وہ راستے بدل دیتا ہے

صغوط کے قریب پہنچ کر ایک عجیب واقعہ پیش آیا‘ ارطغرل غازی کے مزار کی طرف جانے والی سڑک زیر تعمیر تھی، ’’ڈائیورشن‘‘ کا نوٹس لگا تھا‘ ساتھ ہی چھوٹا سا بورڈ تھا‘ بورڈ پر تیر کا نشان تھا اور نشان کے نیچے صغوط دو کلو میٹر لکھا تھا‘ ہم بس میں چالیس لوگ تھے۔

میرا خیال تھا ڈرائیور نے بورڈ دیکھ لیا ہے اور یہ دائیں مڑ جائے گا لیکن ڈرائیور دائیں کے بجائے بائیں مڑ گیا‘ میں نے گائیڈ کو متوجہ کیا لیکن گائیڈ ظفر نے ڈرائیور کوروکنے کے بجائے فون پر کسی دوست سے ڈائریکشن پوچھنا شروع کر دی‘ ڈرائیور اس دوران بہت آگے آ گیا‘ وہ پہاڑی علاقہ تھا‘ سڑک سنگل تھی اور ڈھلوان بھی تھی‘ راستے میں کوئی بندہ بشر نہیں تھا‘ ڈرائیور نے رک کر ایک گاڑی والے سے راستہ پوچھا‘ اس نے بھی کندھے اچکا کر معذرت کر لی۔

ہم راستہ تلاش کرتے کرتے بیس پچیس کلو میٹر آگے نکل گئے‘ دائیں بائیں آڑو کے باغ تھے‘ آپ نے اگر آڑو کا درخت دیکھا ہو تو آپ اچھی طرح جانتے ہوں گے آڑو کے پتے سردیوں میں سرخ ہو جاتے ہیں اور آپ اگر انھیں دور سے دیکھیں تو آپ کو محسوس ہوتا ہے جیسے درختوں کی چوٹی پر آگ لگی ہو اور اس دوران پہاڑوں پر دور دور تک آگ لگی تھی‘ آڑو کے سبز درخت تھے اور ان کی چوٹیوں پر آگ تھی‘ ہمارے گروپ کے لوگ کھڑکیوں سے چپک کر تصویریں بنا رہے تھے جب کہ میں ٹینشن میں تھا‘ ہم مزار کے قریب جانے کے بجائے دور ہوتے جا رہے تھے۔

ہماری بس راستہ تلاش کرتی کرتی ایک چھوٹے سے گائوں میں پہنچ گئی‘ یہ مین ہائی وے سے دور چھوٹا سا ترکش گائوں تھا‘ گھر سادے اور گلیاں تنگ تھیں‘ سڑک کے درمیان چند دکانیں تھیں اور ان کے سامنے چند بوڑھے بیٹھ کر وقت برباد کر رہے تھے‘ ڈرائیور ان کے قریب رکا اور صغوط کا راستہ پوچھا‘ بوڑھوں نے ترکی زبان میں طویل گفتگو فرما دی‘ اس دوران دکان کے اندر سے درمیانی عمر کا ایک شخص باہر آیا‘ اس نے صغوط کا نام سنا‘ آگے بڑھا اور اس نے اپنی خدمات پیش کر دیں‘ وہ ہمارے ساتھ بیٹھ کر ہمیں صغوط پہنچانا چاہتا تھا۔

اس کا کہنا تھا اس کی گاڑی خراب ہو گئی تھی‘ وہ صغوط میں مکینک کے پاس کھڑی ہے اور وہ صبح سے یہاں بیٹھ کر سواری کا انتظار کر رہا ہے اور ہم لوگ اللہ کی طرف سے اس کی مدد کے لیے آئے ہیں‘ وہ منمنایا’’ آپ مجھے ساتھ لے جائیں‘ آپ بھی پہنچ جائیں گے اور میں بھی‘‘ گائیڈ نے اسے اشارہ کیا‘ وہ بس میں سوار ہوا اور بس نے ہمیں کچے راستے پر ڈال دیا۔

ہم 40 منٹ کچی سڑک پر سفر کرتے ہوئے بڑی سڑک پر پہنچے اور مزید پندرہ منٹ سفر کے بعد دوبارہ اس چوک میں پہنچ گئے جہاں ڈائیورشن کا نوٹس لگا تھا اور نوٹس کے ساتھ تیر کا نشان تھا اور نشان پر صغوط دو کلو میٹر لکھا تھا‘ اللہ تعالیٰ نے ہمیں صرف اس شخص کی مدد کے لیے اتنی دور اس نامعلوم گائوں میں بھیجا تھا‘ وہ صبح سے لفٹ کے انتظار میں بیٹھا تھا‘ وہ یقینا اللہ تعالیٰ سے دعا بھی کرتا رہا ہو گا اور اللہ تعالیٰ نے اس کی دعا سن کر ہماری بس کو اس گائوں کی طرف موڑ دیا اور ہم اسے کچے راستوں سے لے کر صغوط پہنچ گئے۔

یہ بظاہر عام سا اتفاق ہے لیکن آپ اگر غور کریں تو آپ کو اپنی زندگی ایسے سیکڑوں اتفاقات سے لبریز ملے گی‘ ہمارے گرد اللہ تعالیٰ کی ایک غیرمرئی دنیا آباد ہے اور یہ دنیا ایسے اتفاقات سے بھری پڑی ہے ‘اللہ تعالیٰ کچھ لوگوں کی زندگی بدلنے کے لیے کچھ لوگوں کے راستے بدلتا ہے اور پھر نسلیں تبدیل ہو جاتی ہیں‘ مجھے ایک بار جہاز میں ایک صاحب ملے‘ یہ کسی بینک کی اعلیٰ پوزیشن پر فائز تھے‘ وہ پنجاب کے کسی دور افتادہ گائوں سے تعلق رکھتے تھے‘ والد کا انتقال ہو گیا اور وہ بچپن میں محنت مزدوری پر مجبور ہو گئے‘ وہ گائوں کی سڑک پر چائے خانے میں چھوٹے کا کام کرتے تھے‘ برتن دھوتے تھے۔

گاہکوں کے سامنے چائے رکھتے تھے اور مالک کی جھڑکیاں کھاتے تھے‘ گائوں کی سڑک سے دو کلومیٹر کے فاصلے سے بڑی سڑک گزرتی تھی‘ ایک دن غلطی سے بڑی سڑک سے کوئی کوسٹر چھوٹی سڑک پر اتری اور یہ عین چائے خانے کے سامنے بند ہو گئی‘ ڈرائیور نے بہت کوشش کی لیکن کوسٹر اسٹارٹ نہ ہوئی‘ گرمیوں کے دن تھے‘ کوسٹر میں گرمی ہو گئی‘ سواریاں اتریں اور چائے خانے میں بیٹھ گئیں‘ ان میں ایک ہیڈ ماسٹر بھی تھے‘ وہ آئے اور کرسی پر بیٹھ گئے‘ لڑکے نے ان سے چائے کا پوچھا‘ ہیڈ ماسٹر نے ایک کپ چائے کا آرڈر دے دیا‘ لڑکا گیا اور بھاگ کر چائے لے آیا۔

یہ اس کے بعد ٹاکی سے میز بھی صاف کرتا رہااور برتن بھی دھوتا رہا‘ ہیڈ ماسٹر اسے غور سے دیکھتے رہے‘ چائے کے بعد ہیڈماسٹر نے لڑکے کو بلایا اور پوچھا ’’بیٹا آپ اسکول کیوں نہیں جاتے‘‘ لڑکے نے بتایا ’’میں اسکول کیسے جا سکتا ہوں‘ میرے والد نہیں ہیں‘‘ ہیڈ ماسٹر نے پوچھا ’’تمہیں کتنی تنخواہ ملتی ہے‘‘ لڑکے نے جواب دیا ’’تیس روپے‘‘ ہیڈ ماسٹر نے چائے خانے کے مالک کو بلایا اور اس سے کہا ’’میں تمہیں ہر مہینے 35 روپے بھجوایا کروں گا‘ پانچ روپے تم رکھ لیا کرنا اور تیس روپے اس کی ماں کو دے دینا لیکن یہ بچہ پڑھے گا‘ اس کی فیس اور کتابوں کا خرچ میں دوں گا‘ چائے خانے کا مالک مان گیا۔

ہیڈ ماسٹر نے بچے اور اس کی ماں کا ایڈریس لکھ لیا اور انھوں نے جوں ہی ایڈریس کی چٹ جیب میںر کھی ان کی کوسٹر ٹھیک ہو گئی‘ وہ اٹھے‘ بچے کے سر پر ہاتھ پھیرا اور روانہ ہو گئے‘ شہر میں پہنچ کر انھوں نے بچے کے داخلے کا بندوبست بھی کر دیا اور اسے کتابیں اور یونیفارم بھی لے دیا‘ یہ ستر کی دہائی تھی‘ تعلیم مفت ہوتی تھی چناں چہ بچہ پڑھنے لگا‘ ہیڈ ماسٹر باقاعدگی سے 35 روپے بھجواتے رہے‘ بچے نے بی اے کیا‘ ہیڈ ماسٹر کی کوشش سے اسے بینک میں ملازمت ملی اور یہ ترقی کرتا کرتا اعلیٰ عہدے تک پہنچ گیا‘ وہ صاحب آخر میں ٹشو پیپر سے آنکھیں صاف کرنے لگے اور پھر بولے ’’جاوید صاحب آپ حیران ہوں گے جس دن وہ کوسٹر ہمارے چائے خانے کے سامنے خراب ہوئی تھی اسی دن میری ماں نے اللہ سے جھولی پھیلا کر دعا کی تھی یا باری تعالیٰ میرے بیٹے کو بھی صاحب بنا دے اور پھر اللہ نے اس کوسٹر میں ہیڈ ماسٹر کو بٹھا کر اسے ہماری سڑک پر بھجوا دیا اور یوں میری نسلوں کی زندگی بدل گئی‘‘۔

مجھے ایک بار ایک ڈینٹل سرجن نے بھی اس سے ملتا جلتا واقعہ سنایا تھا‘ یہ جی ٹی روڈ پر سفر کر رہے تھے اور اچانک ان کی گاڑی کا ٹائر پھٹ گیا‘ قریب ہی ایک ٹائر شاپ تھی‘ یہ شاپ میں چلے گئے‘ لڑکوں نے ٹائر کھولا اور ری پیئرنگ شروع کر دی‘ڈاکٹر صاحب کو ذرا سے فاصلے پر ’’صادق دندان ساز‘‘ کا بورڈ نظر آیا‘ یہ بے اختیار اس طرف چل پڑے‘ یہ چھوٹی سی دکان تھی‘ شیلف پر چند شیشیاں اور دانت نکالنے کے گندے سے آلات رکھے تھے‘ دندان ساز بوڑھا اور شکل سے بیمار دکھائی دیتا تھا‘ ڈاکٹر صاحب اس کے پاس بیٹھ گئے اور شغلاً اس کا انٹرویو شروع کر دیا‘ پتا چلا دندان ساز نے کسی ادارے سے تعلیم حاصل نہیں کی‘ یہ بیس پچیس سال سے لوگوں کے دانت نکال رہا ہے اور بڑی حد تک یہ کام سیکھ گیا ہے۔

ڈاکٹر صاحب نے اسے اپنا تعارف کرا دیا‘ دندان ساز کے چہرے پر روشنی آ گئی‘ وہ اٹھا اور ایک ڈبہ اٹھا کر ان کے پاس لے آیا‘ ڈبے میں سرنج اور جبڑے سن کرنے کی دوا تھی‘ دندان ساز نے بڑی لجاجت سے عرض کیا ’’جناب کیا آپ مجھے دانت سن کرنے کا ٹیکا لگانا سکھا سکتے ہیں‘‘ ڈاکٹر صاحب کے بقول میرے دل میں آیا میں صاف انکار کر دوں‘ اس کی فرمائش میڈیکل کے اصولوں کے خلاف تھی‘ وہ جعلی ڈاکٹر تھا اور جعلی ڈاکٹروں کو ٹیکا سکھانا مریضوں کے ساتھ ظلم ہوتا ہے لیکن پھر نہ جانے کیوں میرے اندر سے آواز آئی’’ سکھا دو بھائی‘ کیا جاتا ہے‘‘ میں نے بے اختیار سرنج لی۔

اس میں دوا بھری‘ دندان ساز کا منہ کھلوایا اور اس میں ٹیکا لگا دیا‘ میں نے اس کے بعد اپنا منہ کھولا اور خالی سرنج اس کے اندر رکھ کر اسے ٹیکا لگانے کی جگہ سمجھا دی‘ اس دوران ایک مریض بھی آ گیا‘ میں نے اسے پریکٹس بھی کروا دی‘ دندان ساز نے میرے سامنے اس کا دانت نکال دیا‘ میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا دندان ساز نے جوں ہی مریض کا دانت نکالا‘ ٹائر شاپ کے چھوٹے نے نعرہ لگا دیا‘ آپ کی گاڑی تیار ہے جناب‘ میں رخصت ہونے لگا تو وہ دندان ساز اٹھا‘ میرا ہاتھ تھاما اور چوم کر بولا‘ ڈاکٹر صاحب کیا آپ جانتے ہیں آپ اللہ کے دوست ہیں‘ میں حیرت سے اس کی طرف دیکھنے لگا۔

وہ بولا‘ میرے پاس انتہائی غریب لوگ آتے ہیں‘ میں ان کے دانت ڈائریکٹ کھینچ کر نکال دیتا تھا‘ ان بے چاروں کو بہت درد ہوتا تھا‘ میں نے کل رات اللہ سے دعا کی تھی یا پروردگار تم اپنے کسی دوست کو میرے پاس بھجوا دو‘ میں اس سے ٹیکا لگانا سیکھ جائوں تاکہ تیرے دکھی مریضوں کو تکلیف نہ ہو اور اللہ نے آج آپ کو میرے پاس بھجوا دیا‘ آپ اللہ کے دوست ہیں‘ میری درخواست ہے آپ کبھی اللہ کا مان نہ توڑیے گا‘ ڈاکٹر صاحب کے بقول میں نے اس کا ہاتھ پکڑا اور میں اسے اپنے ہونٹوں کے ساتھ لگا کر دھاڑیں مار مار کر رونے لگا۔

ہم بھی اس دن صغوط کے راستے میں چند لمحوں کے لیے اللہ کے دوست بن گئے تھے‘ اللہ نے اس اجنبی شخص کو لفٹ دلانے کے لیے ہمارا راستہ بدل دیا تھا‘ یہ بے شک نسلوں کے مقدر بدلنے کے لیے کچھ لوگوں کے راستے بدل دیتا ہے‘ ہمارا رب بھی کیا ہستی ہے!

ہمارا ترکی کا اگلا ٹور 16 دسمبر کو جائے گا‘ آپ ٹور میں شامل ہونے کے لیے ان نمبرز 0331-3334562, 0331-5637981 پر رابطہ کر سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *