیے کھول دیتے ہیں تاکہ آپ بھی زندہ رہیں اور ہم بھی زندہ رہ سکیں‘ یہ مان گئے چناں چہ آج عرب ہمارے لیے کھل رہا ہے‘ آپ بہت جلد یو اے ای کے حکمرانوں کو مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھتے دیکھیں گے۔

آپ ہمیں بھی تبوک‘ خیبر‘ مدائن صالح اور بغداد‘ موصل اور طرابلس میں پھرتے دوڑتے دیکھیں گے‘ ہم مکہ اور مدینہ نہیں جائیں گے اور آپ دیوار گریہ کی حدود میں پائوں نہیں رکھیں گے‘ ہم عربوں کے کسی تنازع میں ٹانگ نہیں اڑائیں گے اور عرب فلسطینی مجاہدوں کو سپورٹ نہیں کریں گے‘ یہ فلسطینی لیڈروں کو اپنی نگرانی میں ہمارے ساتھ میز پر بھی بٹھا دیں گے اور ہمارے باہمی سمجھوتوں کی ضمانت بھی دیں گے اور بس مسئلہ ختم۔ پیچھے صرف ایران اور پاکستان بچ جائے گا‘ ہم نے ان کا بندوبست بھی کر لیا ہے‘ ایران کے اندر لاوا پک رہا ہے‘ یہ لاوا کسی بھی وقت پھٹ جائے گا‘ یہ ایک دو سال کی کہانی رہ گیا ہے‘ اس کے بعدآپ رہ جائیں گے‘‘۔

میں نے ہنس کر کہا ’’ آپ لوگ پاکستان کے بارے میں شدید غلط فہمی کا شکار ہیں‘ ہم نیو کلیئر پاور ہیں‘ ہم آپ کے لیے لوہے کے چنے ثابت ہوںگے‘‘ وہ ہنس کر بولا ’’میں آپ کو بتا چکا ہوں ٹیکنالوجی ہماری ہو گی اور اس ٹیکنالوجی کے ہوتے ہوئے ایٹم بم چلانا آسان نہیں ہو گا‘‘ میں نے ہنس کر کہا ’’اور آپ لوگ یہ چاہتے ہیں ہم آپ کے دبائو میں اسرائیل کو تسلیم کر لیں‘ ہم فلسطینیوں کو بھول جائیں‘‘۔

اس نے قہقہہ لگایا اور بولا ’’تسلیم کر لیں کیا مطلب؟ آپ لوگ تسلیم کر چکے ہیں بس آپ میں اعتراف کی ہمت نہیں ‘ آپ چاہتے ہیں یہ اعلان آپ نہ کریں اسرائیل کر دے‘ اسرائیل اپنے بارڈر پاکستانیوں کے لیے کھول دے‘ یہ اعلان کر دے پاکستان ہمیں مانے یا نہ مانے لیکن ہم پاکستان کو تسلیم کرتے ہیں‘ اسرائیل اس کے لیے تیار ہے مگر اسے ایک گارنٹی چاہیے ‘آپ لوگ ہمارے اعلان کے بعد انکار نہیں کریں گے۔

ہمیں خطرہ ہے ہم آپ کوتسلیم کرلیں گے لیکن آپ اس کے بعد ہمارا دوستی کا ہاتھ جھٹک دیں گے اور ہم یہ بے عزتی برداشت نہیں کرسکیں گے‘ہمیں اس کے بعد آپ سے لڑنا پڑے گا‘ دنیا میں صرف دو ملک ہمیں گارنٹی دے سکتے ہیں مگر یہ دونوں اس وقت آپ کے قائدین پر اعتبار نہیں کر رہے‘ یہ دونوں جس دن حامی بھر لیں گے اس دن اسرائیل اپنا ہاتھ آگے بڑھادے گا اور پاکستان اسے تھام لے گا‘‘ وہ خاموش ہو گیا‘ میں نے پوچھا ’’اور اگر یہ نہیں ہوتا تو؟‘‘ وہ ہنس کر بولا‘ ’’بس پھر آپ یہ یاد رکھیں ہمارا ایک ہی مقصد ہے نیور اگین ‘‘ میں نے سنا‘ سر ہلایا اور کہا ’’پھر آپ ہمیں جانتے ہی نہیں ہیں‘ ہم اگین‘ اگین اینڈ اگین کے قائل ہیں‘‘۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *