ریاستِ مدینہ کی معیشت : تمام بحرانوں کا حل

گذشتہ صدی میں جس جدید سودی معیشت نے اپنے پنجے ایک عالمی مالیاتی نظام کے زبردستی نفاذ کے ذریعے گاڑے تھے، 2008ء سے ایک ایسے زوال کی سمت اپنے سفر کا آغاز کر چکی ہے، جس سے نجات کی راہ کسی کو نہیں سوجھ رہی۔ اٹھارویں صدی میں یورپ میں جو صنعتی انقلاب آیا، اس نے اخلاقیات سے تہی اور استحصال سے عبارت ایک جدید معاشی نظام کو جنم دیا۔ سرمائے میں اضافہ اور کاروبار کی وسعت ، دو ایسے اہداف ہیں جنہوں نے ہر لوٹ مار کو جائز قرار دے دیا۔ پہلی جنگ عظیم کی فتح کے بعد کے دس سال اس سودی معیشت کی ترقی کے سال تھے۔ بینکاروں نے جنگ کی ہولناکیوں کے دوران اسلحے کی تجارت کے لئے قرض دے کر بے پناہ سود کمایا ہوا تھا۔ یہ سودی سرمایہ جب مارکیٹ میں آیاتو 1920ء کے بعد کے دس سال ایسے محسوس ہوا جیسے خوشحالی کے دروازے کھل گئے ہوں۔ لیکن 1980ء میںجب یہ’’ مصنوعی معاشی‘‘ بلبلہ پھٹا تو دنیا انسانی تاریخ کی بد تریں کساد بازاری سے گذری، جسے ’’عظیم معاشی بحران‘‘ کہا جاتا ہے۔ یورپ جب بحران سے گذر رہا تھا تو اس کے پڑوس میں آباد کیمونسٹ روس کی معیشت ،دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہی تھی۔ کیمونسٹ روس کی معیشت کی ترقی کی صرف ایک وجہ تھی کہ وہاں ’’سود‘‘ موجود نہیںتھا ۔کیمونسٹ روس کے تجربے کے نتیجے میںامریکی سینٹر کارٹر گلاس اور کانگریس کے رکن ہینری بی سٹیگل نے بینکاری سے متعلق ایک ایکٹ پیش کیا، جس کا مقصد یہ تھا کہ کمرشل بینکوں کو سرمایہ کاری بینکاری سے علیحدہ کر دیا جائے۔ یہ بل 1933ء میں پاس ہوا۔ جس کے تحت سرمایہ کاری والے بینکوں اور سیکورٹی فرموں کے کھاتے داروں کو رقم لینے سے روک دیا گیا تاکہ عام آدمی یہاں تک کہ ریاست کا سرمایہ بھی سود کی تباہ کاریوں سے بچ سکے۔ یہ سودی نظام کی بہت بڑی شکست تھی، مگر دوسری جنگِ عظیم نے ایک بار پھر اس استحصالی سودی بینکاری اور معاشی نظام کو سہارا دے دیااور انہوں نے 1945ء میں ’’برٹن ووڈ‘‘معاہدے کے ذریعے پوری دنیا کو ایک ’’عالمی سودی مالیاتی نظام‘‘ میں جکڑلیا۔ پچاس سال تک یہ استحصالی نظام، جعلی کرنسی، حکومتی قرضوں، عالمی آزادانہ تجارت اور اخلاقیات سے عاری ’’کارپوریٹ کلچر‘‘ کے بل بوتے پر دنیا میں راج کر رہاتھا کہ 2008ء میں ایسا زوال شروع ہوا ہے کہ دنیا کی بڑی بڑی معیشتیں سٹپٹا کر رہ گئیں۔ ابھی تو اس معاشی نظام کا صرف ایک ہی بلبلہ پھٹا تھا، جسے ’’پراپرٹی کا بزنس‘‘ کہتے ہیں ۔ لیکن یورپ اور امریکہ کے ہر بڑے شہر میں لوگ اس نظام کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے، نیویارک کے مظاہرے میں کتے کے گلے میں انہوں نے اپناوہ نعرہ ’’We are 99%‘‘(ہم ننانوے فیصد ہیں) لکھ کر لٹکا دیا،جس کا مطلب تھا کہ ’’یہ نظام صرف ایک فیصد کے لئے ہے‘‘۔ سرمائے کا ارتکاز، ذخیرہ اندوزی، منافع خوری، ذرائع پیداوار پر قبضہ اور چھوٹے کاروبار کرنے والے سے لے کر عام صارف تک ہر چیز کا استحصال مسلسل جاری ہے۔ اس کی بدترین مثال پاکستان کا تازہ ترین معاشی بحران ہے، جو اشیا کی کمیابی اور قیمتوں کے دن بدن بڑھنے کی بنیادی علامتوں سے واضح ہو تا جا رہا ہے۔ گذشتہ ایک سال سے عمران خان صاحب کی تمام حکمت عملی (اگر کوئی ہے) تو وہ مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے اوراس’’ سودی مالیاتی کاروباری نظام‘‘ میں ان کے لئے ناکامی ہی ناکامی ہے۔ ’’ریاستِ مدینہ‘‘ کا بار بار ذکر کرنے والے عمران خان اگر ٹھنڈے دل سے اس معاشی نظام کا مطالعہ کرلیں تو راستہ روزِ روشن کی طرح واضح ہو جائے گا اور بحران سے نکلنے میں زیادہ وقت بھی نہیں لگے گا۔
ریاستِ مدینہ کی معیشت ، دراصل جدید دنیا کے لئے ایسے رہنما اصول مرتب کر گئی ہے کہ آج بھی دنیا کے لاتعداد معیشت دان انہی اصولوں کو ’’انسانی فلاح‘‘ کا ’’بنیادی راستہ‘‘تصور کرتے ہیں۔ یہ معیشت صرف بینکاری نظام کو تبدیل کرنے سے نہیں وجود میں آئے گی،بلکہ اسلام کی یہ جامع معیشت ایک ایسے بازار کے گرد گھومتی ہے ،جو سیدالانبیاء ﷺ نے بنیادی اسلامی اصولوں کے تحت مدینہ میں قائم کیا تھا اور جس نے مدینہ میں پہلے سے قائم یہودیوں کے چار بازاروں کو ویران کر کے رکھ دیا تھا۔ یہ کیسے ممکن ہوا۔ مدینہ کے انصار جو صدیوں سے وہاں رہتے چلے آئے تھے ، صرف کھیتی باڑی کرتے تھے اور کاروباری مارکیٹ پر یہودیوں کا کنٹرول تھا۔ رسول اکرم ﷺ کے ساتھ جو صحابہ کرام ؓمکّہ سے ہجرت کر کے آئے تھے ،وہ اسقدر مفلوک الحال تھے کہ مکّہ والوں نے ان سے تمام اثاثے چھین لئے تھے۔ اس کا اندازہ حضرت صہیب بن سنان ؓ کی ہجرت کے واقعے سے با آسانی ہوتا ہے۔ انہیں رسول اکرم ﷺ اور حضرت ابوبکر ؓ کے ہمراہ ہجرت کرنا تھی، لیکن مکّے والوں نے انہیں ہر طرف سے روکنے کی کوشش کی یہاں تک کہ بے شمار گڑھے کھود کر انہیں ڈھانپا گیا تاکہ جانے والے ان میں گر کر پھنس جائیں۔ رسول اکرم ﷺ اور حضرت ابو بکر ؓ تو ان سے بچتے ہوئے نکل گئے لیکن حضرت صہیب ؓ ان میں سے ایک میں گر گئے اور کئی دن تک اسی میں پڑے رہے۔ آخرکار حالات کو بہتر جان کر نکلے اور مدینہ کی سمت روانہ ہو گئے ۔مکّے والے ان کے قدموں کے نشان ڈھونڈتے ہوئے ان تک پہنچے اور ان سے کہا ، اے صہیب رومی، تم خالی ہاتھ مکّہ آئے تھے، ہماری سرزمین پر تم نے سرمایہ کمایا، عزت داروں میں شمار ہوئے اور اب تم وہ سارا مال لے کر یہاں سے بھاگ رہے ہو۔ حضرت صہیب ؓ نے انہیں وہ جگہ بتائی جہاں سرمایہ چھپا رکھا تھا، سرمایہ ان کے حوالے کیا اور بارگاۂ رسالتؐ کی جانب پروانہ وار سفر کا آغاز کر دیا۔ جیسے ہی وہ رسول اکرم ﷺ کی نظروں کے سامنے آئے آپؐ نے فرط مسرت سے فرمایا ’’صہیب تم نے قریشِ مکّہ سے منافع کا سودا کیا ہے‘‘(المستدرک علی الصحیحین الحاکم)۔ اللہ کی جانب سے وحی نازل ہوئی ، ’’لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو خدا کی رضا کے حصول کیلئے اپنی جانیں بیچ دیتے ہیں‘‘ (البقرہ:207)۔ کسمپرسی کا عالم مہاجرین پر غالب تھا اور انصار مدینہ زراعت کے پیشہ سے متعلق تھے اور کاروباری معیشت یہودیوں کے ہاتھ میں تھی۔ اس منظر نامے میں، اس وقت ’’اسلامی معیشت‘‘ کے پہلے اصول کی بنیاد رکھی گئی ،جسے ’’مواخات‘‘ کہتے ہیں۔ انصار نے اپنے کھجوروں کے باغات کو اپنے مہاجرین بھائیوں کے درمیان تقسیم کر دیا۔ زمین انصار کی تھی ، جس میں مہاجرین کی محنت کو حصہ دار بنایا گیا اور یوں دونوں فصل آدھی آدھی تقسیم کر لیتے۔ ریاست مدینہ کے ابتدائی سال اسی مواخات کے اصول میں گذرے، کہ پیداروارتو مسلمانوں کے پاس تھی لیکن مارکیٹ یہودیوں کے قبضے میںتھی ۔ یہودی اس قدر متکبر اور کینہ پرور تھے کہ مارکیٹ میںآنے والے مسلمانوں کا مذاق اڑاتے، ان کے عقائد کا ٹھٹھا کرتے ،یہاں تک کہ ایک دن ایک مسلمان عورت بنو قینقاع کی مارکیٹ میں سامان خریدنے یا بیچنے گئی تو ایک یہودی سنار نے اس برقع پوش کو برہنہ کر دیااوردیگر اس کے اردگرد قہقہہ لگا کر ہنسنے لگے۔ عورت چلائی تو ایک انصاری اس کی مدد کو آئے لیکن شہید کر دیئے گئے۔ یہ وہ دور تھا کہ مسلمان ابھی ابھی میدان بدر میں مشرکین کو شکست دے کر فتحیاب ہوئے تھے، لیکن اس کے باوجود یہودی اس قدر تکبر میں تھے کہ ایک دفعہ رسول اکرم ؐ یہودیوں کی ایک مارکیٹ میں گئے تو یہودیوں نے آپ ؐ کو مخاطب کر کے کہا، ’’ائے محمدؐ آپ اس فتح سے زیادہ خوش نہ ہوں، آپ نے ان سے لڑائی کی ہے جنہیں جنگ کا کچھ پتہ نہیں تھا۔ اگر انہوں نے ہم سے لڑائی کی ہوتی تو انہیں پتہ چل جاتا کہ ہم ہی وہ لوگ ہیں جن سے ڈرنا چاہیے‘‘۔(باقی آئندہ)


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *