رازِ اخوت کی محافظ ، مائیں اور مائوں جیسی !

معزز قارئین!۔ 1915ء میں علاّمہ اقبال کی والدہ صاحبہ کا انتقال ہْواتو، اْنہوں نے ’’ والدہ محترمہ کی یاد میں ‘‘ کے عنوان سے ایک شہرہ آفاق نظم لکھی ، جس کا ہر شعر اپنی جگہ منفرد ہے۔ نظم کا ایک شعر پیش خدمت ہے…
’’ مرنے والوں کی جبیں ، روشن ہے اِس ظْلمات میں!
جس طرح ، تارے چمکتے ہیں ، اندھیری رات میں !
’’ والدہ‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے ، جسے فارسی میں مادر۔ ہندی ، اردو اور پنجابی میں ماں کہتے ہیں۔ 28 مئی (2020ء کو) ’’ تحریک پاکستان ‘‘ کے کارکن میرے مرحوم لاہوری دوست مرزا شجاع اْلدّین بیگ امرتسری کی اہلیہ ( چیئرمین پیمرا ) پروفیسر محمد سلیم بیگ ، اْن کے چار بھائیوں مرزا ظفر بیگ ، مرزا مظہر بیگ ، مرزا حامد بیگ ، مرزا خالد بیگ اور بہن فرح بیگ صاحبہ کی والدہ محترمہ اصغری بیگم کاانتقال ہْوا تو، 3 جون کو میرے کالم کا عنوان بھی علاّمہ صاحب کی اْسی نظم کا ایک مصرعہ تھا۔ کالم کے اختتام میں مَیں نے پورا شعر یوں لکھا تھا کہ …
’’موت ہے ہنگامہ آرا، قْلزم ِ خاموش میں!
ڈْوب جاتے ہیں سفینے ، موج کی آغوش میں!‘‘
یعنی۔ ’’ موت اْس سمندر میں بھی ہنگامہ بپا کرسکتی ہے جو طوفان سے پاک ہو۔ اْس کی لہروں ہی میں کشتیاں ڈوب جاتی ہیں ‘‘۔
معزز قارئین!۔ قیام پاکستان سے بہت پہلے متحدہ ہندوستان کی مسلمان مائوں اور اْن کے فرزندوں کے حوالے سے علاّمہ اقبال نے اپنے فارسی کلام میں کہا تھا کہ …
’’مالِ اْو، فرزند ہائے ، تندرست!
تر دماغ و سخت کوش و چاق و چْست!
…O…
حافظِ رمزِ اخوت مادراں!
قوت ِ قرآن و مِلّت مادراں!
یعنی۔1 ’’ (مسلمان ) قوم کی دولت اْس کے تندرست بیٹے ، جن کے دماغ روشن ہوں اور وہ محنتی اور چاق و چوبند ہوں‘‘۔2 ’’ اخوت (بھائی چارے ) کے راز کی حفاظت مائیں کرتی ہیں۔ مائیں ہی قرآن اور مِلّت کیلئے باعث ِ قوت ہیں ‘‘۔
معزز قارئین!۔ 2جولائی کو پانچ بیٹوں اور ایک بیٹی کی والدہ ( ماں ) مرحومہ اصغری بیگم کے لئے ’’ دْعائے مغفرت ‘‘ (فاتحہ چہلم ) کی تقریب میں شرکت کے لئے مجھے برادرِ عزیز محمد سلیم بیگ نے ٹیلی فون کِیا۔اْس روز مَیں اپنے مرحوم دوست مرزا شجاع اْلدّین بیگ امرتسری کے ساتھ گزرے ہْوئے وقت کو یاد کرتا رہا۔ بقول شاعر …
’’آئی جو، اْن کی یاد تو، اتی چلی گئی!‘‘
ستمبر 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دَوران میں مَیں نے دو ملّی ترانے لکھے۔ ایک ترانہ ہر روز ریڈیو پاکستان سے نشر ہو رہا تھا، جس کا عنوان ، مطلع اور دو بند یوں تھے:
’’اے مادرِ وطن ، ترے پیاروں کی خیر ہو!‘‘
…O…
’’ زْہرہ نگاروں، سِینہ فگاروں کی خیر ہو!
اے مادرِ وطن ، ترے پیاروں کی خیر ہو!
…O…
دْنیا میں بے مثال ہیں ، اربابِ فن ترے!
ہر بار فتح یاب ہْوئے ، صف شکن ترے!
شاہ راہِ حق کے شاہ سواروں کی خیر ہو!
اے مادرِ وطن ، ترے پیاروں کی خیر ہو!
…O…
پھیلے ہْوئے ہیں ، ہر سْو، وفائوں کے سِلسلے!
مائوں کی پر خْلوص دْعائوں کے سِلسلے!
مضبوط ، پائیدار ، سہاروں کی خیر ہو!
اے مادرِ وطن ، ترے پیاروں کی خیر ہو!‘‘
پھر کیا ہْوا؟۔ مرزا شجاع اْلدّین بیگ امرتسری ، مجھے مبارک باد دینے کے لیے اپنے دو لاہوری دوستوں کو ساتھ لے کر میرے گھر سرگودھا آ گئے۔ اْنہوں نے مجھ سے بھرپور جپھّی ڈالی ،پھر اْن کے دوستوں نے بھی۔ بیگ صاحب نے مجھ سے کہا ’’اثر چوہان بھائی!۔ مجھے آپ کی نظم کا عنوان اور خاص طور پر یہ شعر بہت اچھا لگا کہ …
’’پھیلے ہْوئے ہیں ، ہر سْو، وفائوں کے سِلسلے!
مائوں کی پر خْلوص دْعائوں کے سِلسلے!‘‘
معزز قارئین!۔ 3 دسمبر 1993ء کو لاہور میں میری والدہ محترمہ کی پہلی برسی تھی۔ اْسی دِن میرے روزنامہ ’’ سیاست‘‘ میں ’’ماں ‘‘ کے نام سے میری نظم شائع ہْوئی تھی۔ نظم کے تین شعر پیش خدمت ہیں …
’’اب کہاں صبر و سکْوں ، تاب و تَواں ، تیرے بعد!
بسکہ دْشوار ہْوا ، کارِ جہاں ، تیرے بعد!
…O…
تیری صِفتیں تھیں ، خْدا جیسی ، خْدا جانتا ہے!
کوئی دیکھا نہیں ، یکتائے زَماں ، تیرے بعد!
…O…
یْوں تو ہمدرد بھی ، مْشفقِ بھی اثر کے ، ہیں بہت!
تجھ سا کوئی بھی ، نہیں پایا ، اے ماں ، تیرے بعد!‘‘
مرزا شجاع اْلدّین بیگ امرتسری اور اْن کی اہلیہ محترمہ ، بھابھی / بہن اصغری بیگم بھی فاتحہ خوانی کے لئے میرے گھر تشریف لائے۔ اْنہوں نے مجھے بتایا کہ ’’ مَیں نے اور آپ کی بھابھی نے آپ کی نظم ’’ ماں ‘‘ پڑھ لی ہے۔ حقیقت تو، یہی ہے کہ ’’مائوں کی پْر خلوص دْعائوں ہی سے مادرِ وطن ، تعمیر و ترقی کی منزلیں تیزی سے طے کرتا ہے ‘‘۔
’’کرشن کتھا !‘‘
’’ہندودیو مالا ‘‘ کے مطابق شری کرشن جی مہاراج وِشنو دیوتا کے اوتار تھے۔ چشتیہ سلسلہ کے عالم ، ادیب ، نقاد ، دانشور اور 60 سے زیادہ کتابوں کے مصنف خواجہ حسن نظامی (1873ئ۔ 1953ء ) نے متحدہ ہندوستان میں ہندو مسلم ہم آہنگی کے لئے ’’ کرشن کتھا‘‘ (کرشن کی کہانی) کے عنوان سے کتاب لکھی ، جس میں اْنہوں نے شری کرشن جی کی ’’رضاعی ماں ‘‘ گوکل کے گوالا سردار نند کی اہلیہ یشودھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و الہ وَسلم کی ’’ رضاعی ماں‘‘ حلیمہ سعدیہؓ میں مماثلت بیان کی تھی‘‘۔ معزز قارئین!۔ 24 جولائی 2006ء کو میرے کالم کا عنوان تھا۔ ’’ تین عظیم نرسیں ‘‘ دراصل مَیں نے رضاعی مائوں کو نرسیں قرار دیتے ہْوئے ، یشودھا میّا اور دائی حلیمہ سعدیہؓ کے علاوہ گوتم بْدھ کی رضاعی ماں پرجا وتی ( گوتمی ) کا بھی تذکرہ کِیا تھا۔
گوتم بْدھ کے پِتا جی (والد صاحب ) ریاست کپل وستو کے راجا راجا شدّو دھن نے دو سگی بہنوں ’’ مایا وتی‘‘ اور پرجا وتی (گوتمی) سے شادی کر رکھی تھی۔ سِدھارتھ (گوتم بْدھ) 7 دِن کے تھے جب، اْن کی والدہ مایا وتی کا انتقال ہْوا۔ اْنہیں اْن کی خالہ رانی پرجا وتی ( گوتمی ) نے پالا پوسا تھا، پھر سِدھارتھ اپنی رضاعی ماں ’’ گوتمی‘‘ کی وجہ سے گوتم مشہور ہْوئے۔ سنسکرت اور ہندی میں ’’بْدھ ‘‘ کے معنی ہیں۔ ’’ عاقل ، دانشمند ، جاگتا ہْوا ‘‘۔ رضاعی ماں ( Foster Mother) کو ہندی ، اردو اور پنجابی میں۔ ماں سی (ماں جیسی) کہا جاتا تھا ، پھر ’’ ماسی ‘‘ کہا جانے لگا۔ پنجابی میں تو، ماں کی بہن ( خالہ ) کو ’’ ماسی ‘‘ کہا جاتا ہے۔
متحدہ ہندوستان میں تحریکِ خلافت کے دَوران دو نامور مسلمان قائدین مولانا شوکت علی اور مولانا محمد علی جوہر کی والدہ محترمہ آبادی بانو کا بھی تحریک خلافت میں اہم کردار تھا۔ وہ ’’بی اماّں‘‘ کے نام سے مشہو رتھیں۔اِسی طرح پاکستان میں 2 جنوری 1965ء کے صدارتی انتخاب میں جب قائداعظم کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح متحدہ اپوزیشن کی امیدوار بن گئیں تو’’ مفسر نظریہ پاکستان‘‘ جناب مجید نظامی نے اْنہیں ’’مادرِ ملّت کا خطاب دِیا تھا۔
مَیں نے اپنے 3 جون 2020ء کے کالم میں لکھا تھا کہ ’’بیگم ،مرزا شجاع اْلدّین بیگ امرتسری تاحیات غریب خاندانوں کی بیٹیوں کی،تعلیم و تربیت اور اْن کی شادیوں کا بندوبست کر کے ثوابِ دارین حاصل کرتی رہی ہیں۔ اْنہوں نے 2 جنوری 1965ء کے صدارتی انتخاب میں ’’مادرِ ملّت ‘‘ محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت میں بھرپور جدوجہد کی تھی لیکن، اْس کے بعد سیاست میں حصّہ نہیں لِیا اور اہم بات یہ ہے کہ ،غریب خاندانوں کی بیٹیوں کی تعلیم و تربیت اور اْن کی شادوں کا بندوبست کرتے ہْوئے اْنہیں اخبارات میں اپنی تصویریں چھپوانے سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ مَیں سوچ رہا ہْوں کہ ’’ اِس پر عاشقِ رسول ، مصّور پاکستان ، علاّمہ اقبال کی رْوح کو کتنی خْوشی ہو رہی ہوگی؟
2 جولائی کو مرحومہ اصغری بیگم کے ’’ فاتحہ چہلم ‘‘ کی تقریب تھی۔ اْس روز پروفیسر محمد سلیم بیگ نے مجھے بتایا کہ ’’ 28 مئی کو میری والدہ صاحبہ کی وفات کے بعد ، بہت سی خواتین میری ، میرے بھائیوں کی بیویوں اور میری بہن اور اْس کی سسرالی خواتین کو بتاتی رہی ہیں کہ ’’ مرزا شجاع اْلدّین بیگ کی اہلیہ محترمہ اصغری بیگم ہمارے لئے ’’ ماں سی‘‘ (ماں جیسی ) تھیں‘‘۔ معزز قارئین!۔ مَیں گذشتہ 22 سال سے مرزا محمد سلیم بیگ کی اہلیہ ( راجپوت برادری کی بیٹی ، میری بھی بیٹی ) بیگم طاہرہ سلیم بیگ کو دیکھ رہا ہْوں ، وہ اپنے تینوں بیٹوں ، موسیٰ سلیم بیگ ، سلیمان سلیم بیگ، خضر سلیم بیگ اور بیٹی عنایہ سلیم بیگ کی حقیقی ماں کے فرائض تو ، بڑی خوبی سے انجام دے رہی ہیں لیکن، اپنی مرحومہ ساس ( اصغری بیگم صاحبہ ) کے نقشِ قدم پر چلتے ہْوئے غریب خاندانوں کی بیٹیوں کی ، تعلیم و تربیت اور شادیوں کا بندوبست کر کے ثوابِ دارین حاصل کر رہی ہیں۔ مَیں سوچتا رہا اور اب بھی سوچ رہا ہْوں کہ ’’ جنت مکانی‘‘ مرزا شجاع اْلدّین بیگ امرتسری اور اْن کی اہلیہ اصغری بیگم کی رْوحوں کو کتنا سکون مل رہا ہوگا؟‘‘ (بشکریہ: نوائے وقت)


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *