کیسے کیسے عجیب تماشے ہر طرف برپا ہیں۔ کیا قدرت کی اس میں کچھ نشانیاں ہیں۔ایک قوم کی حیثیت سے ضرور کوئی بڑی خطا ہم سے سرزد ہوئی ہے۔ پروردگار کا فرمان وگرنہ یہ ہے کہ اس کی رحمت اس کی صفتِ عدل پہ غالب ہے۔ ایسے لوگ ہم پر مسلط ہوئے جو پل بھرکو چین لینے نہیں دیتے۔ اسٹیبلشمنٹ، حکومت اور اپوزیشن، کسی طرف سے خیرکی کوئی خبر نہیں آتی۔ اللہ کی رحمت سے کبھی مایوس نہیں ہونا چاہئیے۔ فرمایاکہ کافر ہی مایوس ہوا کرتے ہیں۔ بے کراں عظمت اور بے کراں کرم والے رب کے دروازے چوپٹ کھلے ہیں۔ شاید اب وہ وقت ہے کہ قوم کو اجتماعی معافی مانگنی چاہئیے۔
اچھے بھلے الیکشن گلگت بلتستان میں ہوئے۔ ممکن ہے، تھوڑی بہت دھاندلی ہوئی ہواور کب نہیں ہوئی۔ جس کی جتنی بساط ہے، وہ کر گزرتا ہے۔ محترمہ مریم نواز پہ حیرت ہے کہ چھ سات لاکھ میں سے کل تیس ہزار ووٹ انہیں ملے اور وہ فرماتی ہیں کہ نون لیگ کی فتح چرا لی گئی۔ بلاول کی بات تو پھر بھی قابلِ فہم ہے کہ شاندار انتخابی مہم کے بعد ستر ہزار ووٹ حاصل کیے۔ حکمران پارٹی سے صرف تیس ہزار کم لیکن محترمہ کے واویلے کا جواز کیا ہے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ پی ٹی آئی میں لوٹے شامل کر لیے گئے۔ کیا 2008ء ،2013ء اور خود گلگت بلتستان کے پچھلے الیکشن میں کھلی بانہوں سے ان کی پارٹی نے لوٹوں کا خیر مقدم نہیں کیا تھا؟ اسٹیبلشمنٹ نے الیکشن میں مداخلت نہیں کی۔ سامنے کا نکتہ یہ ہے کہ ہمیشہ کی طرح پی ٹی آئی موزوں امیدواروں کو ٹکٹ نہ دے سکی۔ چار ایسے آزاد امیدوار جیتے، تحریکِ انصاف نے جنہیں مسترد کر دیا تھا اور اب ان کی منت سماجت ہے۔ 23میں سے کل 9نشستیں انہوں نے جیتی ہیں۔بڑ ے پیمانے کی دھاندلی ہوتی تو پی ٹی آئی کم از کم گیارہ بارہ سیٹیں فتح کرنے کی کوشش کرتی۔یہ بھی واضح ہے کہ شمالی علاقوں میں اسی کی حکومت بنتی ہے، مرکز میں جو برسرِ اقتدار ہو۔ 2010ء میں پیپلز پارٹی ظفر مند ہوئی اور 2015ء میں نون لیگ۔ تب اتنا واویلا کیوں نہیں تھا۔
2018ء میں پنجاب میں نون لیگ اور سندھ میں پیپلزپارٹی نے دھاندلی کی۔ 2013ء میں کراچی میں الیکشن ہوئے ہی نہیں۔ ایم کیو ایم والے دھڑلے سے ٹھپے لگاتے رہے۔ محترمہ یاسمین منظور نے ثبوت پیش کیے تو قتل کی دھمکیاں دی گئیں۔ ملک چھوڑ کر انہیں جانا پڑا۔ وزیرِ اعظم نواز شریف سے فریاد کی تو ان کا جواب یہ تھا: آپ کے لیے میں دعا ہی کر سکتا ہوں۔ قتل و غارت کے دو تین عشروں بعد ایم کیو ایم اب مسکین بنی بیٹھی ہے۔
سبھی ظالم ہیں اور سبھی مظلوم۔ الطاف حسین اورا ن کے ساتھی آگ اور خون کا کھیل کھیلتے رہے۔ 16ہزار بے گناہ شہری قتل کر دیے گئے۔ ایک پوری فیکٹری کے مزدوروں کو زندہ جلا دیا گیا۔ کوئی ایک لیڈر اس پارٹی کا نہیں تھا، جو شرمندہ ہوتا اور معافی مانگتا۔ کس مٹی سے یہ لوگ بنے ہیں کہ دل ان کے پتھر ہو گئے۔ احساس کی ایک رمق بھی نہیں۔
ملک کو استحکام درکار ہے لیکن کسی کو پرواہ نہیں۔ کسی ایک لیڈر اور پارٹی کو بھی نہیں۔ فرانسیسی صدر اور بعض دوسرے اداروں کی طرف سے توہینِ رسالت پر سب مسلمانوں کے دل دکھی ہیں۔ احتجاج اس پر لازم ہے۔ امام مالک سے پوچھا گیا تھا کہ امت اگر رحمتہ اللعالمینﷺ کی توہین کا بدلہ نہ لے سکے تو اسے کیا کرنا چاہئیے۔ فرمایا: اسے مرجانا چاہئیے۔ یہ بات مگر اہلِ دانش اور سیاستدانوں کی سمجھ میں کیوں نہیں آتی کہ قوموں کے باہمی تعلق اور سلوک کا دارومدار اپنے مفادات اور طاقت پر ہوتاہے۔ اقبال نے کہا تھا:
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
حکمت اگر کوئی چیز ہے تو دو طرح کی حکمتِ عملی ہونی چاہئیے۔ ایک فوری احتجاج اور ایک دیر پا منصوبہ بندی۔ جس قدر اتحاد ممکن ہو، عالمِ اسلام میں پیدا کیا جائے۔ دور دراز مقامات سے الگ الگ واویلا کرنے سے کیا حاصل۔ مولوی صاحبان کے موقف کو سو فیصد درست مان لیجیے۔ ہر کام کا مگر ایک قرینہ ہوتاہے۔ راولپنڈی، اسلام آباد کے شہریوں کو اذیت دینے سے کیا حاصل ہوا؟ یہ بھی واضح ہے کہ بالاخر جس سمجھوتے کے بعد مظاہرین منتشر ہوئے، عمل درآمد اس پر آسان نہیں ہوگا۔ پچھلی بار تو ایسے بھدے پن کا مظاہرہ کیا گیا کہ سوچنے سمجھنے والا ہر شخص حیران رہ گیا۔ پھر یہ کہا گیا کہ فسادیوں کا ڈی این اے تبدیل کر دیا گیا۔ ڈی این اے کبھی تبدیل نہیں ہوتا۔ فرمایا: کوہِ احد اپنی جگہ سے ٹل سکتاہے لیکن عادت نہیں بدلتی۔ عالمِ اسلام کی پوری تاریخ کے تمام محترم مفکرین متفق ہیں کہ حب جاہ، یعنی ہردلعزیزی کی آرزو سے بڑا مرض کوئی نہیں۔ غلبے کی انسانی جبلت بروئے کار آچکے تو آسانی سے ٹلتی نہیں۔ اگر یہ لیڈروں اور علماء ِ کرام میں ہو تو ناقابلِ یقین انتشار اور فساد کا باعث بنتی ہے، جیسا کہ 1971ء کے مشرقی پاکستان میں ہوا۔ جنرل آغا محمد یحییٰ خان، شیخ مجیب الرحمٰن اور ذوالفقار علی بھٹو، اقتدار کے لیے، تینوں دیوانے ہو رہے تھے۔ اس دیوانگی نے ملک کود ولخت کر دیا۔ اقتدار پر یحییٰ خان کا کوئی حق نہ تھا۔ اس کے باوجودسیاسی پارٹیاں انہیں صدارت سونپنے پر آمادہ تھیں لیکن عالی جناب نے فرمایاکہ وہ ملکہ برطانیہ نہیں بن سکتے۔ یعنی پورے اختیارات چاہتے ہیں۔ پارلیمانی طرزِ حکومت میں یہ کس طرح ممکن تھا؟ ذوالفقار علی بھٹو انہیں اکساتے رہے کہ مرکزی حکومت میں حصے کی آرزوحواس پہ سوار تھی۔پنجاب اور سندھ کی حکومتوں پہ کیوں وہ اکتفا نہ کر سکے۔ شیخ مجیب الرحمٰن صبر کا مظاہرہ کر سکتے تو چند ماہ کے اندر پکے ہوئے پھل کی طرح اقتدار ان کی گود میں گرتا۔ پیپلزپارٹی کے سوا مغربی پاکستان کی اکثر سیاسی پارٹیاں انہیں حکومت سونپنے کے حق میں تھیں مگر پاگل پن ان پر سوار تھا۔
بے شک آج کوئی مشرقی پاکستان نہیں، جہاں ایک ڈویژن فوج کوبھارت کی پوری عسکری قوت کاسامنا ہو اور مقامی اکثریت برہم۔نا انصافیاں اگرچہ بہت ہیں لیکن ملک کے کسی حصے میں ایسی بے چینی نہیں، جیسی مشرقی پاکستان میں تھی۔ دہشت گردی پر فوج نے قابو پالیا ہے۔ ملکوں اور قوموں کو لیکن صرف فوج متحد نہیں رکھ سکتی۔لازماً آئین اور قانون کی بالادستی درکار ہوتی ہے۔ کیا ایسا کوئی ایک بھی گروہ موجود ہے، قانون کی پاسداری جسے عزیز ہو، جس طرح کہ ہونی چاہئیے۔
ہر طرف ہیجان برپا ہے۔تحمل اور غور و فکر پہ کوئی آمادہ نہیں۔ چند ہفتوں میں کرونا چار گنا بڑھ گیا لیکن جلسہ ہائے عام کا سلسلہ جاری رہا۔ مذہبی اورسیاسی جماعتیں ہی نہیں، حکومت بھی اس پہ تلی رہیں۔ خدا خدا کر کے پرسوں وزیرِ اعظم نے اجتماعات منعقد نہ کرنے کا اعلان کیا۔ دوسرے کیا پیروی کریں گے؟
کیسے کیسے عجیب تماشے ہر طرف برپا ہیں۔ کیا قدرت کی اس میں کچھ نشانیاں ہیں۔ایک قوم کی حیثیت سے ضرور کوئی بڑی خطا ہم سے سرزد ہوئی ہے۔


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *