جس بات کا ڈر تھا…

جس بات کا ڈر تھا‘ وہ بات بالآخر ہو کر رہی۔ میں وہ آخری ہوں گا جو پاک فوج کے خلاف کسی افترا طرازی کا حصہ بننا چاہوں۔ گوجرانوالہ کے جلسے کو بھی میں سیاست کے اکھاڑے کا ایک شاندار مظاہرہ سمجھ رہا تھا۔ مگر بات آگے بڑھ گئی ہے اس کی وجہ کون ہے نواز شریف پر الزام لگانا پھر ایک غلطی ہو گی وگرنہ سہل پسندی تو یقینی ہے۔ کنٹینر کا سودا اس قدر سر پر سوار تھا کہ آج بھی منہ پر ہاتھ پھیر کر اعلان ہو رہا ہے کہ ’بچو‘ تم سے نپٹوں گا۔یہ جمہوریت کے انداز نہیں ہیں اور جمہوریت کے سوا پاکستان کے پاس کوئی راستہ نہیں ہے۔ میں تو گزشتہ چھ سات ماہ سے بااثر حلقوں کو اس بات سے آگاہ کرتا آیا ہوں کہ فضا بدل رہی ہے، بالخصوص وسطی پنجاب کا دیہاتی بھی اب ایک مختلف مائنڈ سیٹ اختیارکرتا جا رہا ہے۔ خدا کے لئے پاکستان کو ایسی کسی نازک صورت حال سے بچا لیجیے۔لگتا ہے کہ حکمرانی کا زعم سب کچھ نظرانداز کرا دیتا ہے۔ آپ کسی شخص کو دیوار سے لگاتے جائیں تو اس کا ردعمل یقینی ہوتا ہے‘صرف ایک صورت ممکن ہے کہ وہ شخص مردہ ہو اور ایک لاش ہو۔ہر جگہ افہام و تفہیم سے کام چل رہا تھا۔
چلیے ڈیل تھی تو اسے سلامت رکھتے۔ یہ کیا اچانک مقدمے بازی شروع کر دی۔ اسے اشتہاری قرار دے کر اخبارات میں اشتہار چھپوانے کا اعلان کر دیا۔ سرکاری خزانے سے تنخواہ پانے والے غیر منتخب مشیروں نے آسمان سر پر اٹھا لیا کہ ان کی تو نوکری ہی یہی ہے۔ یہی نتیجہ نکلا۔ جب ایک شخص دیوار سے لگا دیا جائے تو وہ کیا کرتا ہے جب کہ وہ ایک طویل عرصے تک خاموش بھی رہا ہو۔ آپ کے بیانیے کے مطابق اس لئے خاموش تھا کہ یہ ڈیل کا حصہ ہے۔ ایسا ہے تو پھر بہتری اسی میں تھی کہ اسے خاموش لکھا جاتا۔اس کی جو قیمت بھی آپ نے دی تھی۔ اسے چلنے دیتے۔شاید مگر ایسا نہ تھا اور ایسا نہ ہو۔
یہ ہنڈیا اب عین چوراہے میںپھوٹ گئی ہے ،میں نے دیکھا ہے مسلم لیگ ن والے اس پرمعذرت خواہ نہیں ہیں۔کسی نے تو یہ تک کہا کسی فرد سے اختلاف کا اظہار کرنا کسی ادارے کے خلاف بات کرنا نہیں ہوا کرتا حالانکہ اب تک عام تصور یہ تھا کہ آپ سب باتیں کر لیں مگر کم از کم آرمی چیف تک نہ جائیں۔یہ تو سارا بیانیہ ہی بدل گیا ہے۔
اب یہاں دوسرا سوال یہ ہے کہ نواز شریف یہاں تک کیوں پہنچے جب صاف دکھائی دے رہا ہو کہ وہ اپنی کشتیاں جلا رہے ہیں۔ سامنے کوئی ’’سرزمین ہسپانیہ‘‘ بھی دکھائی نہیں دیتی جسے مسخر کیا جا سکے۔یہ سب کیا ہے۔میرا سارا انحصار حکومتی ذرائع پر ہے۔ ایک ذریعے نے جب دوسرے روز ہی یہ کہا کہ پہلے تو اداروں کو حکومت سے لڑایا جاتا تھا‘ اب تو اداروں کے اندر بلکہ ادارے کے اندر لڑائی پیدا کی جا رہی ہے۔ میں نے اسی وقت کہا تھا بیوقوف آدمی کیا کہنا چاہتا ہے۔ اس فقرے کے جتنے معانی ہیں ایک آدھ کو چھوڑ کر سب خطرناک ہیں۔کیا ادارے کے اندر مختلف اداروںمیں اختلاف ہے یا گروہ بندی ہے۔ لاحول ولاقوۃ۔ یہ صاحب کیا کہہ رہے ہیں۔ میں نے اسی وقت دستیاب ذرائع سے صاف لفظوں میں کہا تھا کہ خدا کے لئے اس بیانیے سے اجتناب کیا جائے۔یہ احمقانہ بیانیہ ہے۔ پھر کسی نے کہا کہ عالمی سازش ہے۔ یہ بھی خطرناک بات ہے۔ کسی نے اسے اسلامی ممالک کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کہا۔ان دنوں سعودی عرب سے ہمارے کچھ معاملات تھے۔شاید کوئی ان کا نمائندہ ویسے ہی لندن میں ہمارے سابق وزیر اعظم سے ملا تھا۔ عالمی سطح پر بہت کچھ ہوتا ہے اور اگر کوئی عالمی طاقتیں اس کام میں مصروف ہیں تو یقینا یہ ملک کی صورت حال کے لئے تشویشناک ہے۔ اچانک اسے انڈیا کا ایجنڈا قرار دے دیا گیا۔اگرچہ بھارت کے بارے میں نرم گوشہ کا پروپیگنڈہ بہت پرانا ہے مگر یہ چلنے والا نہیں ہوا کرتا۔
کوئی عقل کی بات نہیں کی گئی اور اب الٹا ٹائیگر فورس کے اجلاس میں جو رویہ اختیار کیا گیا وہ معاملات کو مزید بگاڑنے والا ہے۔ آج جب میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں کراچی کا جلسہ ابھی شروع نہیں ہوا مجھے نہیں اندازہ کراچی کے بعد کوئٹہ پشاور سے ہوتا ہوا جب یہ طوفان لاہور پہنچے گا تو اس کی صورت حال کیا ہو گی۔ کیا اس سارے معاملے کو عقل مندی سے نپٹایا جائے گا یا پھر مزید آگ بھڑکائی جائے گی۔ میں اب بھی کہتا ہوں جو ہوا اچھا نہیں ہوا مگر مزید کچھ ہونے سے ملک کو بچایا جائے۔ آپ اگر نواز شریف کو سیاسی طور پر ختم
بھی کر دیتے ہیں تو یہ عارضی ہو گا۔ مرے سامنے ترکی‘انڈونیشیا اور چند دوسرے ممالک کی مثالیں ہیں۔ خدا کے لئے ملک کو مزید تباہی سے بچا لیجیے۔ ان کی مچان پر بیٹھ کر یہ شکار نہیں ہو سکتا۔ کچھ اورکرنا پڑے گا۔ میں واپس لائوں گا‘ جیل میں ڈالوں گا اور جیل بھی ایسی کہ یاد کرو گے میں اب مختلف طرح کا وزیر اعظم ہوں۔یہ آپ کسی سے ہمدردی نہیں کر رہے‘ خود اپنے سے بھی نہیں۔ خدا کے لئے بات کو سمجھیے۔ان اداروں کو بھی مشکل میں نہ ڈالئے جو کھلم کھلا حکومت کے مددگار ہیں۔ مریم نواز نے ایک بڑا بامعنی فقرہ کہا ہے کہ ورق پلٹتے دیر نہیں لگتی۔ ایک ہی صفحے پر ہونے کے بیانئے پر یہ بہت نازک تبصرہ ہے۔


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *