ایسی چنگاری بھی یا رب اپنے خاکستر میں تھی

سوشل میڈیا پر سید فیاض علی نے ایک ٹیکسی ڈرائیور کی ایمانداری کا واقعہ شیئر کیا ہے‘ لکھتے ہیں ’’آج نسبت روڈ سے واپسی پر میں اور میرے دوست نے لکشمی چوک کے مشہور ریستوران سے کھانا کھایا اور آن لائن گاڑی بک کی‘ ہمارے پاس کچھ ہوم اپلائنسز اور دیگر قیمتی اشیاء تھیں‘ جو ہم نے نسبت روڈ آنے سے قبل شاہ عالمی سے خریدی تھیں۔ میرے پاس کیمرہ بیگ بھی تھا ‘دوست کو میں نے مال آف لاہور ڈراپ کیا‘ کیولری گرائونڈ پہنچ کر رائیڈ ختم کی ‘گاڑی کی پچھلی نشست سے سارا سامان اتارا اور گھر آ گیا‘ پچھلی نشست پر بیٹھے میرے دوست نے میرا کیمرہ بیگ جس کی مالیت کم و بیش بارہ لاکھ تھی ‘نشستوں کے درمیان پائوں میں رکھا تھا جو مجھے نظر نہیں آیا اور وہ بیگ میں گاڑی میں چھوڑ آیا۔ گھر آ کر میں نے کافی بنائی اور کیمرے سے ان کے شوٹ کا ڈیٹا نقل کرنا چاہا تو احساس ہوا کہ بیگ کمرے میں نہیں‘ سارا گھر چھان مارا کہیں نہ ملا‘ پریشانی میں دوست کو فون کیا جس نے بتایا کہ وہ تو میں گاڑی میں رکھ آیا تھا۔ میں نے متعلقہ کمپنی کو فون کیا آپریٹر نے ڈرائیور کو کال ٹرانسفر کر دی۔ ڈرائیور کو جب بتایا کہ میرا بیگ گاڑی میں رہ گیا ہے تو اس نے بتایا کہ گاڑی میں کوئی بیگ نہیں‘ میں نے اصرار کیا کہ گاڑی چیک کرو‘ بیگ موجود ہو گا‘ ڈرائیور نے گاڑی روک کر چیک کی تو یہ سیٹوں کے درمیان پڑا ملا‘ ڈرائیور کے بتانے پر کہ کالے رنگ کا بیگ نشستوں کے درمیان پڑا ہے میری جان میں جان آئی۔ میں نے ڈرائیور قمر الزمان سے پوچھا کہ وہ اب بھی رائیڈ پر ہے یا فری ؟تو اس نے بتایا کہ فری ہوں‘ میں نے درخواست کی کہ بیگ مجھے پہنچا دو میں آپ کو ایک ہزار روپے کرایہ ادا کردونگا۔ اس نے ہامی بھری اور آدھ گھنٹے بعد میرے گھر پہنچ گیا‘ میں نے ڈرائیور سے پوچھا تمہیں علم ہے کہ بیگ میں موجود سامان کی مالیت کیا ہے تو سادگی سے بولا’’سر پاویں ککھ ہووے تے پاویں لکھ‘ یہ امانت ہے۔ میں نے طے شدہ ہزار روپے سے زیادہ دینا چاہا تو اس نے انکار کر دیا اور کہا ویسے سر ہزار روپیہ بھی زیادہ ہے۔ یہ پوسٹ میں ڈرائیور سے اجازت لے کر لگارہا ہوں۔ یہ ہے میرا پیارا پاکستان جہاں آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں اور یہی پاکستان کے اصل ہیرو ہیں‘‘۔
ایک نہیں کئی بار مجھے ذاتی طور پر ایسا ہی تجربہ ہوا‘ ایک بار مری کے ایک ریستوران میں اہل خانہ کے ساتھ ناشتہ کر کے واپسی کی راہ لی‘ راستے میں یاد آیا کہ میں اپنا قیمتی موبائل فون دوران ناشتہ میز پر بھول آیا ہوں‘ گاڑی واپس موڑی اور ریستوران پہنچ گیا‘ استقبالیہ پر جا کر بتایا تو مینجر نے ویٹرز کو بلا کر پوچھا خاص طور پر اس ویٹر سے جو ہماری میز پر کھانا لایا مگر اس نے لاعلمی ظاہر کی متعلقہ میز پر ایک فیملی بیٹھی ناشتہ کر رہی تھی۔ میز کی طرف بار بار دیکھتے اور ویٹر سے بحث کرتے دیکھ کر ناشتے میں مصروف خاندان کے سربراہ نے اشارے سے مجھے بلایا اور پوچھا کیا بات ہے؟ میں نے اپنی پریشانی بتائی تو اس نے ہنستے ہوئے کہا کہ اگر فون مل جائے تو آپ ہمارے ناشتے کا بل ادا کرینگے؟ میں نے خوشدلی سے ہامی بھری اس نے اخبار اٹھایا‘ فون وہیں کا وہیں پڑا تھا‘ پتہ چلا کہ ہم میز سے اٹھے تو ویٹر کو صفائی کا موقع دیے بغیر یہ فیملی وہاں بیٹھ گئی اور موبائل فون دیکھ کر اس خیال سے موصوف نے اس پر اخبار رکھ دی کہ ادھر ادھر نہ ہو جائے اور مالک کی واپسی کا انتظار کرتے رہے‘ میں نے وعدے کے مطابق بل ادا کرنا چاہا تو روک دیا کہ یہ بات میں نے ازرہ تفنن کہی تھی۔
کشمور کا اے آئی ایس محمد بخش بُرڑہ بھی اس دھرتی کا باسی ہے جس نے انسانی شکل میں شیطانی روپ کی درندگی کا شکار مظلوم خاتون کو دس دن تک اپنے گھر ٹھہرایا‘ اس کی یرغمال معصوم پانچ سالہ بیٹی کو درندے کے چنگل سے چھڑانے کے لئے اپنی کمسن بیٹی کی جان اور عزت کو خطرے میں ڈالا اور ملزموں کی گرفتاری کو یقینی بنایا‘ ورنہ اپنے ہی تھانے کے دیگر اہلکاروں کی طرح وہ خاتون کو دھتکار دیتا تو کس نے پوچھنا تھا‘ خدا کا شکر ہے کہ سندھ پولیس‘ سید مراد علی شاہ اور عمران خان کی حکومت نے فرض شناسی‘ ایثار و قربانی اور جرأت مندی کے پیکر اس معمولی اہلکار کی خاطر خواہ پذیرائی کی اور دوسرے شہریوں کو بھی ترغیب دی‘ پاکستان میں اوپر سے نیچے تک کرپشن‘ بے ایمانی‘ ظلم و زیادتی کا بازار
گرم ہے لوگ دن دیہاڑے لٹ رہے ہیں اور خواتین کی عزت و عصمت گھروں‘ دفتروں میں محفوظ ہے نہ بازاروں اور تھانوں‘ میں لیکن سارا معاشرہ ایسا نہ پاکستان کا ہر شہری عابد ملہی‘ شفقت ‘بدبخت رفیق ملک و خیراللہ بگتی کی طرح سنگدل‘ جرائم پیشہ اور عزتوں کا لٹیرا‘ یہاں کثیر تعداد میں ایماندار ٹیکسی ڈرائیور‘ فرض شناس پولیس اہلکار اور حلال خوردکاندار موجود ہیں جو اگر ع
دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں
یہ مگر حقیقت ہے کہ زمین کے نمک ایسے لوگوں کی حکومتی سطح پر حوصلہ افزائی ہوتی ہے نہ سماجی اور سیاسی شعبے میں پذیرائی‘ یہاں لُچا سب توں اُچاّ ہے اور یہی نوسر باز‘ لُچے لفنگے‘ وحشی درندے سربلند و سرفراز ؎
جہل خرد نے دن یہ دکھائے
گھٹ گئے ‘انساں بڑھ گئے سائے
سعدیہ قریشی نے اپنے خوبصورت کالم میںمیانوالی قریشیاں کے مخدوم الطاف احمد کی طبعی شرافت‘ خاندانی نجابت اور بلند کرداری کا ایک واقعہ درج کیا ہے مگر اسی شریف النفس مخدوم الطاف احمد کو محترمہ بے نظیر بھٹو نے پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنانا چاہا تو مسلم لیگ کے دونوں دھڑوں اور پیپلز پارٹی کی قیادت نے عارف نکئی پر اکتفا کر لیا۔ وہی عارف نکئی جس نے محترمہ بے نظیر بھٹو سے کہا تھا‘ ’’اخبار نویسوں کا معاملہ آپ مجھ پر چھوڑیں میں انہیں ہزار ہزار دو دو ہزار لفافے دے کر آپ کی حمائت پر آمادہ کر لوں گا‘‘۔بڑے بڑے پھنے خاں صحافیوں اور مالکان اخبارات کو میں نے اپنی ان گناہگار آنکھوں سے عارف نکئی کی چاپلوسی کرتے اور دیرینہ تعلقات کی یاددہانی کراتے سنا‘مخدوم الطاف مگر سیاستدانوں کو قبول تھے نہ ارکان اسمبلی کو اور نہ ہی معاشرے کی ہر برائی کا ذمہ دار حکمرانوں کو قرار دینے والے اخبار نویسوں کو۔ٹیکسی ڈرائیور قمر الزمان‘ اے ایس آئی محمد بخش برڑہ جیسوں کی عزت افزائی سے ہی معاشرے میں نیکی‘ ایمانداری‘ فرض شناسی اور ایثار و قربانی کا جذبہ پروان چڑھ سکتا ہے‘ نوجوان نسل کی کردار سازی کے لئے ایسے ہی گمنام مجاہدین کو قومی ہیرو کا درجہ دینا ضروری ہے‘ مگر یہ مشکل کام کرے کون؟پرلے درجے کے جعلساز‘ نوسر باز‘ لٹیرے‘ بدکردار‘ دھن دولت کے پجاری اور مفاد پرستی‘اقربا پروری کے موذی مرض میں مبتلا مداری ہمارے سروں پر سوار‘ دل و دماغ پر قابض ہیں اور سیاسی کارکن‘ صحافی‘ تجزیہ کار‘ اینکر‘ دانشور ہر ایک کی زبان پر انہی کی مدح سرائی‘ تبدیلی کیا خاک آئیگی۔؟


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *