سرکاری کرپشن تا غیر سرکاری کاروبار

جتنی چاہو ڈنڈ بیٹھکیں لگالو ۔جب تک ننگے، ناقابل تردید تضادات پر توجہ نہیں دو گے، یہ ملک بھمبل بھوسے اور دلدل سے نہیں نکلے گا۔صرف دو حماقتوں کی نشاندہی پر اکتفا کروں گا۔پہلی یہ کہ کبھی اختیارات VSتنخواہوں پر غور کرو۔ایک ایس ایچ او کے اختیارات دیکھو پھر اس کی تنخواہ دیکھو۔میاں بیوی، 3بچے،بوڑھے والدین میں سے صرف ایک حیات۔کنبہ ہو گیا 6افراد کا اور تنخواہ ؟؟؟یہ SHOمع اہل وعیال اگر زندہ ہے تو کرپٹ ہے، زندہ معجزہ ہے یا کھاتے پیتے گھرانے کا چشم وچراغ ہے تو سراغ لگائو، ایسا ایک فیصد بھی نہیں جبکہ اوپر سے نیچے تک تقریباً یہی بدصورت حال ہے ۔یہ تو ہو گئے سرکاری ملازمین جنہیں خودسرکار کرپشن پر مجبور کرتی ہے ۔اب چلتے ہیں بزنس کمیونٹی کی طرف جسے ’’چور‘‘ اور ’’مافیا‘‘ کہنے کا مرض بہت عام ہے ۔کبھی غور کرو کہ جس کاروبار پر جتنا ٹیکس بنتا ہے، اس سے کئی گنا زیادہ تو سرکاری بھیڑیے لے جاتے ہیں جس کا تازہ ترین ثبوت وہ ایکسائز انسپکٹر ہے جس کے صرف گھر سے 35کروڑ روپیہ نقد برآمد ہوا تو بھلے مانسو! ہر جگہ یہی حال ہے تو اگر بزنس کمیونٹی ٹیکس میں ڈنڈی نہ مارے تو سروائیو کیسے کرے؟ سرکار نے ٹیکس بھی لینا ہے اور جگا ٹیکس روکنے کی ہمت بھی نہیں۔ چلو جگا ٹیکس بھی ٹھیک ہے لیکن ’’سرکاری جگے‘‘ تو ختم ہی نہیں ہوتے۔ بھیڑیوں کے غول

ہیں جو بزنس کمیونٹی کو بھنبھوڑتے رہتے ہیں اور سچ پوچھو تو یہی اس ملک کی اصل اکانومی ہے۔سرکار بھوکی ننگی اور سرکاری ملازم کروڑ پتی تا ارب پتی۔پٹواری تک تو تین تین پتنیاں رکھتے ہیں سو اپنے فلسفے اور ٹاسک فورسز اپنے پاس رکھو، پہلے ان بھیانک تضادات پر غور کرو ورنہ ’’اگا دوڑتے پچھا چوڑ‘‘ رہے گا۔’’چینی چور‘‘ اور ’’شوگر مافیا‘‘ آج کل بہت مقبول ہے جبکہ اس پر بات کرنے والوں کو اس بیر کی الف بے کا بھی علم نہیں ۔کہتے ہیں شوگر ملیں کاشت کاروں کو ادائیگی نہیں کرتیں۔یہ سچ ہوتا تو گنے کی کاشت ہی ختم ہو گئی ہوتی ۔آج سے صرف 3سال پہلے بہتر لاکھ ٹن چینی بنی۔پھر ن لیگی حکومت نے بروقت برآمد کی اجازت نہ دی تو گنے کی پیداوار میں کمی ہوئی۔یہ حقیقت ہے کہ شوگر ملیں 15دن میں ساری ادائیگی نہیں کرتیں جس کی وجہ یہ ہے کہ چینی بنتی تو 100سے 110دن میں لیکن بکتی ہے 365دنوں میں۔15دن میں ادائیگی کا قانون تب بنا تھا جب حکومت خود چینی خریدتی تھی۔دوسرا الزام یہ کہ ملیں ناجائز کٹوتی لگاتی ہیں تو بھائی ! وہ یہ کٹوتی قانون کے مطابق کرتی ہیں اور اگر گنا صاف شفاف جبکہ ورائٹی حکومت کی طرف سے منظور شدہ ہو تو کوئی کٹوتی نہیں ہوتی۔کاشتکار غیر منظور شدہ ورائٹی لے آئے تو ملیں انکار کرتی ہیں تو کاشت کار منت ترلا کرکے خود کٹوتی کرواتا ہے۔پھر کہتے ہیں کہ ملوں کے باہر ٹرالیوں کی قطاریں کیوں لگتی ہیں؟ تو اگر ایک مل 24گھنٹے میں 600ٹرالی گنا استعمال کرتی ہے، دوسری 1200 ٹرالی گنا پراسیس کرتی ہے تو 600ٹرالی، 1200ٹرالی کی قطار کلو میٹرز میں نہ ہو گی تو کیا ہوگا؟ جیسے کرکٹ اسٹیڈیم میں داخلہ کیلئے تماشائیوں کی لائن، ملیں تو تازہ سے تازہ گنا کرش کرنا چاہتی ہیں تاکہ زیادہ چینی حاصل ہو۔کسان اتنا بھولا نہیں جتنا سمجھا جاتا ہے تو دوسری طرف حکومت کے الزامات، اقدامات مثلاً سٹرکہ چینی اگلے ایک دو مہینے کیلئے بیچ دی جاتی ہے، دوم ملیں ذخیرہ کرتی ہیں، بے نامی چینی فروخت کی جاتی ہے، امدادی قیمت سے کم پر گنا خریدا جاتا ہے یا ملوں کی پیداواری صلاحیت بغیر حکومتی اجازت بڑھائی جاتی ہے وغیرہ وغیرہ تو بھلے مانسو! ہر کاروبار میں صنعتی ادارے ایک دن سے ایک سال تک کا مال پیشگی ہی بیچتے ہیں جو کسی ملک میں بھی غیر قانونی نہیں بلکہ ان ایڈوانس سودوں سے صنعت کار، کاشت کار دونوں کا تحفظ ہوتا ہےکراچی COMMODITY EXCHANGE میں بے شمار چیزوں اور اجناس کا کام بیعانے پر ہوتا ہے۔حکومت جسے ’’ذخیرہ اندوزی‘‘ کہتی ہے وہ اس کاروبار کا خاصا ہے ۔چینی بنتی 100سے 110 دن میں ہے لیکن بکتی سارا سال ہے جو ظاہر ہے ملوں کے گوداموں میں ہوتی ہے جسے ذخیرہ اندوزی کہنا پرلے درجہ کی جہالت ہے ۔اسی سال کا لطیفہ سن لیں جب حکومتی اہلکار جون میں ملوں پر ’’حملہ آور‘‘ ہوئے تو بولے آپ لوگوں نے چینی ذخیرہ کی ہوئی ہے تو مل مالکان نے بتایا کہ حضور !نیا سیزن شروع ہونے پر چینی روزانہ کی بنیاد پر بکتی ہے تو پہلے بولے چینی جلد بیچیں اور جب ملک میں چینی کی کمی کے سبب ستمبر میں ملوں نے چینی بیچی تو حکومتی اہلکار بولے آپ نے چینی کیوں بیچی ۔تب مل کے سٹاف نے کہا ’’کبھی آپ کہتے ہیں گودام میں کیوں پڑی ہے، جب بیچیں تو کہتے ہیں بیچی کیوں ہے ؟‘‘ اس پر شرمندہ ہو کر کھسیانی ہنسی ہنسنے لگے۔ قارئین !یہ تو حماقتوں کا ٹریلر سمجھیں، کالم پوری فلم کا متحمل نہیں ہو سکتا لیکن اگر کوئی ’’جواب آں غزل ‘‘ ہے تو ’’چوراہا‘‘ بھی حاضر ہے۔ عرض صرف اتنی ہے کہ جب تک اوپر سے نیچے اور دائیں سے بائیں ننگے، ناقابل تردید تضادات پر توجہ نہیں دی جاتی، کرپشن سے لیکر کاروبار تک کوئی کام نہیں سنبھلے گا اور کسی بھمبل بھوسے یا دلدل سے نجات نہیں ملے گی۔’’آئے گا اکبر خاناں کہہ دوں گا دلبر جاناں پخیررا غلے‘‘’’اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے‘‘۔


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *