تب نظر آتی ہے اک مصرعہ ء ِ تر کی صورت

یہ بائیس کروڑ انسانوں کے مستقبل کا سوال ہے۔ صرف سیاسی لیڈروں پر اسے چھوڑا نہیں جا سکتا۔ سلطانیء جمہور کا خواب فقط جوشِ خطابت نہیں حسنِ عمل کا تقاضا کرتا ہے، پیہم ریاضت اور پیہم نگرانی کا۔ میرؔ صاحب نے کہا تھا۔
خشک سیروں تنِ شاعر کا لہو ہوتاہے
تب نظر آتی ہے اک مصرعہ ء ِ تر کی صورت
رات گئے نواب زادہ نصر اللہ خاں گاہے موتی رولتے۔ پوچھاگیا کہ مشرق کا عدیم النظیر شاعر جمہوریت کا حامی ہے اور مخالف بھی۔ وہ یہ کہتاہے کہ
گریز از طرزِ جمہوری، نظام پختہ کارے شد
کہ از مغز دو صد خر، فکرِ انسانے نمی آید
(جمہوری طریق سے گریز ہی بہتر ہے کہ دو سو گدھوں کے مغز سے انسانی فکر نمودار نہیں ہو سکتی)۔ دوسری طرف یہ کہ
سلطانی ء جمہور کا آتاہے زمانہ
جو نقشِ کہن تم کو نظر آئے مٹا دو
کہا: ترتیبِ زمانی کا فرق ہے، شاعر کی فکر کا ارتقا۔
جمہوریت کے مخالفین بہت ہیں۔ ان کے کیسہ ہائے علم و عظمت میں تاویلوں کے انبار بھی بہت۔ سوال صرف یہ ہے کہ جمہوریت کا متبادل کیا ہے؟
اقبال ؒایک نادرِ روزگار مفکّر اور بے مثال شاعر تھے۔ مایوس قوم کو جدوجہد کا ولولہ بخشا اور اردو شاعری کا مزاج ہی بدل ڈالا۔ صرف یہی نہیں، ایک عملی سیاستدان بھی تھے۔ عوامی بیداری اور رائے عامہ کی تربیت کے ذریعے، ایک پاکیزہ اجتماعی زندگی اور جدید مہذب اسلامی معاشرے کے آرزومند۔ 1930ء کے تاریخ ساز خطبہ ء الہٰ باد میں، انہوں نے کہا تھا: میں تمہارا لیڈر نہیں لیکن اگر میری بات تم غور سے سنو گے تو تمہاری راہ میں منوّر کردوں گا۔ تاکید کی کہ مسلم برصغیر کو عرب ملوکیت کے اثرات سے بچنا چاہئیے۔ شاطر پنڈت جواہر لعل نہرو نے،جو کشمیر کے شیخ عبداللہ کو سموچا نگل گئے اور ابوالکلام کو لبھاتے رہے، جب ان سے یہ کہا کہ دراصل وہی مسلم برصغیر کے نمائندہ ہیں تو ان کا جواب یہ تھا: میں تو قائداعظمؒ کا ایک سپاہی ہوں۔ وہ آدمی، قدامت پسند علماء کے درمیان جو عصری تقاضوں سے پوری طرح آگاہ تھا۔ ایک جدید اسلامی ریاست کا معمار اور بازارِسیاست میں اخلاقی اقدار کا نگہبان۔
ہوسِ اقتدار کے لیے جوڑ توڑ کرنے والوں اور جذبات کی تجارت کرنے والے بہروپیوں سے اقبالؔ بیزار تھے۔ کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ ان کے اس شعر میں کیا فقط زعمِ تقویٰ کی طرف اشارہ ہے یا آگ اگلتے خطیبوں کی طرف بھی۔
براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے
ہوس چھپ چھپ کے سینے میں بنا لیتی ہے تصویریں
یہ تو بہرحال آشکار ہے کہ فقط اقتدار کے لیے برسرِ جنگ لیڈروں کی سیاست ان کی رائے میں شیطنت ہے۔ شیطان ہی کی زبان سے کہلوایا۔
ابلیس کے فرزند ہیں اربابِ سیاست
اب باقی نہیں میری ضرورت تہِ افلاک
ہوسِ اقتدار سے انہیں گھن آتی ہے۔ مضطرب ہی نہیں،تب اقبالؔ کو ہم برہم پاتے ہیں، شمشیر بکف۔ اردن کے موجودہ سلطان کے پردادا، شریفِ مکّہ کے بارے میں کہا:
یہی شیخِ حرم ہے جو چرا کر بیچ کھاتاہے
گلیمِ بوذر و دلقِ اویس و چادرِ زہرہ
اقبالؔ جس اجتماعی نظام کے آرزومند تھے، اسے روحانی جمہوریت کہنا چاہئیے۔ مسلم امّہ کی انفرادی حیثیت کا احساس ان کے ہاں بہت گہراہے؛چنانچہ زندگی کے آخری ایّام میں، دیوبند کے حضرت مولانا حسین احمد مدنی سے وہ شکوہ سنج رہے۔ بار بار نہایت قلق کے ساتھ وہ ان کے اس جملے کا ذکر کیاکرتے ” قومیں اوطان سے بنتی ہیں “۔ اسلام کی اخلاقی اقتدار سے کامل وابستگی کے بغیر،سیاست کو وہ کارِ ابلیس کہتے ہیں، عام آدمی کی احتیاج جو دور نہ کر سکے اور معاشرے کے بالادست طبقا ت کا ظلم تمام نہ کر دے۔ قائداعظمؒ کے نام اپنے ایک خط میں انہوں نے لکھا تھا کہ برصغیر کا مسلمان فقط اس سیاسی قیادت کو قبول کرے گا، جو روٹی کامسئلہ حل کرے گی۔ خطوط کے اس مجموعے کو مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے، تحریِکِ پاکستان کے رہنما محمود علی مرحوم نے مرتب کیاتھا۔اقبالؔ کا ایک شعر ذہن میں پھڑپھڑاتاہے۔
دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب
تو سمجھتا ہے کہ یہ آزادی کی ہے نیلم پری؟
جمہوریت بجا مگر معاشرے کو ثمر مند کرنے والا ایک پائیدار جمہوری نظام اخلاقی اصولوں سے اٹل وابستگی کا تقاضا کرتاہے۔۔۔ اور یہی وہ سبق ہے، جسے شاید ہم یکسر بھلا چکے۔ وہ سیاسی لیڈر ہماری گردنوں پرمسلّط ہیں، جن کے لیے ان کی ذات، خاندا ن اور مالی مفادات ہی سب کچھ ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ بیرونِ ملک ان کی جائیدادیں ہیں۔ اپنی سیاسی وراثت اولاد کو منتقل کرنے کے آرزومند ہیں اور قوم کے مستقبل سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں۔
بھاگ ان بردہ فروشوں سے، کہاں کے بھائی
بیچ ہی دیویں جو یو سف سا برادر ہووے
جیسا کہ بار بار عرض کرتاہوں، اجتماعی زندگی کے دو اہم ترین میدان مذہب اور سیاست ہیں۔ ان دونوں کو ہم نے ادنیٰ ترین لوگوں کے سپرد کر رکھا ہے۔ عصرِ رواں ہی نہیں، مولوی صاحب دین کی روح سے بھی یکسر نا آشنا ہیں اور سیاستدان کون ہیں؟ وہ نعرہ فروش، جو فوجی حکومتوں نے ہماری گردنوں پر مسلّط کر دیے۔ ذوالفقار علی بھٹو اور ان کے وارث، نواز شریف، ان کے اعزہ و اقربا اور بعد میں آنے والے بھی۔ بھٹو اپنی قوم سے مخلص تھے تو آٹھ برس بے رحم فوجی ڈکٹیٹر کے نائب اور ثنا خواں کیوں رہے۔ میاں محمد نواز شریف کو جمہوریت سے اگر کوئی تعلق ہوتا، کیا وہ جنرل محمد ضیاء الحق کی گود میں پروان چڑھتے؟ َ
جدید جمہوری نظام کاسب سے اہم ادارہ سیاسی جماعت ہے۔ سیاسی پارٹی اگر خالص جمہوری خطوط پر استوار نہ ہوگی تو پارلیمنٹ کبھی موثر نہ ہوگی۔ وہ کابینہ کبھی وجود نہ پا سکے گی، جو ایک شخص کی بجائے قوم کا مفاد ملحوظ رکھے۔ صدر آصف علی زرداری کے وزراء ِ اعظم یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف تھے۔ کیا کوئی ہوش مند آدمی انہیں اپناکاروباری شریک بنانا پسند کرے گا؟میاں محمد نواز شریف کے دست و بازو ان کا خاندان اور بیشتر ان کے کشمیری النسل رفیق ہیں۔کپتان کی اپنی پارٹی عثمان بزدار کو منصب سونپنے کی حامی نہیں مگر انہیں اس کی کیا پرواہ۔ بخدا وہ ہمارے نہیں، ان کے نمائند ہ ہیں۔ ہمارے لیے نہیں، وہ ان کے لیے کام کریں گے۔
یہ بائیس کروڑ انسانوں کے مستقبل کا سوال ہے۔ صرف سیاسی لیڈروں پر اسے چھوڑا نہیں جا سکتا۔ سلطانیء جمہور کا خواب فقط جوشِ خطابت نہیں حسنِ عمل کا تقاضا کرتا ہے، پیہم ریاضت اور پیہم نگرانی کا۔ میرؔ صاحب نے کہا تھا۔
خشک سیروں تنِ شاعر کا لہو ہوتاہے
تب نظر آتی ہے اک مصرعہ ء ِ تر کی صورت


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *