تحمل سے کام لیں

بات اس پریس کانفرنس پر ہو رہی تھی،جو ہماری مسلح افواج کے ترجمان اور وزیر خارجہ نے مشترکہ طور پر کی ہے۔ چھوٹی بات نہیں ہے۔ صاف دکھائی دیتا تھا کہ دشمن ہمیں ہر طرح سے زک پہچانا چاہتا ہے۔پوچھا گیا،اس کا حل کیا ہے؟ بے ساختہ میرے منہ سے نکلا ہائوس ان آڈر کرو۔
کیا مطلب؟
ہم یہ کام پہلے بھی کر چکے ہیں۔ افغانستان کے بارے میں ہم نے بالآخر یہی کیا تھا۔
کیا ہندوستان کے ساتھ بھی یہ معاملہ ہے۔
ہرگز نہیں،اس میں ہمارا کوئی قصور نہیں ہے،مگر اس وقت ہم ایک منشتر قوم ہیں۔ اختلاف انتہائی سطح پر نظر آتا ہے۔ سیاسی پارٹیوں ہی میں نہیں بلکہ قومی سلامتی کے اداروں کے ساتھ بھی وہ یکجہتی نہیں ہے جو ملک کی سلامتی کے لیے ضروری ہے۔جنگیں صرف فوجیں نہیں لڑتیں،پوری قوم لڑتی ہے۔65ء کی جنگ میں ہم مشرق و مغرب میں ایک تھے،مذہب جان تھا۔ ہم نے جیسا بھی دشمن کا دفاع کیا، وہ ہماری تاریخ کا روشن باب ہے۔ یہ تو کوئی پچیس سال بعد ہمارے ایک آرمی چیف نے ہمیں بتایا کہ ہم یہ جنگ جیتے نہیں تھے۔جنرل اسلم بیگ بلاشبہ سوچنے سمجھنے والے جرنیل ہیں۔انہوں نے ٹھیک کیا ہو گا،مگر اس سے ہمارے جذبہ افتخار کو بہت ٹھیس پہنچی۔یہ نہیں کہ ہمیں حقائق پر پردہ پڑا رہنے دینا چاہیے نہیں،ہرگز نہیں۔ قوم کو معلوم ہونا چاہیے کہ اصل حقائق کیا ہیں۔اس وقت اصل بحران کیا ہے قوم نہیں جانتی کہ ان کا نظم حکومت کیسے چلایا جا رہا ہے بلکہ زیادہ سچی بات تو یہ ہے کہ یہ بھی خبر نہیں کہ کون چلا رہا ہے۔
بات دور نکل گئی۔یہی ژولیدہ فکری اس وقت ہمارا قومی المیہ ہے۔ہم یک سو نہیں ہیں اور ایک زبان نہیں ہیں۔ یہ کوئی معمولی المیہ نہیں ہے۔اختلاف رائے بری بات نہیں، مگر بات اختلاف سے آگے بڑھ کر مخالفت تک جا پہنچی ہے۔امریکی بھی تو اس وقت یہی رونا رو رہے ہیں۔ایک سپرپاور بھی ایسے بحرانوں کو برداشت نہیں کر پا رہی۔ کوئی قوم بھی اس صورتحال کو برداشت نہیں کر سکتی۔
ہم بات کر رہے تھے کہ ہائوس ان آڈر کرو۔اس سے ہمارا مطلب نہیں جو افغانستان کے معاملے میں تھا۔وہاں تو ہمیں احساس ہوا کہ جنرل مشرف نے افغانستان میں جو حکمت عملی اپنائی وہ درست نہ تھی۔روس کے خلاف افغانوں کی جدوجہد میں افغان ہم سے محبت کرنے لگے تھے،اب جب ہم نے امریکہ سے مل کر ان ہی کے خلاف چڑھائی کر دی تو ہمارے درمیان کھلی جنگ چھڑ گئی جو ہماری سرحدوں کے اندر بھی پھیل گئی۔ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ ہمارے یہ اطوار غلط تھے۔ہم علی الاعلان تو یہ تائب ہوئے تا ہم اس وقت بھارت ہمارے خلاف جو دہشت گردی کی کارروائیاں کر رہا ہے،اس کا جواب یہ ہے کہ ہم اپنے معاملات ٹھیک کریں۔ایک دوسرے کو غدار،چور،ڈاکو قرار دینے سے بات نہیں بنے گی۔ہم ملک کے اندر ایک دوسرے کو زیر کرنے میں لگے ہوئے ہیں،جو بائیڈن نے کہا ہے کہ ہم نے الگ الگ پارٹیوں سے الیکشن لڑا ہے،ہم ایک دوسرے کے مخالف تھے۔دشمن نہیں ہیں،ہم سب امریکی ہیں کیا ہمارے ہاں بھی یہ معاملہ نہیں،ہمارے ہاں پارٹیاں ہی متصادم نہیں،ادارے بھی اس تصادم میں گھسیٹ لیے گئے ہیں۔ یہاں یہ بحث نہیں کہ قصوروار کون ہے؟ تصادم کی ایسی صورت حال میں کوئی ایک فریق قصوروار نہیں ہوتا،پوری قوم اور اس قوم کا ہر ہر شعبہ قصوروار ہے۔سب سے زیادہ ذمہ داری ان کی ہے جو زیادہ طاقتور ہیں۔
سچ پوچھیے تو مجھے کسی کا بیانیہ سمجھ نہیں آ رہا۔ کسی کا بھی نہیں۔اس میں کوئی استثنا نہیں ہے۔دل تو چاہتا ہے کہ ہر ایک نکتہ نظر الگ الگ سے تجزیہ کروں مگر خوف فسادِ خلق کے ڈر سے اجتناب کرتا ہوں۔سب سے بے ضرر بات یہ ہو گی کہ میں اپوزیشن کے بیانیے یا نکتہ نظر پر بات کر لوں۔وہ صاف لفظوں میں کہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ نے ستر سال سے اقتدار پر قبضہ جما رکھا ہے اور اپنی مرضی کے حکمران قوم پر مسلط کرتے ہیں۔ میاں نواز شریف تو اس معاملے میں اتنے آگے بڑھ گئے ہیں کہ وہ ہمارے جرنیلوں کے نام لینے لگ گئے ہیں۔چلیے ایک منٹ کو مان لیں کہ وہ درست کہتے ہیں تو وہ یہ اعلان کر کے سیاسی طور پر کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔یہ ایک ایسا نقطہ ہے کہ ہماری موجودہ صورتحال میں اس کا جواب نہیں ملتا۔
اسی طرح دوسرے نکات ہائے نظر کو دیکھ لیجیے۔ ہمارے حکمران اپوزیشن سے کسی ڈائیلاگ کے قائل نہیں ہیں۔وہ کہتے ہیں یہ کرپٹ ہیں،ہم اسے چھوڑیں گے نہیں۔مگر یہ کہنے سے قوم کا مسئلہ تو حل نہیں ہوگا،غریب عوام کا پیٹ تو نہیں بھرے گا۔نظام حکومت تو نہیں چلے گا اور نہیں چل رہا۔ تیسرا بیانیہ ہماری اسٹیبلشمنٹ کا ہے،ایک بات عرض کر دی حب الوطنی بہت بڑی نعمت ہے مگر کبھی کبھی یہ مسائل بھی پیدا کر دیتی ہے۔یہ ایک ایسا جذبہ ہے جس کی مثال ان ہاتھیوں جیسی ہے جو اپنے ہی لشکر کو رگید دیتے ہیں۔اس وقت اگر بھارت کے سچ مچ وہ عزائم ہیں،جو ہم نے بیان کیے ہیں اور جن کے ہم نے ثبوت دیئے ہیں تو ضروی ہے جنگ کی تیاری کی جائے۔مراد مطلب یہ نہیں کہ جنگ کی جائے بلکہ میں نے یہ کہا ہے جنگ کی تیاری کی جائے۔ جنگ روکنے کا سب سے بڑا طریقہ یہ ہے کہ دشمن کو باور کرایا جائے کہ ہم جنگ کے لیے تیار ہیں اور جنگ کے لیے تیاری کا سب سے پہلا مرحلہ یہ ہے کہ پوری قوم کو اپنے جانبازوں کی پشت پر یک جان و یک سو کیا جائے۔ اگر ایسا ہو جائے تو دشمن ہماری طرف ٹیڑھی نگاہ سے دیکھنے کی ہمت نہیں کرے گا اور ہم یہ جنگ بغیر لڑے جیت جائیں گے۔
ہمیں اس حقیقت کو بھی تسلیم کر لینا چاہیے کہ پاکستان میں نظام حکومت پر ہمیشہ مقتدرہ کا کنٹرول رہا ہے۔ سکندر مرزا،غلام محمد،ایوب خان سے شروع ہو کر ہم نے منزل بہ منزل یہ سفر کیا ہے۔سب کچھ یک لخت نہیں بدلا جا سکتا۔اس کے لیے سماجی حالات اقتصادی ڈھانچے اور علاقائی عالمی رویوں میں تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔تفصیل میں نہیں جانا چاہتا۔ہمارے ہاں کوئی انقلابی ٹولہ نہیں ہے جو یکایک سب کچھ بدل دے۔تو پھر تحمل سے کام لینا پڑے گا۔سب کو…پھر کہتا ہوں سب کو…اور اس میں کوئی استثنا نہیں ہے۔


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *