ٹرمپ ازم نہیں ہارا!

امریکہ کے الیکشن کے نتائج سامنے آ چکے ہیں اور اب ٹرمپ ہار گیا ہے اور جوبائیڈن جیت گیا ہے۔ امریکہ کے بڑے بڑے شہروں میں ٹرمپ کی ہار اور جوبائیڈن کی جیت پر جشن دیکھا گیا ہے اور دنیا کے بیشتر ممالک بالخصوص یورپ کی لیڈر شپ نے بھی ایک سکون کا سانس لیا ہے۔ وائٹ ہاؤس میں اب ایک ایسا شخص ہو گا جس کو لوگ جانتے بھی ہیں اور وہ کسی چیز میں ہارڈ لائن بھی نہیں لیتا۔ بالخصوص جوبائیڈن ٹرمپ کی طرح ایک مخصوص قسم کی تفرقہ انگیز سیاست مقامی اور بین الاقوامی طور پر بھی نہیں کرتا۔ جوبائیڈن نے یہ بھی کہا کہ وہ اپنے دورِ اقتدار میں ٹرمپ دور کی نسل پرستی اور تفریق کو ختم کرنے کی کوشش کرے گا۔

ڈونلڈ ٹرمپ کا 2016میں ہر ایک کی توقعات کے برعکس الیکشن جیتنے کا مطلب ایک شخص کا الیکشن جیتنا نہیں تھا بلکہ ایک سوچ کا الیکشن جیتنا تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت سے پہلے دیکھا گیا کہ دنیا میں شدید دائیں ہاتھ کی سوچ کو مقبولیت مل رہی تھی، اِس سلسلے کا آغاز ایک طرح سے ڈونلڈ ٹرمپ کی الیکشن مہم سے ہوا تھا۔ ٹرمپ سے پہلے دنیا میں کچھ لبرل اقدار معاشرے میں اہم ہو گئی تھیں۔ مذہب، نسل اور تفریق پر منفی بات نہ کرنا اُن میں سرِفہرست تھی لیکن دیکھا گیا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے وہ ساری باتیں کرنا شروع کر دیں جو اُن اقدار کے خلاف بھی تھیں اور جو امریکہ کے بہت سے لوگ شاید عید چھپ کر سوچ رہے تھے لیکن بول نہیں رہے تھے۔ ٹرمپ نے اُس منفی سوچ کو تقویت دی۔ معاشرے کے اصولوں اور قواعد نے جس منفی سوچ کو دبایا ہوا تھا، وہ تیزی سے اُبھر کر سامنے آنے لگی اور قوم پرستی، نسل پرستی اور دوسری قوموں کے لوگوں کے خلاف نفرت پھیلنا شروع ہو گئی اور یہ پاپولزم صرف امریکہ تک محدود نہیں رہا بلکہ یورپ سے لے کر اب انڈیا تک بھی چلا گیا گو کہ یورپ میں اس کو اب کچھ حد تک کنٹرول کیا گیاہے۔

اب امریکہ اور اُس سے باہر بھی لوگ یہ اُمید کر رہے ہیں کہ شاید یہ ٹرمپ ازم ٹرمپ کے ساتھ ختم ہو گیا ہو اور دنیا اور اُس کے باسی کورونا وائرس کے نیو نارمل سے اُس پرآنے والے نارمل کی طرف جانا شروع ہو جائیں۔ بعض تجزیہ کار بھی کہہ رہے ہیں کہ 2016میں امریکی عوام سے جو غلطی ہوئی وہ 2020میں درست ہو گئی ہے۔ اگر الیکشن کے نتائج دیکھے جائیں تو ایک بات واضح ہے کہ ٹرمپ اب بھی مقبول ہے۔ ٹرمپ الیکشن ہارا تو ضرور ہے لیکن اُس نے جو بائیڈن سے صرف چند ہی فیصد کم ووٹ لئے ہیں، اِس کا مطلب یہ ہے کہ امریکی عوام کے ایک بہت بڑے حصے میں ابھی بھی اُس کی سوچ، جو الیکشن سے چند ماہ پہلے ہی سے زیادہ تفریق اور نفرت انگیز ہو گئی تھی، مقبول ہے۔ پھر یہ بات بھی نہیں بھولی جا سکتی کہ ٹرمپ نے صدارت تو ہاری ہے لیکن اُس کی پارٹی یعنی ری پبلکن پارٹی نے الیکشن میں بہتر کارکردگی دکھائی ہے۔ ری پبلکن پارٹی ہاؤس آف ری پریزنٹیٹوز(جو امریکہ کی قومی اسمبلی ہے) میں اقلیت میں ہی رہی ہو لیکن اُس نے اپنی سیٹیں بڑھائی ہیں۔ سینیٹ کا کنٹرول بھی لگ رہا ہے کہ برقرار رکھا ہے اور امریکہ کی پچاس ریاستوں کی مقامی قانون ساز اسمبلیوں میں بھی زیادہ تر ریاستوں میں اکثریت حاصل کی ہے۔ اگرچہ امریکی عوام نے ٹرمپ کو رَد کیا ہے لیکن اُس کی سوچ اور اُس کی پارٹی کو رَد نہیں کیا۔ ٹرمپ کے ہارنے کی وجوہات میں اُس کی نظریاتی سوچ نہیں بلکہ کورونا وائرس کیخلاف ناکامی اور معیشت کی بدحالی کا بھی کردار ہو سکتا ہے لیکن یہ کہنا مشکل ہو گیا ہے کہ اُس کے ہارنے کی وجہ ٹرمپ ازم ہے۔

یہ عجیب ماجرا ہے کہ ری پبلکن پارٹی کی کارکردگی بہتر ہوئی ہے تو وہ بھی ٹرمپ کی وجہ سے ہوئی ہے اور اگر ٹرمپ ہارا ہے تو وہ بھی اپنی ہی وجہ سے ہارا ہے لیکن ری پبلکن پارٹی کو یہ پیغام مل گیا ہے کہ ٹرمپ جس طرح کی سیاست کر رہا تھا اُس سے اُن کو فائدہ ہوا ہے اور اِن الیکشنز کے نتائج کے بعد تو وہ ٹرمپ ازم پر ہی قائم رہنے کو بہترین اسٹریٹجی سمجھیں گے۔ امریکہ ایک بہت سخت تفریق کا شکار ہو چکا ہے جس کو بنانے میں ڈونلڈ ٹرمپ کا سب سے اہم کردار رہا ہے۔ یہ تفریق عوام، میڈیا سیاست اور معاشرے میں پھیل چکی ہے۔ اب یہ جو بائیڈن پر ہے کہ وہ اِس تفریق کو کم کیسے کرتا ہے اور ڈیلیور کیسے کرتا ہے۔ اگر جوبائیڈن کی کارکردگی سہی نہ رہی اور وہ اِس بڑھتی ہوئی تفریق کو کم نہ کر سکا تو ٹرمپ ازم مزید بڑھے گا اور سیاست میں تو کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ ایک دفعہ ہی امریکہ کا صدر بنا ہے اگر وہ چاہے تو اگلا الیکشن بھی لڑ سکتا ہے۔ اِس کے امکانات کم ہیں لیکن یہ ہو سکتا ہے۔ بہر حال ایک بات بالکل واضح ہے کہ ٹرمپ تو شاید چلا جائے گا لیکن ٹرمپ ازم نہ ہی گیا ہے اور نہ ہی جا رہا ہے۔


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *