مختلف موضوعات کی مالا

آج خلاف معمول ایک سے زیادہ موضوعات کیونکہ کسی ایک کو بھی نظرانداز کرنا غیر ذمہ دارانہ غفلت سے کم نہ ہو گا۔ سب سے پہلے وزیر اعظم عمران خان کے دو بیان جنہوں نے مجھے حیران ہی نہیں کنفیوژ بھی کر دیا ہے۔ پہلا بیان یہ کہ عام آدمی کو کبھی اتنا مطمئن نہیں دیکھا اور نہلے پہ دہلا دوسرا بیان یہ کہ مہنگائی تو اپوزیشن کا پروپیگنڈہ ہے۔ ایک ہمدرد کے طور پر میرا مخلصانہ مشورہ ہے کہ وزیراعظم اپنے اردگرد حصار، فصیل یا نرغہ پر غور کریں جس کی وجہ سے تلخ ترین زمینی حقائق کی ’’ح‘‘ بھی وزیراعظم تک نہیں پہنچ رہی۔ میں نے جب سے ہوش سنبھالا اس ملک کے عام آدمی کو سکھ کا سانس لیتے نہیں دیکھا۔ جن بنیادی ضروریاتِ زندگی کے لئے یہ 50سال پہلے ترس رہے تھے، آج بھی سسک رہے ہیں بلکہ سچ یہ ہے کہ عام آدمی جتنا بے چین، بے قرار اور بے بس آج ہے پہلے کبھی نہ تھا۔ رہ گیا اپوزیشن کا پروپیگنڈہ تو اگر یہ شتر بے مہار مہنگائی صرف پروپیگنڈہ ہی ہے تو حکومت کے لئے صرف دعا ہی کی جا سکتی ہے۔’’مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا‘‘دوسرا زبان زدِعام موضوع مریم نواز پر امین گنڈا پور کا وہ تبصرہ ہے جسے لکھنے سے میرا قلم مجھ سے روٹھ جائے گا۔ میں اس کی بھرپور مذمت کر چکا ہوں لیکن ایک خوشی یہ ہے کہ دم توڑتی ہوئی اخلاقیات والے اس معاشرہ میں ابھی دم موجود ہے کیونکہ لوگوں نے اس پر شدید ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ اس افسوسناک صورتحال کا اک اور پہلو بھی ہے اور وہ یہ کہ اس بدزبانی، بدکلامی اور بے لگامی کا موجد خود شریف خاندان ہے۔ بیشمار لوگوں کو اچھی طرح یاد ہو گا کہ یہ لوگ بیگم نصرت بھٹو مرحومہ اور محترمہ بے نظیر بھٹو کو کیسے کیسے سکینڈلائز کرتے رہے اور ان دونوں کے بارے کیسی ’’عمدہ و پاکیزہ‘‘ زبان استعمال کرتے رہے۔ آج جو کچھ ہو رہا ہے، شاید اسے ہی مکافات عمل کہتے ہیں۔ ان لوگوں نے زہریلے کانٹوں کی جو فصل کاشت کی تھی، اس کی کٹائی کا موسم شروع ہے تو کوئی کیا کر سکتا ہے۔ شاید ہمارے نصیب میں ہی نہیں کہ کوئی ایسا شخص آئے جو مکروہات کا یہ سلسلہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند کر دے۔ ریاست مدینہ کا خواب دیکھنے والوں کو یہ کبھی نہیں بھولنا چاہئے کہ فتح مکہ کے ادب آداب اور اصول کیا تھے؟ کیا ضروری ہے کہ اس معاشرہ میں ’’خباثت و نجاست‘‘ کا مقابلہ ہی جاری رہے۔ ’’مقابلہ‘‘ اور ’’خواہش غلبہ‘‘ انسانی فطرت ہے تو یہ مقابلہ شر کی بجائے خیر کے میدان میں کیوں نہیں ہو سکتا؟اورنج ٹرین کا پنگا لیا گیا تو میں واحد آدمی تھا جس نے ڈٹ کر مخالفت کی کہ یہ مالی حوالوں سے بھی وائے ایبل نہیں اور دیگر حوالوں سے بھی پری میچور ہے اور فی الوقت اسے ترجیحات میں شامل کرنا واہیات حرکت ہے۔ اب اس حوالہ سے جو خبریں آ رہی ہیں، کافی مایوس کن ہیں۔ فارغ، ویلے، نکمے، لفنگے تلنگے اسے تماشا بنائے ہوئے ہیں۔ چلتی ٹرین میں گینگ وارز ہو رہی ہیں، لفٹوں پر جھولے لینے کے چکر میں ان کا ستیاناس کیا جا رہا ہے، جیب کتروں کی چاندی علیحدہ….. اصل بات 6مہینے سال بعد کریں گے جب احمقوں کو بھی پتہ چل جائے گا کہ کس بھائو بک رہی ہے۔ ساڑھے تین کروڑ بچہ سکولوں کے باہر برباد ہو رہا ہے اور یہاں اورنج ٹرینیں چل رہی ہیں تو میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ لعنت ہو ایسی ترجیحات پر۔ سچ کہا تھا کسی نے کہ سفلے سیاستدانوں کی نظریں اگلے انتخابات پر ہوتی ہیں جبکہ مدبروں کی نظریں اگلی نسلوں پر ہوتی ہیں لیکن اس ملک کی گردن پر تو ہمیشہ وہ ہی مسلط ہوتے ہیں جو اپنی ناک سے آگے بھی نہیں دیکھ سکتے۔بھیانک ترین تضاد ملاحظہ ہو کہ مزار قائد کی بے حرمتی پر تو آہ و فغاں جاری ہے جو درست بھی ہے لیکن پورے ملک میں مَیں نے ایک آواز بھی ایسی نہیں سنی جو ہمیں اس طرف بھی متوجہ کر سکے کہ وہ کون سا سرکاری دفتر ہے جہاں قائد اعظم کی تصویر کے سائے میں حرام خوری اور کام چوری پورے زور و شور سے جاری نہیں اور کوئی ’’تبدیلی‘‘ آئی بھی تو صرف اتنی کہ رشوت کے ریٹ اور راشیوں کے پیٹ مزید بڑھ گئے۔سپر پاور کا سپر جوکر ڈونلڈ ٹرمپ اس مظلوم دنیا کی جان چھوڑ گیا جس پر میں ایک بار پھر امریکنوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں جنہوں نے چند سال پہلے سپر قسم کی جھک ماری لیکن پھر پہلا موقع ملتے ہی اس غلطی کا ازالہ کر دیا۔ زندہ قوم صرف وہی ہوتی ہے جو غلطی کر بیٹھے تو بروقت اسے محسوس بھی کر لے کہ مومنوں کی نشانیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مومن ایک سوراخ سے دوسری بار نہیں ڈسا جاتا جبکہ کچھ لوگ سوراخوں سے اٹھتے ہی نہیں کیونکہ انہیں ڈنگ مروانے کی لت لگ جاتی ہے اور یہ متھ نہیں، کچھ لوگ واقعی سانپوں سے ڈسوانے کے نشے میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔آخر پہ ماموں بھانجاچوہدری شجاعت حسین بیمار ہیں، اللہ انہیں صحت کاملہ عطا فرمائے کہ ان جیسا دوسرا ہماری سیاست میں کوئی نہیں کہ آپ کا تعلق نوابزادہ نصراللہ اور ملک معراج خالد کی کلاس سے ہے۔ شرافت، نجابت، واضعداری، تحمل، توازن کے ساتھ وہ دانش بھی جو دنیائے سیاست سے رخصت ہو چکی اور یاد رہے کہ نری ذہانت تو دھوکہ دے سکتی ہے، دانش ہمیشہ مثبت، تعمیری اور ہمدردہوتی ہے۔ رہ گیا مونس الٰہی تو وزیراعظمی کھانے پر نہ جانے والی اس کی ٹویٹ پر اسے مبارکباد بھی اور داد بھی۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *