’’پھرکوئی امید نہیں‘‘ اس کی آنکھوں میں غصہ اور ناامیدی دونوں تھیں۔ ’’نہیں کوئی امید نہیں‘‘ میرا جواب سن کر وہ غصے سے بولا ’’ تو کیا پھر اس ملک میں کبھی مہنگائی کم نہیں ہو گی‘‘ میں نے انکار میں سر ہلا دیا‘ وہ کھڑا ہو گیا ’’کبھی غربت کم نہیں ہوگی‘‘ میں نے جواب دیا ’’نہیں ہو گی‘‘ وہ بولا ’’کبھی روزگار میں اضافہ نہیں ہو گا‘‘ میں نے کہا ’’نہیں ہو گا‘‘ وہ بولا ’’ہم لوگوں کو کبھی انصاف نہیں ملے گا‘ ہم کبھی صاف پانی نہیں پئیں گے‘ صاف ماحول میں سانس نہیں لیں گے‘ ہمارے بچوں کو اچھی تعلیم نہیں ملے گی‘ ہماری عزت نفس کبھی محفوظ نہیں ہو گی اور ہماری جان‘ مال اور عزت کو کبھی تحفظ نہیں ملے گا‘‘۔

میں نے ہنس کر جواب دیا ’’نہیں ہوگا‘ آپ کو یہ کبھی نہیں ملے گا‘‘ وہ مایوس ہو گیا اور اس نے مایوسی میں مجھ سے پوچھا ’’پھر اس ملک کا کیا فائدہ‘‘ میں نے ہنس کر جواب دیا ’’ہاں اس کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ میں اگر یہ کہوں دنیا کے کسی بھی ملک کا کوئی فائدہ نہیں تو یہ غلط نہیں ہو گا‘‘ وہ حیرت سے میری طرف دیکھنے لگا‘ ہم کتابوں کی دکان پر کھڑے تھے اور تمام گاہک ہماری گفتگو سن رہے تھے‘ میں بولنے کے کاروبار سے وابستہ ہوں چنانچہ مجھے جہاں مجمع لگانے کا موقع ملتا ہے میں وہاں لوگ اکٹھے کر کے کھڑا ہو جاتا ہوں اور خود ساختہ موٹی ویشنل اسپیکر بن کر ان کی مت مار نے لگتا ہوں۔

اس بے چارے نوجوان نے بھی کتابوں کے درمیان چلتے چلتے مجھ سے پوچھ لیا تھا ’’کیا ملک میں بہتری کی کوئی امید ہے‘‘ یہ سن کرمیں نے اسے اس طرح دیکھا جس طرح شکاری شکار کو دیکھتا ہے اور ہنس کر جواب دیا ’’کوئی نہیں ہے‘‘ اور پھر یہاں سے ہمارا مکالمہ شروع ہو گیا‘ نوجوان جذباتی تھا‘ سوال کرتے کرتے اس کی آواز اونچی ہونے لگی‘ لوگ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور وہ کتابوں کی تلاش چھوڑ کر ہمارے گرد جمع ہونے لگے‘ دکاندار بھی ہماری طرف متوجہ ہو گیا‘ مجمع تیار تھا اور میں موٹی ویشنل اسپیکر بن کر درمیان میں کھڑا تھا۔

نوجوان کے سوال اور میرے بدلحاظ جواب دونوں نے مجمعے کو گرما دیا تھا اور لوگ مجھے نفرت سے دیکھ رہے تھے‘ ان کا خیال تھا میں ایک بدتمیز اور بدلحاظ انسان ہوں‘ مجھے دوسروں کا دل رکھنا نہیں آتا‘ وہ بے چارہ مجھ سے پوچھ ہی بیٹھا تھا تو مجھے بدتمیزی سے جواب نہیں دینا چاہیے تھا‘ شائستگی اور تہذیب کا خیال رکھنا چاہیے تھا‘ میں نے ان کی آنکھوں میں نفرت کی آگ دیکھ لی اور مجھے محسوس ہوا میرے بولنے کا وقت ہو چکا ہے‘ میں اگر اب بھی چپ رہا تو یہ لوگ میرے اوپر حملہ کر دیں گے۔

میں نے پیار سے نوجوان کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور ہنس کر کہا ’’بیٹا دنیا کے آدھے بڑے مسئلے انسان کے ذاتی مسئلے ہوتے ہیں اور دنیا کا کوئی ملک‘ کوئی معاشرہ یہ مسئلے حل نہیں کر سکتا‘ یہ انسان نے خود حل کرنے ہوتے ہیں‘ دنیا میں آج تک کسی ملک میں مہنگائی کم نہیں ہو سکی‘ یہ ہر دور میں بڑھتی رہی اور یہ مستقبل میں بھی بڑھتی رہے گی چنانچہ اس کی کمی کا انتظار کرنے والے لوگ احمق ہیں۔

دنیا میں مہنگائی سرے سے کوئی ایشو ہی نہیں‘ ایشو انکم ہے‘ مہنگائی چٹان کی طرح ہوتی ہے‘ اس کا وزن کم نہیں ہوتا لہٰذا ہمیں چٹان کا وزن کم کرنے کے بجائے اپنے بازوئوں کی طاقت بڑھانی پڑتی ہے‘ آپ اگر اپنی انکم بڑھا لیں گے تو مہنگائی خود بخود کم ہو جائے گی‘اسی طرح اگر آپ کے پاس پیسہ ہے تو آپ کے لیے بوئنگ جہاز بھی سستا ہو گا اور آپ کی جیب اگر خالی ہے تو پھر سائیکل بھی مہنگی ہے اور انسان نے اپنی انکم خود بڑھانی ہوتی ہے‘ دنیا کا کوئی ملک‘ کوئی حکومت انسان کی انکم نہیں بڑھا سکتی۔

آپ کو امریکا اور چین میں بھی بھکاری نظر آتے ہیں جب کہ روانڈا جیسے ملکوں میں بھی لوگوں نے جہاز رکھے ہوئے ہیں چنانچہ مہنگائی باہر نہیں ہوتی‘ یہ آپ کے اندر ہوتی ہے‘ اسے آپ نے اپنے اندر سے ٹھیک کرنا ہوتا ہے‘‘ مجمعے کا غصہ کم ہو گیا اور وہ لوگ میری طرف دیکھ کر ہاں میں سر ہلانے لگے‘ میں نے عرض کیا ’’غربت بھی انفرادی مسئلہ ہوتا ہے‘ آپ اپنے بہن بھائیوں‘ دوستوں اور رشتے داروں کو دیکھیں۔

آپ اپنے محلے‘ اپنے شہر کے لوگوں کو دیکھیں‘ آپ کو ان میں ارب پتی بھی ملیں گے‘ کروڑپتی بھی‘ لاکھ پتی بھی اور روپے روپے کو ترستے لوگ بھی اور یہ سب ایک ہی ملک‘ ایک ہی شہر‘ ایک ہی محلے اور ایک ہی خاندان کے لوگ ہیں‘ گویا ملک‘ قبیلے یا خاندان کسی کو امیر یا غریب نہیں بنا سکتے‘ دنیا کے تمام لوگ برابر ہوتے ہیں‘ ہم اپنی مرضی سے غریب یا امیر بنتے ہیں‘ ہم کام کریں گے ‘ امیر ہو جائیں گے‘ نہیں کریں گے غریب رہ جائیں گے‘‘۔

میں نے لمبا سانس کھینچا اور عرض کیا ’’ملک کسی شخص کو روزگار بھی فراہم نہیں کرسکتے‘ ہم اگر پروفیشنل ہیں‘ ہم اگر محنتی اور ایمان دار ہیں تو پھر دنیا کا کوئی شخص ہمیں بے روزگار نہیں کر سکے گا اور ہم اگر نالائق ہیں‘ ہم بے ایمان‘ سست اور نکھٹو ہیں تو پھر ہم بل گیٹس کے گھرپیدا ہو کر بھی بیروزگار رہیں گے‘ دنیا ہمیں چپڑاسی تک نہیں رکھے گی‘ مہاتما گاندھی بھارت کے ’’فادر آف نیشن‘‘ ہیں لیکن ان کا بیٹا ہری لال اس انڈیا میں فٹ پاتھ پر مرا تھا اور 33 لاکھ مربع کلو میٹر تک پھیلے ملک میں اس کے لیے سر چھپانے کی کوئی جگہ نہیں تھی‘ کیوں؟

کیوں کہ وہ نالائق اور شرابی تھا‘ مجھے چند دن پہلے دنیا کے نامور لوگوں کے بچوں کے بارے میں ایک کتاب پڑھنے کا اتفاق ہوا‘ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے دنیا کے 99 فیصد کام یاب لوگوں کے بچوں نے عسرت اور بے چارگی میں زندگی گزاری‘ کیوں؟ کیوں کہ یہ لائق والدین کے نالائق بچے تھے چنانچہ جب آپ کو باپ کی دولت بھی کام یاب نہیں بنا سکتی تو پھر ملک آپ کو روزگار کہاں سے دے گا؟

آپ کو روزگار اپنی اہلیت سے ملتا ہے اور یہ اہلیت بھی کمانا پڑتی ہے‘‘ مجمعے نے تالیاں بجانا شروع کر دیں‘ میں نے مداری کی طرح جھک کر ان کا شکریہ ادا کیا اور پھر عرض کیا ’’باقی رہ گیا صاف پانی‘ صاف ماحول‘ معیاری تعلیم‘ عزت نفس اور جان‘ مال اور عزت کا تحفظ تو میرا بیٹا‘دنیا میں نیوزی لینڈ اور سوئٹزر لینڈ دونوں صاف ترین ملک ہیں لیکن لوگ وہاں بھی پالوشن اور گندے پانی سے مرتے ہیں‘ کیوں؟ کیوں کہ انسان اگر خود صاف پانی نہیں پیے گا‘ یہ اگر خود اپنا ماحول صاف نہیں رکھے گا تو پھر دنیا کی کوئی طاقت اسے پالوشن فری ماحول اور صاف پانی نہیں دے سکے گی۔

آپ کا پانی اگر گندا ہے تو آپ یہ گندا پانی کیوں پیتے ہیں؟ آپ اسے ٹیسٹ کرائیں‘ صاف کریں اور ابال کر پئیں‘ آپ کو کون روک رہا ہے؟ آپ گھر میں پودے اور درخت لگائیں‘ آپ کو کس نے روکا ہے اور آپ اپنا جسم اور گلی صاف رکھیں‘ آپ کو کس نے منع کیا ہے؟ یاد رکھیں دنیا کی کوئی حکومت آپ کو نہلا نہیں سکتی‘ آپ اگر گند ڈالنے کی علت میں مبتلا ہیں تو پھر فرشتے بھی آ کر اسے نہیں سمیٹ سکیں گے‘ یہ کام بھی آپ نے خود کرنا ہے‘ معیاری تعلیم کے لیے کوشش بھی خود کرنی پڑتی ہے‘ آپ محنت کریں‘ پیسے کمائیں اور بچوں کو اچھی تعلیم دلائیں۔

امریکا اور یورپ میں بھی ہر سال لاکھوں بچے تعلیم سے محروم رہ جاتے ہیں‘ یہ کس کے بچے ہیں‘ یہ نالائق اور بے حس لوگوں کے بچے ہیں جب کہ دنیا میں 428 ایسے ادارے ہیں جن کی فیسیں کروڑوں میں ہیں اور لوگوں کو وہاں داخلہ نہیں ملتا‘ ان اداروں میں کون داخلہ لیتے ہیں؟ وہ لوگ لیتے ہیں جو ایسے اداروں کے لیے پیسہ کماتے ہیں‘ آپ بھی کمائیں اور اپنے بچوں کو وہاں پڑھائیں‘ عزت نفس بھی ذاتی سرمایہ ہوتا ہے‘ آپ خود دوسروں کی عزت نفس کا خیال رکھیں‘ دوسروں کو عزت دیں‘ لوگوں اور اداروں کا احترام کریں‘ دائیں بائیں موجود لوگوں کو سپیس دیں‘ آپ کی عزت نفس محفوظ ہو جائے گی‘ یہ کیسے ممکن ہے آپ سڑک پر چلتے چلتے دوسروں کو گالی دے دیں اور آپ کی اپنی عزت نفس محفوظ رہ جائے۔

آپ اگر اپنی عزت نفس نہیں بچانا چاہتے تو پھر دنیا کا کوئی ملک آپ کی عزت نفس نہیں بچا سکے گا‘ جان بھی آپ کی اپنی ہوتی ہے‘ مال بھی اور عزت بھی اور ان کی حفاظت بھی آپ نے خود کرنی ہوتی ہے‘ آپ اگر اپنی عزت‘ مال اور جان کا پہرہ نہیں دیں گے تو پھر یہ یورپ سے لے کر امریکا تک دنیا کے کسی کونے میں محفوظ نہیں ہو گی‘ کیا امریکا میں لوگ قتل نہیں ہوتے‘ کیا وہاں ڈکیتیاں اور عزتیں پامال نہیں ہوتیں؟ ہوتی ہیں‘ اگر امریکا اپنے شہریوں کو عزت‘ مال اور جان کا تحفظ نہیں دے پا رہا تو پھر دنیا کا کوئی ملک نہیں دے سکے گا لہٰذا ہمارے سارے مسئلے انفرادی ہیں اور یہ ہم سب نے خود حل کرنے ہیں‘‘۔

میں خاموش ہو گیا‘ مجمع خاموشی سے میری طرف دیکھنے لگا‘ اچانک کونے سے آواز آئی ’’اور انصاف‘‘ میں نے کہا ’’یہ بھی انسان نے خود تلاش کرنا ہوتا ہے‘ حشر کے میدان میں بھی انسان اپنا مقدمہ خود لڑے گا‘ جب ہمیں اللہ کے سامنے بھی خود کو خود ہی بے گناہ ثابت کرنا ہے تو پھر تو یہ دنیا ہے اور یہ دنیا ناانصافیوں کا گھر ہے‘‘ مجمعے کے ایک کونے سے تالی کی آواز آئی اور پھر سب تالیاں بجانے لگے‘ میں نے آخر میں عرض کیا‘ دنیا میں کوئی مسئلہ‘ مسئلہ نہیں‘ صرف مائینڈ سیٹ مسئلہ ہے‘ ہم اگر اپنا دماغ ٹھیک کر لیں تو دنیا کے سارے مسئلے حل ہو جائیں گے لیکن ہم اپنے مسئلوں کے حل کے لیے حکومتوں اور ملکوں کی طرف دیکھ رہے ہیں‘ ہم کتنے بے وقوف ہیں؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *