وہ دن ہوا ہوئے کہ پسینہ گلاب تھا

کپتان کا سنہری دور ختم ہو چکا۔ وہ دن ہوا ہوئے کہ پسینہ گلاب تھا۔ اب ان کے لیے بہت تھوڑی سی مہلت باقی ہے کہ موزوں حکمتِ عملی کا تعین کر لیں یا پھسل کر گر پڑیں۔زمانہ کسی پہ مہرباں یا نا مہرباں نہیں ہوتا۔ ہر ایک کو وہی کاٹنا ہوتاہے، جو اس نے بویا ہو۔
اب دو محاذوں کا سامنا ہے۔زندگی اجیرن کرتی مہنگائی اوراپوزیشن کا بڑھتا ہوا دباؤ، جو 16اکتوبر کو گوجرانوالہ کے جلسہ ء عام میں متشکل ہوگا۔خان کے بارے میں حسنِ ظن بہت تھا لیکن تابہ کے؟ یہ احساس بھی تھا کہ پہلوں نے کرپشن کی اور قرض کے پہاڑ کھڑے کر دیے۔
حکومت کی تشکیل کے فوراً بعد وزیرِ اعظم نے White collar crime کے ایک بہت بڑے ماہر کو مدعو کیا کہ بیرونِ ملک پڑی دولت واپس لائی جائے۔ ان صاحب نے سمجھانے کی کوشش کی کہ اس طرح کے معاملات میں بہت طویل وقت رائیگاں ہوتاہے۔ کچھ زیادہ حاصل بھی نہیں ہوتا۔ وزیرِ اعظم کا اصرار تھا کہ ایک ادارہ تشکیل دیا جائے اور فوراً ہی کام کاآغاز کر دیا جائے۔ سوچنے کی مہلت انہوں نے طلب کی۔وہ حیران رہ گئے کہ چند دن بعد شہزاد اکبر کو یہ ذمہ داری سونپ دی گئی۔ وہ آدمی، جس کا پولیس اور ایف آئی اے سے کبھی کوئی تعلق نہ رہا تھا۔ پیشے کے اعتبار سے جو ایک وکیل تھا۔ وزیرِ اعظم سے پوچھا گیاکہ ان صاحب میں کیا خوبی انہوں نے پائی ہے۔ ان کا جواب یہ تھا کہ ڈرون حملوں پر فلم بنانے جمائمہ خاں پاکستان آئیں تو بہت تعاون شہزاد اکبر نے ان سے کیا تھا۔
وزیرِ اعظم کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے فوری تاثر پر فیصلے صادر کرتے ہیں۔ چیزوں پر گہرائی میں غور و فکر کرنے کی عادت ہی نہیں۔ مردم شناس ہیں اور نہ معاملہ فہم۔ خوبیاں ان کی آشکار ہیں۔ کرشماتی شخصیت، ڈٹ کر کھڑے رہتے ہیں اور مالی معاملات میں نواز شریف اور آصف علی زرداری سے مختلف ہیں۔ ورلڈ کپ، شوکت خانم ہسپتال اور نمل کالج کی وجہ سے بہت سے لوگوں نے ان سے غیر معمولی توقعات وابستہ کر لیں مگر ایک ایک کر کے سب خاک میں مل گئیں۔
غالبؔ نے کہا تھا: خاک میں کیا صورتیں ہو ں گی کہ پنہاں ہو گئیں۔ انسانی تاریخ میں جو فصل سب سے زیادہ اجڑی، وہ گل رنگ امیدوں کی ہے۔وہ امید جو عام آدمی حکمران سے وابستہ کرتاہے مگر خال ہی پوری ہوتی ہے۔ توقعات عمران خاں سے یہ تھیں کہ وہ سول سروس، عدلیہ، پولیس اور پٹوار کو بہتر بنائیں گے۔ اس سمت میں مگر ایک قدم بھی وہ اٹھا نہ سکے۔ ناصر درانی کا قصہ دہرانے کی ضرورت نہیں۔ عدلیہ کو انہوں نے اس کے حال پر چھوڑ دیا اور پٹوار کو بھی۔ سول سروس کو اوّل دھمکانے کی کوشش کی، بعد میں رجھانے کی۔ دونوں حربے ناکام رہے۔
سیاسی اعتبار سے ان کی سب سے بڑی غلطی شاید عثمان بزدار کو وزیرِ اعلیٰ بنانے کی ہے۔ بارہ کروڑ کے صوبے کو ایک ایسا آدمی کیونکر چلا سکتاہے جس کا تجربہ محدود اور صلاحیت محدود تر ہو۔ جو اظہارِ خیال پہ قدرت رکھتا ہو،نہ سیاست کے خم و پیچ سے آشنا۔ اس پر مستزاد یہ کہ چوہدری سرور اور چوہدری پرویزالٰہی ایسے جہاندیدہ سیاستدانوں کو گورنر اور سپیکر کے مناصب سونپ دیے گئے۔
پچھلے ہفتے جاری ہونے والا کیسا یہ دلچسپ بیان تھا کہ مہنگائی کے اسباب کا تعین کیا جائے گا۔ ہمیشہ سے ہم جانتے ہیں کہ قیمت کا انحصار رسد اور طلب پہ ہوتاہے۔ حقیقی یا مصنوعی طور پر اگر رسد کم کر دی جائے اور طلب زیادہ ہو تو ظاہر ہے کہ قیمت بڑھے گی۔ چینی اس حکومت نے بر آمد کی۔ نہ صرف برآمد بلکہ زرِ اعانت بھی اس پر ادا کیا۔ پھر درآمد کی۔ گندم کی پیداوار کا تخمینہ درست نہ تھا۔ اس پر یہ کہ دھڑا دھڑ افغانستان سمگل ہوتی رہی اور شاید وہاں سے وسطی ایشیا بھی۔ رینجرز کے چند چاک و چوبند دستوں کو اگر ڈیورنڈ لائن والے راستوں پر متعین کر دیا جاتا تو شاید یہ سانحہ پیش نہ آتا۔ ڈالر کی قیمت پچیس تیس فیصد بڑھ گئی۔ ظاہر ہے کہ اس کے نتیجے میں پٹرول مہنگا ہوا اور بجلی بھی۔ پیداوار کا انحصار انہی چیزوں پر ہوتاہے۔ مزید برآں بیس پچیس فیصد بجلی چوری کر لی جاتی ہے اور اس کے بارے میں سوچا تک نہ گیا۔ گندم اور چینی تو رہی الگ، سبزیاں تک ذخیرہ کر لی جاتی ہیں۔ سوچ بچار کرنے والا کوئی بھی آدمی یہ سب کچھ جانتاہے۔ حکومت کو کیوں علم نہیں۔
خودفریبی ہے، یہ خودفریبی۔ تجزیے کی بنیاد ہی غلط ہو تو مطلوبہ نتائج کیسے برآمد ہو سکتے ہیں؟
سرمایہ کاروں کو وزیرِ اعظم یقین دلاتے ہیں کہ ہر ممکن سہولت فراہم کریں گے۔ ملک کا حال یہ ہے کہ بڑے شہروں، بالخصوص کراچی میں سیٹھ اب اپنی دولت گھروں میں رکھتے ہیں۔ بینکوں کے لیے وضع کردہ نئے قوانین انہیں خوفزدہ کرتے ہیں۔ایسے میں صنعت کاری کیا خاک ہو، کاروبار کیا خاک ہو؟ اپوزیشن کو خوفزدہ کرنے کی مہم کا نتیجہ یہ نکلا کہ تاجر او رصنعت کار بھی گھبرا گئے۔ ادھر بھارت ہمارے درپے ہے۔ کبھی وہ فرقہ واریت کو ہوا دیتاہے اور کبھی دہشت گردی کے دوسرے حربے۔ معید یوسف کی اطلاع کے مطابق حال ہی میں ’’را‘‘ نے تحریکِ طالبان پاکستان کے دہشت گردوں کو متحد کرنے کے لیے دس لاکھ ڈالر صرف کیے۔ ساٹھ ستر ہزار شہری اور سات ہزار سکیورٹی ا ہلکار شہید ہو گئے۔ کشمیریوں پہ ظلم کے پہاڑ ٹوٹتے رہے لیکن ہم دنیا کو یہ بھی نہ بتا سکے کہ بھارت کیسی ہولناک خوں ریزی کا مرتکب ہے۔
آغازِ کار ہی میں وزیرِ اعظم کے ایک دوست نے انہیں مشورہ دیا تھا کہ ایک ہی وقت میں درجنوں اور سینکڑوں کام نہیں کیے جا سکتے۔ دو تین واضح ترجیحات ہونی چاہئیں۔پھر پورے انہماک اور کامل یکسوئی سے انہیں بروئے کار لانا چاہئیے۔ مشکل یہ ہے کہ وزیرِ اعظم کے گرد بھانت بھانت کے لوگ ہیں۔ اکثر سطحی، اکثر ناتجربہ کار، فقط باتیں بنانے والے۔ مجلس آرائی سے کپتان خوب لطف اٹھاتا ہے، خاص طور پر اس وقت، جب اس کے کارنامے بیان کیے جا رہے ہوں اور اس کے مخالفین کی مذمت جاری ہو۔ انہی داناؤں میں سے کسی نے مشورہ دیا ہوگا کہ نہ صرف نواز شریف بلکہ اس کی تقریر سننے والو ں پر بھی غداری کا مقدمہ بنا دیا جائے۔ جیسا کہ بار بار عرض کیا، انتقام جو آدمی لینا چاہتاہے، زیادہ سے زیادہ وہ انتقام ہی لے سکتاہے، زندگی بسر نہیں کر سکتا۔ گوں نا گوں مطالبات کرنے والی زندگی اس قدر متنوع ہے کہ کبھی کسی آدمی کو محض حریف کے سینے پر سوار ہونے کی فراواں مہلت نہیں دیتی۔ 16اکتوبر کے جلسے پر قیاس آرائیاں تھیں لیکن ایسا ماحول حکومت نے پیدا کیا ہے کہ اس کی کامیابی میں کوئی شبہ رہا نہیں۔
کپتان کا سنہری دور ختم ہو چکا۔ وہ دن ہوا ہوئے کہ پسینہ گلاب تھا۔ اب ان کے لیے بہت تھوڑی سی مہلت باقی ہے کہ موزوں حکمتِ عملی کا تعین کر لیں یا پھسل کر گر پڑیں۔زمانہ کسی پہ مہرباں یا نا مہرباں نہیں ہوتا۔ ہر ایک کو وہی کاٹنا ہوتاہے، جو اس نے بویا ہو۔


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *