یہ آج سے چھ سال پرانی بات ہے‘ میں ایک درمیانے سائز کی کمپنی چلا رہا تھا‘ ہم لوگ امریکی کمپنیوں ’’کو آئی ٹی سلوشن‘‘ دیتے تھے‘ ہمارے سلوشن دس پندرہ ڈالر مالیت کے ہوتے تھے لیکن ہمارے گاہکوں کی تعداد زیادہ تھی چناں چہ دس پندرہ ڈالر ایک دوسرے کے ساتھ ضرب کھا کر بڑی رقم بن جاتے تھے‘ ہمارے کام کے ساتھ تین ساڑھے تین سو لوگ وابستہ تھے۔

یہ لوگ اپنے گھروں میں بیٹھ کر کام کرتے تھے‘ ہم ان کا کام ’’پول‘‘ کرتے تھے اور اس کی نوک پلک سنوار کر اسے انٹرنیشنل اسٹینڈرڈ کے مطابق بنا کر کمپنیوں کو بھجوا دیتے تھے‘ ہماری زندگی ہموار اور رواں چل رہی تھی مگر پھر اچانک صدر اوبامہ نے پالیسیاں تبدیل کرنا شروع کر دیں‘ یورپ اور امریکا میں پاکستان کا امیج بھی مزید خراب ہو گیا لہٰذا کمپنیوں کو جوں ہی پتا چلتا تھا ہم پاکستانی کمپنی ہیں‘ وہ ہم سے رابطہ منقطع کر دیتی تھیں۔

یہ سلسلہ بڑھتے بڑھتے وہاں پہنچ گیا جہاں ہمارا بزنس تیزی سے نیچے آنے لگا‘ ہمارے بینک اکائونٹ خالی ہو گئے‘ لوگ فارغ بیٹھ گئے اور ہم پریشانی سے ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے‘ میرا صرف ایک ’’سورس آف انکم‘‘ رہ گیا اور وہ تھا صحافت‘ میں ان دنوں شدید ڈپریشن سے گزر رہا تھا۔

میں ڈپریشن میں ہمیشہ عجیب وغریب حرکتیں شروع کردیتا ہوں‘ میں پیدل چل پڑتا ہوں اور چلتے چلتے بعض اوقات کسی اجنبی گائوں یا دوسرے شہر پہنچ جاتا ہوں یا میں ائیرپورٹ جاتا ہوں اور مجھے جہاں کی فلائیٹ مل جائے میں اس میں چڑھ جاتا ہوں یا میں ٹرین میں سوار ہو جاتا ہوں یا کسی لوکل بس میں داخل ہو کر سارا دن اس میں گزار دیتا ہوں یا پھر انتہائی پرانی تھکڑ ٹیکسی میں گھس جاتا ہوں اور اسے کہتا ہوں تم بس چلتے رہو اور جہاں دل چاہتا ہے اتر کر چل پڑتا ہوں‘ ڈپریشن دور کرنے کا یہ طریقہ میں نے خود ایجاد کیا اور یہ کم از کم میرے سلسلے میں بہت کارگر ثابت ہوتا ہے‘ میں نے اس دن بھی یہی کیا‘ میں گھر سے نکلا‘ چوک میں گیا اور انتہائی تھکڑ ٹیکسی میں سوار ہو گیا۔

یہ1987ء کی ایف ایکس گاڑی تھی‘ اس کا کوئی پرزہ ٹھیک کام نہیں کر رہا تھا‘ گاڑی آگے چلنے کے ساتھ ساتھ پھڑک کر دائیں بائیں بھی چل پڑتی تھی‘ ڈرائیور گاڑی سے بھی زیادہ بیمار اور بوڑھا تھا‘ میں نے اس ٹیکسی میں بمشکل ہزار میٹر سفر کیا اور میرا ڈپریشن خوف میں تبدیل ہو گیا‘ میں ڈر گیا اور میں ڈرائیور سے ٹیکسی روکنے کے لیے منتیں کرنے لگا‘ ڈرائیور نے بڑی مشکل سے بریک لگائی‘ میں نیچے اترا‘ جیب میں ہاتھ ڈالا‘ پانچ سو روپے کا نوٹ نکال کر ڈرائیور کو دیا اور فٹ پاتھ پر پیدل چلنے لگا۔

میں نے تھوڑی دیر بعد محسوس کیا کوئی میرے پیچھے دوڑ رہا ہے‘ میں نے خوف زدہ ہو کر مڑ کر دیکھا‘ ٹیکسی کا ڈرائیور میرے پیچھے سرپٹ بھاگ رہا تھا‘ میں رک گیا‘ وہ بیمار اور بوڑھا تھا‘ وہ بڑی مشکل سے میرے قریب پہنچا‘ لمبے لمبے سانس لینے لگا اور جب سانس بحال ہو گیا تو اس نے گلوگیر آواز میں کہا ’’سر میں آپ کے ہاتھ چومنا چاہتا ہوں‘‘ مجھے میری نام نہاد کام یابی نے اس لیول تک پہنچا دیا ہے جہاں میرے جیسے چھوٹے لوگ خود کو مقدس سمجھنے لگتے ہیں اور ہر شخص سے توقع کرتے ہیں یہ بھی میرا فین ہوگا۔

میں نے اس ٹیکسی ڈرائیورکو بھی اپنا فین سمجھا اور متکبر لہجے میں کہا ’’نہیں‘ نہیں باباجی کوئی بات نہیں‘ میں بھی آپ جیسا انسان ہوں‘‘ ڈرائیور نے میری بات پر توجہ دیے بغیر کہا ’’سرمجھے چار دن سے کوئی سواری نہیں ملی تھی‘ میرے گھر میں دو دن سے فاقہ چل رہا تھا‘ صاحب آپ فرشتہ بن کر آئے اور مجھے پانچ سو روپے دے دیے‘ میں اب آٹا اور دال لے کر سیدھا گھر جائوں گا اور اپنی بیوہ بیٹی اور نواسے نواسوں کو کھانا کھلائوں گا لیکن میں گھر جانے سے پہلے اپنے محسن کے ہاتھ ضرور چوموں گا‘‘ وہ یہ کہہ کر میرے ہاتھ کی طرف لپکا اور میرا ہاتھ اپنے گندے اور کھردرے ہاتھوں میں لے لیا اور میں سکتے کے عالم میں اس کی طرف دیکھنے لگا۔

مجھے اس وقت محسوس ہوا‘ میرا تازہ تازہ بزنس فلاپ ہوا ہے‘ میں کریش کر رہا ہوں لیکن میں اس کے باوجود اس شخص کی نظروں میں دنیا کا امیر ترین شخص ہوں‘ میں اس شخص کی نظروں میں صرف پانچ سو روپے کی وجہ سے ان داتا ہوں‘ فٹ پاتھ پر اس وقت دو لوگ کھڑے تھے‘ میں اور وہ ڈرائیور‘ میں خود کو ناکام‘ ڈائون اورلوزر سمجھ رہا تھا جب کہ میں ڈرائیور کی نظروں میں دنیا کا امیر اور سخی ترین شخص تھا‘ میں نے فوراً ڈرائیور کا ہاتھ پکڑا اور اس کا رخ موڑا‘ اسے اپنی جگہ کھڑا کیا اور خود اس کی جگہ کھڑا ہو گیا اور پھر وہ لمحہ آ گیا جس نے مجھے دنیا کی چوتھی سچائی سمجھا دی اور وہ چوتھی سچائی تھی ہم ناکام ہونے‘ بدحال ہونے اور کریش ہونے کے بعد بھی جہاں پہنچ جاتے ہیں وہ جگہ لاکھوں‘ کروڑوں بلکہ اربوں لوگوں کی زندگی کا سب سے بڑا خواب ہوتی ہے۔

لوگ نسلوں کی محنت کے بعد بھی اس جگہ تک نہیں پہنچ پاتے جہاں ہم اونچائی سے گرنے کے بعد‘ ناکام ہونے کے بعد ٹک جاتے ہیں‘ ہمارے ملک میں اس وقت بھی کروڑوں لوگ صرف پانچ سو روپے کے لیے سارا دن فٹ پاتھ پر گزار دیتے ہیں‘ ہمیں جس دن پانی کی بوتل نہیں ملتی اور ہم نلکے کا پانی پینے پر مجبور ہو جاتے ہیں‘ نلکے کا وہ پانی کروڑوں لوگوں کی زندگی کا سب سے بڑا خواب ہوتا ہے‘ ہم آدھا برگر اپنی پلیٹ میں چھوڑ کر گھر آ جاتے ہیں‘ لاکھوں لوگ برگر کے اس ٹکڑے کے لیے پوری زندگی آسمان کی طرف دیکھتے رہتے ہیں‘ ہم ریستوران میں ٹرائی کرنے کے لیے چار ڈشیں منگوا لیتے ہیں‘ پسند نہیں آتیں تو چھوڑ دیتے ہیں۔

دنیا میں اس وقت بھی ایسے کروڑوں لوگ موجود ہیں جو ایسے کھانوں کی صرف خوشبو سونگھنے کے لیے کچرا گھروں کا کچرا ادھیڑتے رہتے ہیں‘ ہم چائے کی جگہ کافی پیتے ہیں لیکن ہمارے دائیں بائیں ایسے لاکھوں لوگ موجود ہیں جن کی نظر میں چائے دنیا کی سب سے بڑی عیاشی ہے‘ ہم رات سوتے وقت گندے مندے کپڑے پہنتے ہیں‘ ہمارے چار چار سال پرانے سلیپر‘ ہماری ٹوٹی ہوئی پلیٹس‘ ہماری پھٹی ہوئی کتابیں‘ خراب کاپیاں اور ہمارے بچوں کے ناکارہ کھلونے یہ بھی اربوں لوگوں کی زندگی کا سب سے بڑا خواب ہوتے ہیں‘ لوگ آٹے کے ایک تھیلے‘ گھی کے ایک ڈبے اور سر کے ایک دوپٹے کے لیے سارا سارا دن لوگوں کی دہلیزوں پر بیٹھے رہتے ہیں‘ یہ لوگ اپنے کپڑے خود خرید سکیں‘ یہ جیب سے پیسے نکالیں اور دکان سے جو چاہیں خرید لیں یہ مسرت ان کی زندگی کا سب سے بڑا خواب ہوتی ہے‘ یہ اس سطح تک پہنچنے کے لیے گڑگڑا کر دعائیں کرتے رہتے ہیں۔

ہم میٹرک پاس ہیں‘ ہم بی اے میں تیسرے درجے میں پاس ہوئے اور ہم نے چار سال میں گھسٹ گھسٹ کر ایم اے کر لیا‘ ہمیں منتوں اور دعائوں کے بعد کلرک کی نوکری ملی‘ ہمارے پاس صرف اسکوٹر یا صرف ٹوٹا ہوا سائیکل ہے‘ ہم ایف ایکس گاڑی چلا رہے ہیں اور ہم دو مرلے کے گھر میں رہتے ہیں لیکن ہم نے کبھی سوچا دنیا میں کتنے لوگ ہیں جو تین تین نسلوں سے دو مرلے کے اس گھر کو ترس رہے ہیں‘ ممبئی اور کولکتہ میں آج بھی لاکھوں لوگ فٹ پاتھوں اور سڑکوں پر پیدا ہوتے ہیں اور پوری زندگی ان فٹ پاتھوں پر گزار کر انھی فٹ پاتھوں پر مر جاتے ہیں اور میونسپلٹی کے سویپر ان کی لاشیں کچرا گاڑیوں میں لاد کر لے جاتے ہیں۔

آپ اپنی ٹوٹی ہوئی سائیکل خیرات کرنے کا اعلان کر دیں‘ آپ کے گھر کے سامنے دنگا ہو جائے گا‘ لوگ ٹوٹی سائیکل کے لیے ایک دوسرے کا سر کھول دیں گے‘ یہ ٹوٹی ہوئی سائیکل ان لوگوں کی زندگی کا بہت بڑا خواب ہے‘ آپ میٹرک کے بعد دائیں بائیں دیکھیں‘ آپ کو کروڑوں لوگ میٹرک کی سند سے محروم ملیں گے‘ یہ لوگ نسلوں سے ہائی اسکولوں کو حسرت سے دیکھ رہے ہیں لیکن یہ اسکول کی دہلیز کے اندر داخل نہیں ہو پا رہے‘ ہمارے ملک میں کروڑوں لوگ کلرک کی نوکری کے لیے اپنے جیسے لوگوں کے تلوے تک چاٹنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں اور آپ کو کروڑوں ایسے لوگ بھی مل جائیں گے جو آپ کی پالتو بلی اور جرمن کتے کی خوراک کو حسرت سے دیکھیں گے۔

یہ نسلوں کے سفر کے باوجود اس خوراک تک بھی نہیں پہنچ سکے‘ ہمارے ملک میں آج بھی ننانوے فیصد لوگ ہوائی سفر نہیں کر سکے‘ یہ ائیر پورٹ کے لائونج میں داخل نہیں ہوئے‘ ساٹھ فیصد لوگ پوری زندگی کموڈ پر نہیں بیٹھے اور کافی کا ذائقہ کیسا ہوتا ہے ملک کے 80 فیصد لوگ یہ بھی نہیں جانتے‘ لاکھوں لوگ پینا ڈول کی گولی‘ شوگر کی ٹیبلٹ اور بلڈ پریشر کی دوا کو ترستے ترستے مر جاتے ہیں‘ لوگ قصابوں کی دکانوں سے چھیچھڑے اکٹھے کر کے پکاتے ہیں‘ اوجھڑیاں ابال کر کھاتے ہیں‘ لوگوں کے اترے کپڑے پہنتے ہیں‘ پانچ پانچ سال لوگوں کے پرانے سلیپر گھسیٹتے ہیں اور حلوے‘ کیک اور رس ملائی کے ذائقے کو ترستے ترستے دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں۔

میں پانچ سال پہلے کاغذ کی ایک سائیڈ پر لکھا کرتا تھا‘ مجھ سے ایک دن میرے ایک ملازم نے کہا ’’آپ مجھے یہ کاغذ دے دیا کریں‘‘ میں نے پوچھا ’’کیوں‘‘ وہ بولا ’’سر میں اپنی بیٹی کو دے دیا کروں گا‘ وہ کاغذ کی صاف سائیڈ پر ہوم ورک کر لیا کرے گی‘‘ میں نے اس کی بیٹی کی کاپیوں اور کتابوں کا خرچ اٹھا لیا اور کاغذ کی دو سائیڈوں پر لکھنا شروع کر دیااور میں ریستوران میں پلیٹ میں کھانا نہیں چھوڑتا‘ پیک کراتا ہوں‘ چوکوں میں کھڑے بچوں کو دیتا ہوں‘ ہم نے کبھی سوچا ہم زندگی میں جس ناکامی‘ جس محرومی اور جس زوال کو زوال سمجھتے ہیں وہ زوال‘ وہ محرومی اور وہ ناکامی کتنے لوگوں کی زندگی کا سب سے بڑا خواب ہوتی ہے‘ لوگ نسلیں خرچ کر کے بھی اس کھجور تک نہیں پہنچ پاتے جس میں ہم آسمان سے گر کر اٹک جاتے ہیں اور باقی زندگی شکوئوں میں گزار دیتے ہیں۔

وہ بوڑھا ڈرائیور میرے سامنے کھڑا تھا‘ میں نے اپنے دونوں ہاتھوں میں اس کے کھردرے ہاتھ پکڑ رکھے تھے اورزاروقطار رو رہا تھا اور وہ حیرت سے میری طرف دیکھ رہا تھا‘ وہ حیران تھا میری جیب میں جب پانچ پانچ سو روپے کے نوٹ ہیں تو پھر میں کیوں رو رہا ہوں‘ میں کیسے دکھی ہو سکتا ہوں؟ میں اسے کیسے بتاتا میں ناشکری کے مرض میں مبتلاہوں اور ناشکری ایک ایسا کینسر ہے جس کا علاج بڑے سے بڑے ڈاکٹر کے پاس بھی موجودنہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *