حکم ﷲ کا، قانون قرآن کا، رستہ رسولؐ کا

مجھے 80 کی دہائی کے وسط میں قومی ترانہ کے خالق اور خوب صورت شاعر حفیظ جالندھری مرحوم و مغفور کے گھر واقعہ ماڈل ٹائون میں بطور کرایہ دار رہنے کا اعزاز حاصل ہے۔ پرانی طرز کا انتہائی آرٹسٹک وسیع و عریض گھر تھا جس کے بیک یارڈ میں بہت بڑا فوارہ بھی تھا۔ خوبصورت لان میں کھجور کے اتنے لمبے درخت کہ طوالت دیکھنے کی خواہش میں دستار گر جائے۔ مین ہائوس میں ہم تھے، انیکس میں ان کی اہلیہ اور ایک صاحبزادی رہتی تھیں۔

اتنے برسوں بعد آج یہ گھر اپنے عظیم مرحوم مکین کی وجہ سے یاد آیا۔ حفیظ جالندھری صاحب نے کبھی لکھا تھا۔

دیکھا جو کھا کے تیر کمیں گاہ کی طرف

اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی

اب کوئی پوچھے کہ یہ شعر کیوں یاد آیا تو اس کی وجہ کوئی دوست نہیں، میرا منہ بولا چھوٹا بھائی آصف عفان ہے جو ’’ابھرتا ہوا‘‘ نہیں، پوری طرح ابھر چکا کالم نگار ہے۔ آصف عفان کی دوسری بلکہ پہلی شناخت یہ ہے کہ عباس اطہر المعروف شاہ جی اسے پیار سے آصف طوفان کہا کرتے تھے۔ گزشتہ چند سالوں میں صحافت کے آسمان پر دو روشن ستارے طلوع ہوئے۔ ایک ارشاد بھٹی دوسرا آصف عفان اور عجب اتفاق کہ دونوں سے صرف جان پہچان ہی نہیں، دونوں ہی میری جند جان ہیں۔ ارشاد بھٹی نے آج تک کبھی ’’بے وفائی‘‘ نہیں کی کہ ’’پینڈئوں‘‘ میں ادب آداب کا بہت خیال رکھا جاتا ہے لیکن آصف عفان نے ایسا زہریلا خنجر گھونپا ہے جس کا میں نے کبھی تصور تک نہ کیا تھا یعنی

دیکھا جو کھا کے تیر کمیں گاہ کی طرف

اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی

دوست بھی کیا یہ تو بھائی تھا جس نے برادران یوسف کی یاد تازہ کردی اور مجھے مرتا ہوا بری طرح گھائل سیزر یاد آگیا جس نے مرتے ہوئے یہ امر ہو جانے والا جملہ بولا ……

’’یو ٹو بروٹس‘‘

زخم لگانا نہیں، زخم کریدنا اور اس پر نمک چھڑکنا بدترین بے رحمی ہے۔ آصف عفان نے اپنے تازہ ترین کالم میں لکھا جس کا عنوان تھا ’’گمشدہ منشور‘‘۔ لکھتے ہیں۔

’’تحریک انصاف کے قیام کے اوائل میں برادرم حسن نثار کی تخلیق اور فخریہ منشور بھی یاد کرواتا چلوں جسے تحریک انصاف نے بڑی کوشش اور جدوجہد کے بعد خود ہی کہیں گم کردیا یعنی ……’’حکم ﷲ کا، قانون قرآن کا، اور رستہ رسولؐ کا‘‘۔ انصاف سرکار اپنا چوبیس سال پرانا یہ سلوگن کہیں سے بازیاب کر لائے تو شاید کسی بیرونی ماڈل کی ضرورت ہی پیش نہ آئے‘‘۔

بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی اور جگ ہنسائی کی، لیکن اس نے میرے زخم ہی نہیں کریدے، ان پر نمک ہی نہیں مرچیں بھی چھڑک دی ہیں اور نتیجہ یہ کہ ’’پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں‘‘ اور عوام جھولیاں اٹھا اٹھا بھوک میں بھیگی بددعائیں دے رہے ہیں۔

کبھی ریاست مدینہ

کبھی چین کا ماڈل

کبھی ملائشیا کی نقالی

کل کچھ اور نکال لائیں گے تو میں اس ’’تبدیلی کنفیوژن‘‘ کا کیا بگاڑ لوں گا سوائے اس کے کہ جیسے کئی سال ’’تیسری قوت‘‘ کی تلاش میں برباد کئے…. اب کسی ’’چوتھی قوت‘‘ کی تلاش کے لئے کمر کس لوں لیکن کیا کروں کہ اب عمر اس کی اجازت نہیں دیتی۔ عمر بیکار کے بڑے نوٹ خرچ ہو چکے اور اب صرف تھوڑی سی ’’ریز گاری‘‘ باقی ہے۔ جو میں نے 22،24 برس پہلے لکھا وہ کوئی کمال نہیں، عالم اسلام کے زوال کا دکھ اور معمولی سا تاریخی شعور تھا کہ اس کے علاوہ آپشن ہی کوئی نہیں۔ جو مرضی آزما لو۔

’’حکم ﷲ کا

قانون قرآن کا

رستہ رسولؐ کا‘‘

گنہگار سے گنہگار مسلمان بھی چاہتا یہی کچھ ہے۔ میرا قصور صرف اتنا تھا کہ کن لوگوں کو کیا پیش کربیٹھا؟ لیکن اس وقت جو تھے شاید بہتر تھے لیکن پھر تو فارچون ہنٹرز، موقع پرستوں، وارداتیوں کا سیلاب آیا جو سب کچھ بہا کر لے گیا اور آج کبھی ریاست مدینہ، کبھی ملائشیا ماڈل، کبھی چین کی خوشہ چینی، تو بدنصیبو!بھٹکتے رہو، در در پھرو، ٹھوکریں کھائو کہ شاید یہی تمہارا مقدر ہے ورنہ یکسو ہو کر دکھائو۔

ان کی عقلوں، شکلوں، حرکتوں، سوچوں، عملوں پر رونا آتا ہے جو بدترین کنفیوژن کا شکار ہیں حالانکہ اقبال بہت پہلے کہہ گئے۔

وفاداری بشرط استواری اصل ایماں ہے

مرے بت خانے میں تو کعبہ میں گاڑو برہمن کو

اقتصادیات تو اقتدار سے باہر بیٹھ کر درست کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لیکن ان تین سطروں پر سوچ بچار کرلیتے تو اب تک بہت کچھ ہو چکا ہوتا لیکن ’’ہوم ورک‘‘ صرف ذمہ دار طلبا کا کام ہے۔ اس بات کی وضاحت بھی کی تھی کہ تحریک انصاف کیا ہے اور وہ یوں تھی۔

’’اقتصادی انصاف سے عدالتی انصاف تک‘‘

عدالتی ریفارمز سے تھانہ کلچر میں ’’تبدیلی‘‘ پر ہی سنجیدہ کام کرلیا ہوتا تو شاید اب تک لوگ نتائج پر اش اش کر رہے ہوتے اور منہ زور مہنگائی بھی ہنسی خوشی برداشت کرلیتے۔ اس طرح زرعی اور صنعتی ریفارمز پر فوکس کیا ہوتا تو آج فصل سر اٹھا چکی ہوتی۔ صرف زرعی نظام کی گہرائی میں اترے ہوتے تو اس بات سے آشنا ہوتے کہ حضرت عمرؓ بن خطاب نے ’’زمین‘‘ کو ’’مال غنیمت‘‘ نہیں ’’مال فے‘‘ قرار دیا تھا لیکن افسوس کسی شعبے کی سمت کا تعین تک نہ ہوسکا۔

ثُمَّ جَعَلْنٰكُمْ خَلٰىِٕفَ فِي الْاَرْضِ مِنْۢ بَعْدِهِمْ لِنَنْظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُوْنَ (یونس:|14)

’’پھر ہم نے تمہیں زمین میں خلیفہ بنایا تاکہ دیکھیں تم کیسے عمل کرتے ہو‘‘

مَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَ ۚ (النسا80:)

’’اور جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے دراصل ﷲ کی اطاعت کی‘‘

وَتِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰه ِ ۭ وَلِلْكٰفِرِيْنَ عَذَابٌ اَلِيْمٌ (المجادلہ 4:)

….. یہ ﷲ کی حدیں ہیں، اور پابندی سے انکار کرنے والوں کے لئے درد ناک عذاب ہے‘‘۔

يَقُوْلُوْنَ ھَلْ لَّنَا مِنَ الْاَمْرِ مِنْ شَيْءٍ ۭ قُلْ اِنَّ الْاَمْرَ كُلَّهٗ لِلّٰهِ ۭ (آل عمران154:)

’’وہ کہتے ہیں ہمارا بھی کچھ اختیار ہے؟ کہو، اختیار سارا کا سارا ﷲ ہی کا ہے‘‘۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *