امریکی صدارتی انتخاب کے بعد جنم لینے والی بحث آج بھی جاری ہے۔ جس ’’جمہوریت‘‘ میں مدتوں سے یہ روایت چلی آرہی تھی کہ ہارنے والا امیدواراپنی شکست کے ابتدائی آثار دیکھتے ہی ہار تسلیم کر لیتا تھا اور جیتنے والے امیدوار کو مبارکباد اور نیک خواہشات کے پیغامات دیتا تھا، وہاںایک ’’روایت شکن‘‘ ڈونلڈ ٹرمپ تقریباً بیس دن گذرنے کے بعد بھی، ابھی تک ان انتخابات کے نتائج تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے، بلکہ وہ مسلسل امریکی اسٹبلشمنٹ پر بدترین دھاندلی کے الزامات لگائے جا رہا ہے۔ اس کے یہ الزامات صرف بیانات کی حد تک محدود نہیں ہیں بلکہ وہ ہر قانونی اور پارلیمانی فورم پرایک مسلسل جنگ میں مشغول ہے۔ ٹرمپ کے پاس 19جنوری 2021ء تک تقریباً پچاس دن، اس کشمکش کو اپنے عروج پر لے جانے اورصدارت کی کرسی پر بیٹھے رہنے کی جدوجہد کرنے کے لئے میسرہیں۔ وہ اور اس کی پارٹی ہر حال میں پاپولر ووٹ کی بجائے آئین میں موجود دفعات اور ریاستوں میں گورنروںکی اکثریت کے بل بولتے پر پارلیمانی موشگافیوں سے رائے عامہ کے فیصلے کوشکست دینے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس کوشش کے ساتھ ساتھ ٹرمپ اور ریپبلکن پارٹی ایک دوسرے منظرنامے پر بھی غور کر رہے ہیں کہ کامیابی نہ ملنے صورت میں 2024ء کے الیکشنوں کے لیئے ڈونلڈ ٹرمپ کو ایک بار پھر صدارتی امیدوار بنایا جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکی تاریخ میں کسی بھی ریپبلکن صدارتی امیدوار نے اتنے ووٹ حاصل نہیں کئے جتنے ڈونلڈ ٹرمپ نے کئے ہیں۔ اگر ریپبلکن پارٹی آنیوالے دنوں میں ٹرمپ کو آئینی جنگ کے ذریعے صدربرقرار رکھنے میں کامیاب نہ ہو سکی تو وہ اسے آئندہ کے الیکشنوں میں ایک مضبوط امیدوار کی حیثیت سے اگلے انتخابات کیلئے ابھی سے پیش کرنا شروع کردیگی۔ اس کشمکش کے عالم میں امریکی سیاست میں آئندہ آنے والے پچاس دن بہت اہم ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ، امریکی سیاست اور حکومت کی دنیا میںمیں ایک ایسی ’’مداخلت‘‘ تھی، جس کی مثال گذشتہ دوصدیوں کی امریکی جمہوریت میں نہیں ملتی۔ ایک ایسا صدارتی امیدوار جسے کبھی امریکی نظامِ حکومت میں کونسلر کا بھی تجربہ بھی نہیں تھا۔ ایسے نووارد کاالیکشن لڑنا، امریکی عوام کو سفید فام تعصب کا شکار کرنا، وائٹ ہاوس میں براجمان ہو کر امریکی اسٹبلشمنٹ کی سو سالہ روش کے مقابلے میں آزادانہ فیصلے کرنا، یہ سب بالکل اچانک نہیں بلکہ ایک منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا۔ یہ منصوبہ بندی، عالمی سیاست کی پس پردہ حقیقتوں میں سے ایک اہم حقیقت اور گروہ ’’عیسائی صہیونیت‘‘ کے اہم ترین منصوبوں میں سے ایک ہے۔ امریکی عوام کے مذہبی سروے کے مطابق اس وقت امریکی عیسائیوں میں سے 25فیصد ایسے کٹر خیالات کے حامل ہیں جو اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اسرائیلی قوم کا ساتھ دینا ان کی ’’مذہبی‘‘ ذمہ داری ہے، جس کی واضح ہدایت بائبل میں دی گئی ہے۔ان لوگوں کو عرف عام میں ’’عیسائی صہیونی‘‘ کہا جاتا ہیْ ’’عیسائی صہیونیت‘‘ کا وجود تقریباًایک سو سال پرانا ہے اور اس کا آغاز برطانیہ سے ہوا تھا، جہاں کے کچھ عیسائی اس بات پر یقین کرنے لگے کہ ’’خداوند‘‘ نے یہودیوں کی قسمت میں یہ لکھ دیا ہے کہ وہ حضرت عیسیٰ ؑ کی دوبارہ اس دنیا میں آمد کے لئے راہ ہموار کریں۔ یہ عقیدہ کچھ سالوں بعدامریکی عیسائیوں کے چند کٹر مذہبی گروہوں میں مقبول ہوا اور وہ لوگ بھی اس بات پر یقین کرنے لگے کہ اسرائیل کی مملکت کے قیام کے بعد آخری عالمی جنگ ہوگی اور پھر یروشلم سے پوری دنیا پر حکومت کی جائے گی۔ اس تصور کے ماننے والے عیسائی پادری امریکہ میں 1870ء میں منعقدہ ایک بائبل کانفرنس میں ایک تحریک کی صورت منظم ہوئے۔ اس تحریک کا روح رواں ایک ’’ایونجلسٹ‘‘ پادری سائرس سکوفیلڈ تھا۔اس نے1909ء میں بائبل کی ایک ایسی تفسیر شائع کی جس میں یہ تصور دیا گیا تھاکہ’’ خداوندنے انسانی تاریخ میں مختلف اقوام کومختلف ادوار میں زمین کی وراثت کا ذمہ دار بنایا ہے اور ہمیں اس پر راضی ہو جانا چاہیے‘‘۔تمام ایونجلسٹ اس نظریے کو ’’ابدی خدائی تقسیم‘‘کہتے ہیں۔ ان کی یہ تحریک 1948ء میں اس وقت یقین میں بدل گئی، جب دنیا کے نقشے پر اسرائیل وجود میں آگیا۔اب تو یہ ایک حقیقت تھی ۔اس دن سے ’’سکو فیلڈ‘‘ کی بائبل عیسائی دنیا میں ایک ایسی کتاب سمجھی جانے لگی جو دنیا کے انجام سے پہلے آخری دور (End Times) کی صحیح تصویر پیش کرتی ہے ۔ یوں عیسائی صہیونی اور یہودی صہیونی اپنے مقاصد میں مشترک ہوگئے ۔ جارج بش کے زمانے میں جب امریکی سیاست پر ’’نئی قدامت پرستی‘‘ کا راج ہواتو امریکہ میں ایونجلسٹ نے یہ تصور عام کیا کہ امریکہ کی وہ ریاستیں جنہیں عیسائی خطہ (Bible belt) کہا جاتا ہے، یہ پوری دنیا میں اسرائیل کے تحفظ کی ذمہ دار ہیں۔ امریکی عیسائی صہیونی اس وقت کا شدت سے انتظار کررہے ہیںکہ جب یروشلم پر یہودی اپنا ’’ہیکل سلیمانی‘‘ تعمیرکریں گے اوراسکے بعد حضرت عیسیٰ ؑ واپس دنیا میں تشریف لائیں گے۔ اس ساری تحریک کا اہم رکن ، ڈونلڈ ٹرمپ کا نائب صدر مائیک پینس (Mike Pence)ہے۔ اس کی الیکشن کے بعد17جولائی 2017ء کی تقریر کا عنوان ’’عیسائی اسرائیل کے لیئے متحدہیں‘‘ ، ہی یہ واضح کرنے کے لیئے کافی ہے کہ اس گروہ کے مقاصد کیا ہیں۔ ان کے نظریات کے مطابق اب یعنی’’ آخری زمانے‘‘ میں دنیا کے نقشے پر صرف ایک ہی طاقتور قوت یا حکومت نے باقی رہنا ہے اور وہ ہے اسرائیل کے مرکز’’یروشلم‘‘ میں قائم ہونے والی عالمی حکومت۔ ان لوگوں کے سات بنیادی نظریات ہیں جو انہوں نے بائبل کی آیات کی تفسیر کرتے ہوئے اخذ کیئے ہیں۔ آپ حیران ہوں گے کہ یہ یہودی علماء کے نظریات نہیں بلکہ عیسائی پادریوں کے نظریات ہیں، جویہودیت کو دو ہزار سال تک اپنا اصل دشمن سمجھتے تھے۔ عیسائی صہیونیوں کے سات بنیادی عقائد یہ ہیں۔( ۱)۔ خداوند اسرائیل کو برکت دینے کا وعدہ کرتا ہے اور اسرائیل پر لعنت بھیجنے والوں پر لعنت بھجتا ہے، (2)۔ یہودی لوگ خدا کے منتخب لوگ ہیں، (3)۔ وعدہ شدہ سرزمین کو خدانے ابد تک یہودیوں کو وراثت میں دے دیا ہے،( 4)۔ یروشلم ابد تک یہودیوں کا غیرمتنازعہ دارالحکومت ہے، (5)۔ یسوع مسیح کے دوبارہ دنیا میں تشریف لانے سے پہلے یہودی اپنا ہیکل دوبارہ تعمیر کریں گے،( 6)۔ قیامت سے پہلے کی آخری بڑی جنگ (Armagadon)کے آغاز سے پہلے ہی عیسائی مومنین کو جنت کی سرمستی و بے خودی کا نشہ چکھایا جائے گا اور( 7)۔ یہودیوں کیلئے خدا کے بنائے منصوبے کا موجودہ چرچ سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ ہیں وہ سات نظریات و تصورات جن کی بنیاد پر 2016ء میں ڈونلڈ ٹرمپ اور مائیک پنس کی حکمرانی قائم کی گئی اور اگلے آٹھ سال کے لیے ان ا ہداف کو حاصل کرنے کیلئے منصوبہ سازی کی گئی جن کا اہم نکتہ اسرائیل کی بالادستی تھا۔ لیکن چار سال کے بعدہی ٹرمپ کی بظاہر شکست نے اس منصوبے کی بساط الٹ دی ۔اپنے اہداف حاصل کرنے اور ’’آخری بڑی عالمی جنگ‘‘ کے آغازکیلئے آئندہ پچاس دن بہت اہم ہیں۔ یہ لوگ ٹرمپ کے ان پچاس دنوںسے فائدہ اٹھاتے ہوئے آخری معرکے کا آغاز چاہتے ہیں۔اگر ان پچاس دنوں میں اس جنگ کے ابتدائیے کا آغاز نہ ہوا تو پھر یہ سارا منصوبہ چار سال تک کے لیئے ملتوی ہو جائے گا۔ سعودی عرب کے شہر میں اسرائیل کی قیادت، مائیک پنس اور سعودی حکام کی ملاقات اسی جنگ کے ابتدائیہ کے آغاز کیلئے ہی تھی۔ یہ جنگ کہاں سے شروع ہوگی،کون پہلا ہدف ہوگااس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ اسرائیل، عرب دنیا اور امریکہ اپنے لئے ایک مشترکہ دشمن کا انتخاب کرچکے ہیں اور وہ ایران ہے اور اس دشمن سے پنجہ آزمائی کے آغاز کیلئے گلے پچاس دن بہت اہم ہیں۔


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *