’’دہر میں اسمِ محمدؐ سے اُجالا کردے !‘‘

معزز قارئین!۔پاکستان قائم ہُوا تو ، میری عُمر تقریباً 11 سال تھی۔ اُس سے قبل 12 ربیع الاوّل (3 فروری ) 1947ء کو مشرقی ( اب بھارتی ) پنجاب کی سِکھ ریاست نابھہ میں مجھے ، اپنے والد صاحب ’’ تحریک پاکستان ‘‘ کے (گولڈ میڈلسٹ) کارکن رانا فضل محمد چوہان ، دو چچائوں رانا فتح محمد چوہان اور رانا عطاء محمد چوہان کے ساتھ ، پہلی بار ، عید میلاد اُلنبیؐ کا شاندار جلوس دیکھنے کا موقع مِلا۔ مَیں حیران تھا کہ ’’ میرے بڑے چچا ، جلوس میں شامل کچھ دوسرے مسلمانوں کی طرح ، اونٹ پر سوار تھے اور اُنہوں نے عربی لباس پہنا ہُوا تھا اور سر پر رومال عقّال باندھ رکھا تھا۔
مَیں نے جلوس کے کئی شُرکاء کو باری باری بلند اور سُریلی آوازوں میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم کی شان میں نعتیں پڑھتے اور سُناتے دیکھاتو، مجھے بہت اچھا لگا۔ مجھے پنجابی زبان کی کچھ نعتوں کے شعر یا مصرعے ابھی تک یاد ہیں ۔ ایک تھا ۔
سارے جگ تو ں ، نِرالیاں دِسّدِیاں نَیں ،
مدنی سرکار دِیاں گلیاں !
تحریکِ پاکستان کے دَوران ریاست نابھہ ، سِکھوں کی دوسری ریاست پٹیالہ اور ضلع امرتسر میں میرے خاندان کے 26 افراد سِکھوں سے لڑتے ہُوئے شہید ہوگئے تھے ۔ قیام پاکستان کے بعد ہماران خاندان پاک پنجاب کے سرگودھا ؔ شہر میں آباد ہُوا ۔ میرے والد صاحب مجھے میلاد شریف کی محفلوں میں لے جاتے تھے ۔ محفل کے اختتام سے پہلے ، جب اہلِ محفل انتہائی عقیدت و احترام کے ساتھ کھڑے ہو کر ، نعت خواں حضرات کے ساتھ مل کر بلند آواز سے سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ آلہ ِ وَسلم کی خدمت میں سلامؔ پیش کرتے تو، مجھے ، کئی بار یوں محسوس ہُوا کہ حضور پُر نُور محفل میں تشریف لے آئے ہیں ؟ ۔
مَیں نے 1956ء میں میٹرک پاس کِیا تو اردو زبان میں پہلی نعت لکھی جو، لائل پور ( اب فیصل آباد) کے روانامہ ’’ڈیلی بزنس رپورٹ‘‘ میں شائع ہُوئی۔ 1960ء میں مَیں گورنمنٹ کالج سرگودھا میں ’’ بی۔ اے ۔ فائنل کا طالبعلم تھا ، جب مَیں نے مسلکِ صحافت اختیار کِیا ۔ قبل ازیں مجھے کئی بزرگ شاعروں کا اردو ، فارسی اور پنجابی کلام پڑھنے اور سُننے کا موقع ملتا رہا۔ معزز قارئین!۔میرے آبائو اجداد کا تعلق قدیم بھارت کے صوبہ راجستھان کے شہر اجمیرؔ سے تھا جہاں اُنہیں خواجہ غریب نواز، نائب رسول ؐ فی الہند ، حضرت مُعین اُلدّین چشتی کے دستِ مبارک پر اسلام قبول کرنے کا شرف حاصل ہُوا۔ مَیں کئی سالوں سے اپنے جدّی پُشتی پیر و مُرشد کا ( فارسی زبان میں ) کے دیوان کا مطالعہ کر رہا ہُوں اور گذشتہ دو سال سے مجھے قادریہ سلسلہ کے بانی غوث اُلاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کے دیوان کا مطالعہ کرنے کا بھی موقع مل رہا ہے ۔
حضرت غوث اُلاعظمؒ فرماتے ہیں کہ …
گرنبودے رُوئے تو می بود در کتم عدم!
ہم ولی و ہم نبی وہم سموٰات و سمک!
یعنی۔ ( یا صاحب لو لاک ، یا صاحب جمال!۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم کا حسین اور پُر نُور چہرہ ٔ مبارک نہ ہوتا تو، کوئی ولی ؔاور کوئی نبی ؔاور سموٰات یا سمک پیدا ہی نہ ہوتے)۔
تا ملک بشنودہ است صلوٰۃ تو از امُت!
عُذر خواہی از گُناہ امُتّے شد برملک!
یعنی۔ ( جب ملائکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم کی اُمت کا درود و صلوٰۃ سُنتے ہیں تو، آپ ؐ کی اُمت کے گناہوں کی معافی کی سفارش کرتے ہیں )۔
خواجہ غریب نوازؒ نے ہر عاشق ِ رسول ؐ کو بشارت دیتے ہُوئے فرمایا کہ …
امروز خُون عاشق در عشق اگر ہدرشد!
فردا ز دوست خواہم تاوانِ ما محمدؐ!
یعنی۔’’ آج اگر عشق کی سرشاری میں عاشق نے ( اپنا ) خُون بہا دِیا ہے تو، کل کو یوں ہوگا کہ ، ہمارے نبی اکرم ؐ ہمیں اپنے ربّ سے اُس کا معاوضہ دِلوا دیں گے ‘‘۔
از امُتّانِ دیگر ما آمدیم برسَر!
وآں را کہ نِیست با در بُرہانِ ما محمدؐ !
یعنی۔ ’’ جتنی اُمتیں بھی آئی ہیں، ہمیں اُن سب پر امتیاز حاصل ہے کہ ، اُن کے مقابلے میں ہمارے نبی ؐ کامل و اکمل ہیں ، جن کی گواہی اللہ تعالیٰ بھی دیتے ہیں ‘‘۔
معزز قارئین!۔ مَیں نے بھی اپنی بِساط کے مطابق کئی نعتیں لکھیں اور منقبتیں بھی۔ میری ایک نعت کے تین شعر یوں ہیں …
یوں ضَو فِشاں ہے ، ہر طرف ، کردار آپؐ کا!
ارض و سماء ، ہے حلقۂ انوار ، آپؐ کا!
…O…
مخلُوقِ کائنات ہو یا خالقِ عظِیم!
مَدحت سَرا ہے ، ہر کوئی سرکار آپؐ کا!
…O…
مولا علیؑ و زَہراس، حسن ؑ اور حسین ؑ سے!
عرشِ برِیںسے کم نہیں ، گھر بار آپؐ کا!
معزز قارئین!۔ خالق عظیم کی دعوت پر جبرائیل ؑ امین ، حضور پُر نُور صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم کو ، برّأق پر سوار کرا کے ’’عرش بریں ‘‘ پر لے گئے تھے ۔ جسے معراجِؔ رسولؐ کہا جاتا ہے ۔ معراج ؔشریف کے بارے میں بھی آئمہ اطہار ؑ، صحابہ کرامؓ ، نے بہت کچھ بیان کِیا، جن کی بنیاد پر محدّثین اور مفسرّین نے بے شمار کتابیں لِکھیں ، جن کادُنیا کی ہر زبان میں ترجمہ ہُوا۔ ’’مالکِ کائنات ‘‘ سے ’’سرورِ کائنات ؐ ‘‘ سے ملاقات تو اُن کا آپس کا معاملہ ہے لیکن، مختلف آسمانوںپر مختلف انبیائے کرامؒ سے خاتم اُلانبیاء ؐ ‘‘ سے کیا کیا باتیں کِیں ؟ ، اُن کا تذکرہ کتابوں میں ملتا ہے اور یہ تذکرہ بھی مِلتا ہے کہ ’’پیغمبرِ انسانیت ؐ ‘‘ نے مختلف آسمانوں پر کیا کیا دیکھا؟۔
مَیں اُن میں سے صِرف چار طبقوں کا احوال بیان کروں گا ۔ محدّثین اور مفسرّین کے مطابق ٭ آپؐ نے دیکھا کہ ’’ کچھ لوگوں کا گوشت کاٹ کاٹ کر اُنہیں کھلایا جا رہا ہے ‘‘۔ آپؐ کو بتایا گیا کہ ’’یہ لوگ چغل خور تھے‘‘ ۔
٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم نے دیکھا کہ ’’ کچھ لوگوں کی زبانیں اور ہونٹ کاٹے جا رہے ہیں ، جب وہ کٹ جاتے تو وہ ویسے ہی ہو جاتے ‘‘۔ آپؐ کو بتایا گیا کہ ’’ یہ آپؐ کی اُمّت کے وہ ’’ واعظین‘‘ ( لوگوں کو نصیحت ، ہدایات ، تلقین کرنے والے ) اور خطِیب ( خطبے پڑھنے / دینے والے ) ہیں جو ، دوسروں (مسلمانوں) کو تو لمبی چوڑی نصیحتیں کرتے رہتے یتھے مگر خود اُن پر عمل پیرا نہیں ہوتے تھے ‘‘۔
٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم نے ، کچھ لوگوں کو دیکھا کہ ’’وہ ، سڑا ہُوا گوشت کھا رہے ہیں ‘‘ ۔ آپؐ کو بتایا گیا کہ’’ یہ آپؐ کی امّت کے وہ لوگ ہیں ، جو سرمایہ پرستی کی ہَوس میں ، مبتلا ہو کر حقوق اُلعباد ، سے پہلو تہی کرتے تھے ‘‘۔
٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم نے سُود خوروں کو ، اِس حال میں دیکھا کہ ’’ اُن کے پیٹ سانپوں سے بھرے ہُوئے ہیں ‘‘۔ ایک سُود خور کو دیکھا کہ ’’ وہ خون کی ندی میں تیر رہا تھا اور جب وہ ، ندی سے باہر نکلنا چاہتا تھا تو ، لوگ اُسے پتھر مارتے اور وہ پھر ندی کے اندر چلا جاتا تھا‘‘۔
’’رحمتُہ للعالمین ؐ کا مشاہدہ!‘‘
معزز قارئین!۔ خاتم اُلنبین صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم نے معراج شریف میں مختلف آسمانوں پر مختلف طبقّوں کی حرکتوں کا مشاہدہ تو کِیا تھا کیا آپ( صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم) نے 12 ربیع الاوّل کو عید میلاد اُلنبیؐ کے دَوران ’’ فرشِ پاکستان ‘‘ ۔ (ارضِ پاکستان ) کے اُس طرح کے طبقّوں کی حرکتوں کا مشاہدہ نہیں کِیا ہوگا ؟۔ بہرحال عاشقِ رسول ؐ ، مصّور ِ پاکستان ، علاّمہ اقبالؒ نے تو، قیام پاکستان سے بہت پہلے ہی (پاکستان سمیت ) دُنیا کے ہر مسلمان حکمران کو اپنی ایک نظم میں یہ خُدائی پیغام دِیا تھا کہ …
قوتِ عِشق سے ہر پست کو بالا کردے!
دہر میں اسمِ محمدؐ سے اُجالا کردے !
لیکن، سوال یہ ہے کہ ’’کیا موجودہ وزیراعظم عمران احمد خان نیازی اور اُن کی حمایتی سیاسی جماعتوں کے قائدین ، عشقِ رسول ؐ کی اتنی قوت ہے کہ ’’ وہ اسمِ محمدؐ سے ہر پست ( پاکستان کے 60 فی صد مفلوک اُلحال لوگوں ) کو بالا کردیں؟‘‘۔


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *