5جولائی 1977(آخری قسط)

ہفتہ ہوگیا۔ ۔ ۔ میرا تلاش کرنا مشکل ہورہا ہے۔ہاں مگر یادداشت پر زور ڈال کر یاد آیا کہ ’’ضیاء نے 30جون کو یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ ہر صورت میں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینی ہے تو یکم سے چار جولائی تک کے سارے مذاکرات جو حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ہورہے تھے۔ اور جس پر چار اور پانچ جولائی کی شب دستخط بھی ہوئے تھے ۔سارا ڈھونگ تھا،جس میں بھٹو کے قریبی ساتھی مولانا کو ثر نیازی تو شامل تھے ہی مگر۔ ۔ ۔
اپوزیشن یعنی پاکستان قومی اتحاد کے نو ستاروں میں چار سب سے زیادہ چمکدار ستارے بھی آرمی چیف جنرل ضیاء الحق کو یقین دلا چکے تھے کہ وہ معاہدے پر ہرگز دستخط نہیں ہونے دیں گے۔
جنرل ضیاء الحق اور چیف جسٹس انوارالحق کے درمیان یہ خاموش معاہدہ ہوچکا تھا کہ ’’ہر صورت عوام اُس وقت کے مقبول سحر انگیز سیاست داں کو ہر صورت پھانسی چڑھانا ہے‘‘۔ ۔ ۔
گزشتہ کالم میں بھی سا بق آئی جی پنجاب حاجی حبیب الرحمان کی اُس کتاب کا حوالہ دیا تھا جو ہمارے سینئر صحافی منیر احمد منیر نے ایک انٹرویو کی صورت میں ترتیب دی ہے۔
آئی جی پنجاب حاجی حبیب الرحمان لکھتے ہیں:
’’میں آئی جی پنجاب تھا،ان دنوں میٹنگ ہوتی تھی تو میںبات کوئی نہ کوئی چھیڑ دیتا تھا کہ سر کیا ہورہا ہے۔
بس چیف جسٹس شیخ انوارالحق مسکرا ہی دیتے تھے کہ دیکھیں،دیکھیں کیا ہوتا ہے۔اور ان کے چہرے پہ ایک بات تھی کہ ان کے چہرے پہ اعتماد تھا۔ان کے چہرے سے مجھے لگتا تھا کہ انہوں نے فیصلہ کیا ہوا ہے کہ جس طرح ایوی ڈینس (شہادت) آرہی ہے ۔کیونکہ میں تو آئی جی پنجاب تھا۔ جو گواہ پیش ہوتا تھا ،ہر روز بھٹو کو escortتو میں نے کرنا ہی ہوتا تھا۔اور ایسکورٹ کرتے وقت ڈی آئی جی پنڈی تھے،بڑے اچھے افسر ۔آج کل وہ ریٹائرڈ ہوگئے ہیں۔
’’ایک سپریم کورٹ کا چیف جسٹس ہے،اُس کی مسکراہٹ سے ہی آپ سمجھ سکتے تھے کہ کیا ہوسکتا ہے۔لیکن میرا اور جیورسٹ جو دنیا بھر کے ہیں،ان سب کا یہ خیال تھا کہ ایڈ منسٹریٹو لی شاید انہوں نے فیصلہ کرلیا ہو ،ڈر کے مارے کہ اس کو پھانسی لگانی ہے،لیکن جو جوڈیشل (عدالتی) ورڈکٹ (فیصلہ) آئے گا وہ شاید اس کی پھانسی کو ریکیمنڈ نہ کرے،وہ life imprisonment(عمر قید)کردے۔
’’شاہ خالدریکویسٹ کرتے ہیں۔قذافی ریکویسٹ کرتے ہیں۔ابو ظہبی والے (شیخ زائد النہیان) کرتے ہیں،ساری دنیا کرتی ہے۔کیونکہ دنیا بھر میں بہت سارے ایسے ممالک ہیں جہاں پھانسی کی سزا نہیں ہے،جہاں عمر قید کی ہے۔
کئی ایسے کیس ہیں جن میں بعد میں پتا چلتا ہے کہ یہ آدمی بے گناہ تھا۔لیکن پھانسی کے بعد تو اس کا ازالہ نہیں کیا جاسکتا ۔
بھٹو کو سزا ہوئی ہے، abetment to the murder(قتل میںاعانت ) پر،نمبر ایک۔نمبر دو جب تین جج کہہ دیں not guilty(بے قصوروار)تو شک کا فائدہ استغاثہ کو نہیں جائے گا۔شک کا فائدہ ملزم کو جائے گا۔‘‘
حاجی حبیب الرحمان نے بڑی افسردگی سے بھٹو صاحب کی پھانسی کا نقشہ کھینچا ہے۔اور عینی شاہد کی حیثیت سے لکھا کہ وہ بڑی بہادری سے چل کر پھانسی گھاٹ گئے۔ ۔ ۔صفحہ 640پر لکھتے ہیں:
’’ جنرل چشتی نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ میں گلگت چلا گیا تھا۔وہ میری آمد کا انتظار کررہے تھے ۔میں آنا نہیں چاہتا تھا۔میں جان بوجھ کے avoidکررہا تھا کہ یہ سار ا میرے اوپر ڈال دیں گے۔جنرل چشتی کے جانے کی وجہ سے ایک دن پھانسی لیٹ ہوگئی،ورنہ وہ تین کو دے رہے تھے۔اہم بات یہ ہے کہ جیل کے اندر سارا انتظام جیل والوں کا تھا اور فوج کا تھا۔
پولیس والے بھی جیل کے اندر نہیں تھے۔لیکن مجھے پتا چل رہا تھا کہ آج یہ ہوگا۔آج آخری ملاقات ہوگی۔ ۔ ۔
بھٹو صاحب کو یقین ہوگیا تھا کہ اب انہیں پھانسی لگے گی۔تو پھر انہوں نے پیپر منگوایا اپنی وصیت لکھنے کے لئے۔انہوں نے پیپر پر کچھ وصیت لکھی،پھاڑ کے پھینک دی۔وہ جو سپاہی جیل میں کھڑا تھا،اُس نے وہ پیپر اٹھا لیا۔اِس میں کوئی خاص بات نہیں تھی۔
پھر انہوں نے دوبارہ لکھا۔نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو ان کو مل کے گئی ہیں تو کوریڈور میں (نصرت بھٹو)نے رونا شروع کردیا۔
’’اورکہا کہ میری ضیاء الحق سے بات کروادو۔وہاں کا جو انچارج تھا کمانڈر یا کو رکمانڈر جنرل صغیر ۔انہوں نے کہا کہ اس وقت وہ busy(مصروف) ہیں۔اس وقت بات نہیں ہوسکتی۔
’’بھٹو صاحب نے ایک، دو tranquilizer(سکون آور دائی) لی۔وہ لے کے انہوں نے کہا:پانی لاؤ ۔شیو کی۔اِن کی داڑھی بڑھی ہوئی تھی۔
شیو کر کے انہوں نے یہ الفاظ کہے میں ظالم مُلّا کے سے چہرے کے ساتھ اپنے اللہ تعالیٰ کے حضور پیش نہیں ہونا چاہتا۔جب وہ انہیں لے جارہے تھے اُس وقت وہ اُن کو پکڑنے لگے۔انہوںنے کہا:
No, I will walk myself
(میں خود جاؤں گا)۔۔۔ اور خود اوپر گئے ہیں۔
’’پھانسی گھاٹ تک چل کے گئے ہیں۔
’’انہوں نے tranquilizerلیا ہوا تھا۔اِن کو اٹھایا تو ان کو کہا:’’نو،میں خود جاؤں گا۔‘‘آنکھوں دیکھا حال جیل والے بتاسکتے ہیں۔‘‘
اور اس سے بھی بڑھ کر جنرل ضیاء الحق اور اس کے دیگر جنرلوں نے شہید بھٹو کے ساتھ ہی زیادتی نہیں کی ۔ ۔ ۔ بلکہ انسانیت کو شرمندہ کردیا۔
باقاعدہ اُن کی موت کے بعد ان کے کپڑے اتار کر تصویریں بنائی گئیں۔کیونکہ اس وقت شدت پسند مذہبی میڈیا کے سرخیل یہ ثابت کرنے پہ تلے ہوئے تھے کہ بھٹو صاحب غیر مسلم ہیں۔
بھٹو صاحب تو شہید ہوگئے اور آج اُن کے مزار پر سندھ کے سارے مزاروں سے زیادہ بڑی تعداد میں چاروں صوبوں کے عوام ان کی برسی پر فاتحہ پڑھنے جاتے ہیں۔اور اُن کی مغفرت کی دعا کرتے ہیں۔اور دوسری جانب بھٹو کو قتل کرنے والے ضیاء الحق جن کا صرف جبڑا دفن ہے،وہاں اب اور تو اور اُن کے صاحبزادے بھی شاید فاتحہ پڑھنے نہ جاتے ہوں۔
٭٭٭٭٭


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *