شاید ہی کوئی ایسا دن ہوگا کہ جب صبح اٹھنے سے پہلے ہی موبائل فون پر 10سے 20مختلف کمپنیوں کے میسجز نہ آئے ہوئے ہوں، جن میں اُن کی کسی نئی پروڈکٹ یا آفر کے بارے میں بتایا جا رہا ہو۔ ایک کمپنی تو روز صرف اپنے روز کے اوقات بتانے کے لیے میسج کرتی ہے اور زیادہ مزاحیہ بات یہ ہے کہ کبھی کبھی تو خواتین کے کپڑوں کے میسجز بھی آ جاتے ہیں اور کبھی ایسے میسجز بھی آ جاتے ہیں جو کسی دوسرے شہر کی کمپنی کے ہوں۔ یہ میسجز کسی عجیب نامعلوم نمبر سے نہیں آتے بلکہ باقاعدہ اُن کمپنیوں کے نام کے ساتھ آتے ہیں۔ بینظیر انکم سپورٹ اور احساس پروگرام کے نام پر فراڈ کے جو میسجز ہوتے ہیں، وہ ان سے الگ ہیں اور وہ بھی ہفتہ وار درجنوں کی تعداد میں موصول ہوتے ہیں۔

پھر شاید ہی کوئی ایسا دن ہوتا ہے جس دن وہ بینک،جن کیساتھ میں بینکنگ کرتا ہوں یا جن کے کریڈٹ کارڈ استعمال کرتا ہوں، کال کرکے کسی نہ کسی آفر یا کسی پروڈکٹ کے بارے میں نہیں بتاتے اور کبھی کبھی کال پر ریکارڈنگ بھی چل پڑتی ہے اور اس کا احساس ایک دو بار ہیلو ہیلو کرنے کے بعد ہی ہوتا ہے۔ ابھی، اس کالم کو لکھتے ہوئے، جو کہ میں موبائل پر لکھ رہا ہوں، ایک اور کمپنی کا میسج آ گیا ہے جو پچھلے ہفتے سے اپنی سیل کے آخری دن کا کہہ کہہ کر ڈرا رہی ہے کہ بعد میں کہیں اُن کی چیزیں مہنگی نہ ہو جائیں، کل اِن کی پرانی سیل کا آخری دن تھا اور آج نئی سیل کا آغاز ہو گیا ہے۔

یہ روز کا معمول بن گیا ہے۔ ان سب مارکیٹنگ کی غیر عَلانیہ کالز اور میسجز کو اسپیم کہا جاتا ہے۔ اسپیم ویسے تو ای میل میں بےتعلق آنے والے ایسے مارکیٹنگ کے میسجز کو کہا جاتا تھا لیکن اب یہ تمام ذرائع ابلاغ سے آنے والے میسجز اور کالز کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ 1978میں پہلی دفعہ ای میل کے ذریعے اسپیم میسج بھیجا گیا اور اُس سے بھی پہلے 1864میں لندن میں ٹیلی گرام کے ذریعے ایک شخص کو دانتوں کے ڈاکٹر کا اشتہار بھیجا گیا جس پر وہ شخص جسےیہ ٹیلی گرام ملا،اتنا حیران اور پریشان ہوا کہ اُس نے ’’دی ٹائمز‘‘ اخبار میں خط لکھ کر شائع کرایا کہ مجھے یہ میسج میرے نام سے بھیجا گیا لیکن اس میسج بھیجنے والے سے میرا کوئی تعلق واسطہ نہیں ہے، یہ کیا ہے؟

اسپیم، چاہے وہ ای میل، میسج یا کال ہو، کے کئی نقصانات ہیں۔ کئی نفسیاتی تحقیقات بتاتی ہیں کہ یہ لوگوں کو چڑچڑا بنا دیتے ہیں پھر اِن کو ڈیلیٹ کرنے میں بھی وقت لگتا ہے، اس سے کمیونیکیشن اوور لوڈ بھی ہوتا ہے جس میں بہت سارے میسجز یا کالز دیکھ کر ہمیں ایک بوجھ سا محسوس ہوتا ہے۔ پھر اتنے سارے میسجز اور کالز میں ضروری کال اور میسج مِس ہو جانے کا کافی خدشہ ہوتا ہے، بہت سے لوگوں کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے۔ پھر اگر آپ کوئی کام کر رہے ہوں تو ایسے میسجز کی وجہ سے آپ کی توجہ بھی بٹ جاتی ہیں اور کام اُس موثر انداز میں نہیں کیا جا سکتا۔ ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں اسپیم کی وجہ سے پروڈکٹیویٹی کم ہو جاتی ہے جس سے سالانہ بیس ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوتا ہے پھر اس اسپیم کا جو سب سے خوفناک روپ ہے وہ مجرمانہ ہے جس میں لوگوں سے پیسے بٹورنے اور اُن کو دھوکا دینے کا کام کیا جاتا ہے۔

ای میل پر تو اسپیم کو روکنے کے لئے کی جدید ٹیکنالوجی آ گئی ہے اور زیادہ تر اسپیم میسجز کو ضروری میسجز سے الگ کر دیا جاتا ہے لیکن موبائل پر موصول ہونے والے میسج اور کال کے لیے ایسا کوئی طریقہ کار نہیں ہے۔ پی ٹی اے نے اِس مقصد کے لئے ایک کمپلینٹ سیل بھی بنایا ہے اور لوگوں کو کہا جاتا ہے کہ ایسے مسیجز کی تفصیلات پی ٹی اے کو میسج کے ذریعے بتائی جا سکتی ہیں لیکن اس کا کوئی خاص اثر نظر نہیں آ رہا کیونکہ کئی لوگوں کا کہنا ہے اور کچھ ذاتی تجربہ بھی ہے کہ کئی دفعہ شکایت کرنے کے باوجود بھی وہی میسجز بار بار آتے ہیں۔ اس بابت قانون بھی موجود ہے لیکن اُس پر عمل درآمد نظر نہیں آ رہا۔

پھر کچھ کمپنیاں آپ سے اِس طرح کے پیغامات اور کالز موصول کرنے کی اجازت ہوشیاری سے لے لیتی ہیں۔ آپ جب اکثر بڑی دکانوں پر جاتے ہیں تو وہ آپ سے آپ کا فون نمبر لیتے ہیں اور آپ کے نمبر دینے کو، جو آپ بل بنوانے کے لئے دے رہے ہوتے ہیں، میسج موصول کرنے کی اجازت بنا لیتے ہیں۔ اسی طرح بینک، جن کو آپ بینکاری کے لئے آپ سے فون اور میسج پر رابطہ کرنے کی اجازت دیتے ہیں، اُن مسیجز میں مارکیٹنگ کو بھی ڈال دیتے ہیں، اور کہیں پر بھی آپ کو مارکیٹنگ کے مسیجز موصول نہ کرنے کی کوئی چوائس نہیں دی جاتی۔ مارکیٹنگ کے اِن سب طریقوں کو بھی غیرقانونی قرار دینے اور اس حوالے سے تفصیلی قانون سازی کرنے کی ضرورت ہے۔ پھر جو شاطر لوگ فراڈ کرکے معصوم لوگوں سے پیسے بٹورتے ہیں، اُن کے خلاف بھی سخت کارروائی کرنا ضروری ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ ایسی اسکیموں سے زیادہ تر غریب لوگ ہی متاثر ہوتے ہیں۔ ویسے تو ہمارے اعلیٰ حکام پاکستان میں گیمز اور انٹرٹینمنٹ کو بین کرنے میں پیش پیش ہوتے ہیں جیسا کہ پچھلے دنوں PUBGنامی گیم کو کیا گیا اور پھر اسلام آباد ہائی کورٹ کے احکامات پر اِس کا بین ہٹا دیا گیا لیکن اس طرح کے بنیادی مسائل پر کم توجہ دی جار ہی ہے۔ ضروری یہ ہے کہ گیمز اور انٹرٹینمنٹ کی ایپس کو بین کرنے کی بجائے اسپیم بین کیا جائے۔


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *