اچھی گفتگو کا بحران

اقبال احمد پاکستان کے حقیقی دانشور تھے‘ یہ بہار میں گیا کے مضافات میں چھوٹے سے گاؤں میں پیدا ہوئے‘ والد زمین کے جھگڑے میں ان کی آنکھوں کے سامنے قتل ہو گئے‘ 1947میں اپنے بھائی کے ساتھ بہار سے پیدل لاہور پہنچے‘ ایف سی کالج میں داخلہ لیا‘ اکنامکس میں ڈگری لی اور اسکالرشپ پر کیلی فورنیا امریکا کے ایکسیڈنٹل (Occidental) کالج میں داخل ہو گئے اور سیاست اور مڈل ایسٹ ہسٹری پڑھنا شروع کر دی۔

ابن خلدون کی محبت میں گرفتار ہوئے اور خود کو مڈل ایسٹ اور شمالی افریقہ کی تاریخ کے لیے وقف کر دیا‘ تیونس اور الجیریا گئے اور کئی سال وہاں گزار دیے‘ الجیریا اس وقت فرانس کی کالونی تھا‘ آزادی کی تحریک چل رہی تھی‘ یہ باقاعدہ اس انقلابی تحریک کا حصہ بن گئے‘ گرفتار ہوئے‘ پیرس میں ان کے خلاف مقدمہ چلا‘ جیل میں فرنچ زبان سیکھ لی‘رہا ہونے کے بعد دوبارہ امریکا چلے گئے اور یونیورسٹی آف ایلی نوئے (Illionois) اور کارنیل یونیورسٹی میں پڑھانا شروع کر دیا۔

نوم چومسکی‘ ایڈورڈ سعید اور ارون دتی رائے جیسے دانشور اقبال احمد سے متاثر ہوئے اور انھیں اپنا دوست بنا لیا‘ یہ ان کی محفل میں اٹھنے بیٹھنے لگے‘ زندگی کی سختیوں اور عالمی دانشوروں کی صحبت نے انھیں جنگ کا دشمن اور عالمی نظام معیشت کا مخالف بنا دیا اور یہ کھل کر کمیونزم کا پرچار کرنے لگے‘یہ پوری دنیا میں لیکچر دیتے تھے اور لوگ ٹکٹ خرید کر ان کا لیکچر سنتے تھے‘ بڑے بڑے دانشور ان سے متاثر تھے‘ یہ ایمسٹرڈیم گئے اور وہاں دو سال پڑھاتے رہے‘ تیسری بار امریکا گئے اور یونیورسٹی آف شکاگو میں پڑھانا شروع کر دیا‘ ویتنام جنگ کے خلاف تھے۔

یہ امریکا پر فوجیں واپس لانے کے لیے دباؤ ڈالتے رہے‘ مظاہرے بھی کیے‘ 1973  کی یوم کپور جنگ میں فلسطینیوں کی حمایت اور اسرائیل کی کھلی مخالفت کی چناں چہ نوکری سے نکال دیے گئے لیکن یہ اس وقت تک اتنے مشہور ہو چکے تھے کہ دنیا بھر سے نوکریوں کی آفرز آنے لگیں‘ یہ 1986 میں پشاور میں اسامہ بن لادن سے بھی ملے‘ اسامہ بن لادن اس وقت امریکا کی آنکھوں کا تارا تھے‘ یہ اسلامی دنیا میں مجاہد اعلیٰ بھی سمجھے جاتے تھے۔

اقبال احمد اس زمانے میں پہلے دانشور اور لکھاری تھے جنھوں نے دعویٰ کیا وہ وقت دور نہیں جب یہ شخص امریکا اور اسلامی دنیا کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہو جائے گا‘ انھوں نے یہ انکشاف بھی کیا تھا‘ یہ پاکستان کا بھی دشمن نمبر ون ہو گا‘یہ باتیں دنیا کو اس وقت حیران کن بلکہ گپ لگی تھیں‘ اقبال احمد پاکستان میں ڈان میں کالم بھی لکھتے تھے اور پوری دنیا میں پاکستان کی دانشورانہ پہچان بھی تھے۔

میاں نواز شریف اقبال احمد سے متاثر تھے‘یہ انھیں امریکا سے پاکستان لے آئے‘ مجھے آج تک ایک سوال کا جواب نہیں مل سکا‘ لوگ نواز شریف کو کند ذہن کہتے ہیں لیکن ملک کے تمام غیرمعمولی کام نواز شریف کے دور میں ہوئے‘ آپ موٹروے سے لے کر سی پیک تک پاکستان کے تیس برسوں کے بڑے منصوبوں اور واقعات کی فہرست بنا لیں‘ آپ کو ہر جگہ نواز شریف نظر آئے گا‘یہ اگر نالائق یا کند ذہن ہیں تو یہ پھرایسے حیران کن کام کیسے کرتے رہے‘ حمیداللہ خان ہوں یا پھر اقبال احمد یہ ان کے دور میں پاکستان کیوں آئے اور انھیں میاں نواز شریف ہی یہاں کیوں لے کر آئے؟ دوسرا نواز شریف کو ہر اچھے اور بڑے کام کے بعد گالی کیوں پڑی؟(مجھے یہ بھی یقین ہے۔

ان چند سطروں پر مجھے اور میری برکت سے نواز شریف کو ایک بار پھر گالیاں پڑیں گی) جب کہ ان کے مقابلے میں جن لوگوں کے ادوار میں کچھ بھی نہیں ہوا‘ جن کی غلطیوں سے پورے ملک میں نفرتوں کی بارودی سرنگیں بچھ گئیں اور لوڈ شیڈنگ اور بم دھماکے عوام کی زندگی کا حصہ بنے‘ وہ ہمیشہ معزز بھی سمجھے جاتے ہیں اور معصوم بھی‘ کیوں؟ مجھے کبھی اس سوال کا جواب نہیں مل سکا۔ میں اقبال احمد کی طرف واپس آتا ہوں‘ میاں نواز شریف 1997 میں اقبال احمد کو پاکستان لے آئے اور انھیں ٹیکسٹائل انسٹی ٹیوٹ آف پاکستان کا سربراہ بنا دیا‘ نواز شریف نے انھیں اسلام آباد میں پرائیویٹ اور خود مختار یونیورسٹی بنانے کے لیے زمین بھی الاٹ کر دی‘ یہ ابن خلدون کے نام پر پاکستان میں خلدونیہ یونیورسٹی بنانا چاہتے تھے۔

حکومت نے انھیں چارٹر دے دیا‘ اقبال احمد نے کام شروع کر دیا لیکن یہ بدقسمتی سے بڑی آنت کے کینسر میں مبتلا ہوئے‘ ان کا آپریشن ہوا اور یہ آپریشن کے دوران 11 مئی 1999 کو ہارٹ اٹیک سے انتقال کر گئے‘ یہ کتنے بڑے اسکالر اور نامور انسان تھے آپ اس کا اندازہ صرف ایک بات سے لگا لیجیے‘ ان کے انتقال پر ہیمپشائر کالج نے تعزیتی تقریب منعقد کی‘ اس تقریب میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کوفی عنان‘ ایڈورڈ سعید‘ نوم چومسکی اور ارون دتی رائے جیسے لوگ شریک ہوئے اور کھل کر ان کی خدمات کا اعتراف کیا۔

میں نے اقبال احمد کا یہ سارا بیک گراؤنڈ صرف ایک واقعہ سنانے کے لیے لکھا‘ کیوں؟ کیوں کہ مجھے یقین ہے ملک کے ننانوے اعشاریہ ننانوے فیصد لوگ اقبال احمد سے واقف نہیں ہوں گے چناں چہ اس کالم کے ذریعے چند ہزار ہی سہی لیکن کم از کم لوگ اقبال احمد سے متعارف تو ہو جائیں گے۔

اقبال صاحب 40سال بعد پاکستان واپس آئے اور یہ اسلام آباد میں رہائش پذیر ہو گئے تو ایک دن ان کے ایک دوست نے ان سے پوچھا ’’آپ پاکستان میں رہتے ہوئے امریکا‘ یورپ اور مڈل ایسٹ کی کون سی چیز مس کرتے ہیں‘‘ یہ مسکرا کر بولے ’’اچھی گفتگو‘‘ پوچھنے والے نے حیرت سے عرض کیا ’’کیا مطلب‘‘ یہ بولے ’’دنیا جہاں میں پڑھے لکھے لوگوں کے پاس گفتگو کے بے شمار موضوعات ہوتے ہیں لیکن پاکستان میں ان پڑھ ہوں یا پڑھے لکھے ان کے پاس سیاست اور سکینڈلز کے علاوہ کوئی موضوع نہیں ہوتا‘ آپ جس بھی محفل میں بیٹھ جائیں اور کوئی بھی موضوع چھیڑ دیں وہ محفل چند منٹوں میں سیاست اور سیاست دانوں کے سکینڈلز میں تبدیل ہو جائے گی اور لوگ اس پر گھنٹوں گفتگو کرتے رہیں گے‘ دنیا بھر میں لوگ آئیڈیاز پر بات کرتے ہیں لیکن پاکستان میں ہر جگہ‘ ہر محفل میں شخصیات آئیڈیاز کی جگہ لے لیتی ہیں چناں چہ میں پاکستان میں اچھی گفتگو کومس کرتا ہوں‘‘۔

اقبال احمد نے آج سے 23سال قبل ہمارے ملک کی نفسیاتی حالت پر کیا خوب صورت تبصرہ کیا تھا اور یہ صورت حال سوشل میڈیا اور واٹس ایپ سے پہلے کے پاکستان کی تھی‘ اللہ نے اقبال صاحب پر بڑا کرم کیا‘ یہ سوشل میڈیا کی ایجاد سے پہلے دنیا سے رخصت ہو گئے ورنہ یہ آج پاگل ہو کر سڑکوں پر پھر رہے ہوتے یا ایک بارپھر کیلی فورنیا میں کسی یونیورسٹی میں پڑھا رہے ہوتے‘ ہمارے ملک میں واقعی ’’اچھی گفتگو‘‘ کا خوف ناک قحط ہے‘ آپ ملک کے کسی حصے میں چلے جائیں‘ کسی فورم‘ کسی گروپ کا حصہ بن جائیں۔

آپ کو سیاسی افواہوں‘ سیاسی لطیفوں اور سیاسی گپ شپ کے علاوہ کچھ نہیں ملے گا اور آپ اگر کسی طرح سیاست سے جان چھڑا بھی لیں تو آپ مذہبی گفتگو کے تالاب میں گر جائیں گے اور وہ ساری بات چیت بھی سیاسی گفتگو کی طرح غیر مصدقہ واقعات پر مشتمل ہو گی‘ہمارا پورا ملک بولنے کے خبط میں مبتلا ہے‘ آپ کہیں چلے جائیں آپ کو گونگے بھی آں آں آں کرتے ملیں گے‘ ہم میں سے ہر شخص روزانہ تین چار کروڑ لفظ بول کر سوتا ہے۔

بعض لوگوں کی اس میں بھی تسلی نہیں ہوتی چناں چہ یہ نیند میں بھی بڑبڑاتے رہتے ہیں لیکن آپ جب اس گفتگو کا عرق نکالتے ہیں تو اس میں سے شخصیت پرستی اور سیاست کے علاوہ کچھ نہیں نکلتا‘ میں نے مدت سے کوئی ایسا شخص نہیں دیکھا جو دوسرے کی سننا چاہتا ہو‘ ہم میں سے ہر شخص اندھا دھند بولنا چاہتا ہے اور یہ اس میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا ‘ اس کی گفتگو میں سیاست اور مذہب کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا اور یہ بھی سنی سنائی اور غیرمصدقہ باتیں ہوتی ہیں‘ میں سیلف ہیلپ کے سیشنز کرتا ہوں اور ہم ہر مہینے ٹورز لے کر باہر بھی جاتے ہیں‘ ہم ہر ٹور اور ہر سیشن کا واٹس ایپ گروپ بناتے ہیں‘ میں ہر بار لوگوں سے درخواست کرتا ہوں آپ پلیز اس گروپ میں فارورڈ میسجز نہ ڈالا کریں۔

آپ سیاسی اور مذہبی گفتگو بھی نہ کریں‘ بس اپنے ذاتی تجربات شیئر کریں لیکن آپ یقین کریں ہماری کوئی نہیں سنتا‘ صبح آنکھ کھلتی ہے تو سونے تک سیاسی اور مذہبی مواد کے علاوہ ان میں کچھ نہیں ہوتا‘ میں ہر ملنے والے سے پوچھتا ہوں ’’کیا آپ کتابیں پڑھتے ہیں‘‘ آپ یقین کریں یونیورسٹی کے پروفیسرز تک نہیں پڑھتے‘ لٹریچر کے پروفیسروں نے بھی کورس کے سوا کچھ نہیں پڑھا ہوتا‘ لوگ اپنے شہر سے دوسرے شہر تک نہیں جاتے اور فلم تو آج بھی حرام ہے‘ لوگ سارا دن سوشل میڈیا سے چپکے رہیں گے لیکن فلم حرام ہے۔

لہٰذا پھر نیا خیال نیا آئیڈیا کہاں سے آئے گا؟ ہم کیا گفتگو کریں گے! انسان بولنے والا جانور ہے‘ یہ اظہار کرتا ہے اور اظہار کے لیے آئیڈیاز چاہیے ہوتے ہیں اور آئیڈیاز کے لیے معلومات اور علم درکار ہوتا ہے اور علم اور معلومات کے لیے پڑھنا اور گھومنا اور گھومنے اور پڑھنے والے لوگوں کی صحبت میں بیٹھنا پڑتا ہے اور ہم یہ کرتے نہیں ہیں لہٰذا پھر ہم کیا سنیں گے اور کیا سنائیں گے‘ ہم کیا گفتگو کریں گے؟ چناں چہ اس کمی نے ہمارے معاشرے میں ایک بحران پیدا کر دیا ہے۔

اچھی گفتگو کا بحران‘ ملک میں عالم ہزاروں ہیں لیکن صاحب علم کوئی بھی نہیں‘ مبلغ لاکھوں ہیں لیکن صاحب عمل کوئی بھی نہیں‘دانشور کروڑوں ہیں لیکن صاحب دانش کوئی بھی نہیں اور ہم میں بولنے والے بھی کروڑوں ہیں لیکن گفتگو کسی کو نہیں آتی مگر ہم اس کے باوجود خود کو انسان بھی کہتے ہیں‘ کیا بات ہے!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *