پائوں ننگے ہیں بینظیروں کے

کئی سال ہوئے جب بینظیر بھٹو کی پہلی حکومت تھی اور حبیب جالب اسلام آباد میں ایک مشاعرے میں مدعو تھے جسکی صدارت بیگم نصرت بھٹو کر رہی تھیں۔ حبیب جالب نے وہاں اپنے یہ مشہور شعر پڑھے تھے:

وہی حالات ہیں فقیروں کے

دن پھرے ہیں تو بس وزیروں کے

کتنے بلاول ہیں دیس میں مقروض

پائوں ننگے ہیں بینظیروں کے

مجھے اب بھی یاد ہے کہ اسی زمانے میں سرائیکی وسیب میں ملتان کے قریب کھیتوں میں کپاس چنتی عورتوں نے ایک ہمارے دوست اور سابق صحافی کو سرائیکی کے انداز میں کہا تھا’’نظیراں (بینظیر) کو جاکر ہمارا یہ پیغام دینا کہ چاہے ہمارے پائوں ننگے ہی سہی لیکن وہ ہر شام ٹی وی پر یوں ہی آتی رہے اور ہم تجھے یونہی دیکھتے رہیںگے‘‘ لیکن حبیب جالب جیسے شاعر نے تب بھی ان ننگے پائوں غریبوں کی طرف سے کہہ دیا تھا پائوں ننگے ہیں بینظیروں کے۔ یعنی کہ ملک کی ہر غریب اور مظلوم عورت کے پائوں ننگے ہیں۔

یہ سب مجھےتب یاد آیا جب میں نے پچھلے دنوں میڈیا میں سندھ کی ایک نڈر پڑھی لکھی مظلوم لڑکی وکیل ام رباب چانڈیو کو ایک عدالت سے باہر آتے ہوئے ننگے پائوں دیکھا۔ پولیس کمانڈوز کے پہرے میں یہ نوجوان خاتوں وکیل نے احتجاجی طور پر پائوں ننگےکئے ہوئے تھے کہ اس کے دادا، چاچا اور والد کے تہرے قتل میں ملوث ملزمان پر اب تک فرد جرم عائد نہیں ہوئی ہے جبکہ اسے مسلسل جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی مل رہی ہیں۔

ام رباب کا تعلق دادو ضلع میں میہڑ کے چانڈیو قبیلے کے معزز خاندان سے ہے۔ اس کے خاندان کے تین افراد ڈیڑھ سال قبل قتل کردئیے گئے تھے۔ جس کا الزام براہ راست مقتولین کے لواحقین نے اپنے قبیلے کے سرداراور اس کے بھائی پر لگایا تھا۔ چانڈیو قبیلے کے سردار اور اس کے بھائی دونوں کا تعلق سندھ میں حکمراں پاکستان پیپلزپارٹی سے ہے۔ مقتولین کا تعلق بھی حکمراں پاکستان پیپلزپارٹی سے تھا لیکن جب پارٹی کے منتخب نمائندے اور سردار کوئی ظلم کریں تو سندھ میں پی پی پی ہمیشہ اپنی پارٹی کے سرداروں، وڈیروں کا ہی ساتھ دیتی ہے کیونکہ وہ انہیں آج کی پاور پالیٹکس میں’’الیکٹیبلز‘‘ کہتے ہیں ۔ یعنی ان کے خیال میں آج بھٹو سندھ میں زندہ انہی ’’الیکٹیبلز‘‘کےدم سے ہے۔

یہ بینظیر بھٹو ہی تھیںجس نے ڈاکٹر فوزیہ بھٹو کے قتل میں ملوث اپنے نوابشاہ کے رکن صوبائی اسمبلی رحیم بخش جمالی کو نہ صرف پارٹی سے نکالا تھا بلکہ اسکی رکنیت بھی ختم کروائی تھی۔ ’’بینظیر جس طرح اخبارات اور جرائد پڑھتی تھیں سندہ کے موجودہ حکمراں اب نہیں پڑھتے۔ میں نے حکمران پارٹی کے قدرے ہمدرد اور سندھ میں فعال صحافی دوست سے پوچھا۔ اس کا جواب تھا کہ حکمراں پیپلزپارٹی کےاکثر رہنما اوروزیر صرف پلاٹوں کے کاغذات پڑھتے ہیں۔اس غمزدہ نوجوان خاتون نے اپنے دادا، بھائی اور باپ کی قبروں سے توانائی حاصل کرکے اپنے غم کو ایک احتجاج اور توانائی میں بدل دیا ہے۔ انصاف کے حصول کے لئے لڑنے کی توانائی۔ علاقے میں چانڈیو قبیلے کی اس نسل کی یہ پہلی عورت ہے جس نے قانون کی ڈگری لی ہے۔ ام رباب کو پاکستانی عدالتوں سے انصاف پر یقین تو ہے لیکن اسے غیر ضروری تاخیر پر تحفظات ہیں ۔اس کا ننگے پائوں احتجاج پارٹی کی بے حسی پربھی ہے۔ اگلے روز وہ جیو کے ایک پروگرام میں کہہ رہی تھی’’عدالت ماں کی طرح ہوتی ہے وہ ضرور اس طرح انصاف کرے گی جس طرح ماں اپنےبچوں سےکرتی ہے۔‘‘

جون2018میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے ام رباب کو اپنی بیٹی کہتے ہوئے اسکے دادا کرم علی، والد اور چچا کے قتل کا مقدمہ دو ماہ کی مدت میں مکمل کر کے فیصلے کا حکم جاری کیا تھا۔ سترہ جنوری دو ہزار اٹھارہ کو میہڑ شہر کی مارکیٹ میں دن دہاڑے ہونے والے تہرے قتل کے مقدمے میں بقول ام رباب اب تک فرد جرم ہی عائد نہیں ہوئی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ انکے والد چچا اور دادا کے قتل کا مقدمہ سکھر میں لگا ہوا ہے اور سکھر جانےکے لئے لاڑکانہ سے گزر نا پڑتا ہے جو کہ ان با اثر ملزمان کا حلقہ طاقت و اثر ہے۔ اسی لئے اس نوجوان خاتون کو جان کا خطرہ ہے کیونکہ اسے کئی دفعہ قتل کی دھمکیاں بھی مل چکی ہیں۔ وہ کہتی ہے اس لئے اس کا مقدمہ کراچی منتقل کیا جائے۔

ام رباب کی کہانی تقریباً سندھ کے ہر چھوٹے شہر اور گائوں کی کہانی ہے۔ تمام مظلوم عورتیں اور مرد اگر ام رباب کی طرح ظلم و نا انصافی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر نکل پڑیں۔ جیسے فیض نے فرمایا تھا دست قاتل کو جھٹک دینے کی توفیق ملے۔ لیکن ایسے کہاں ہوسکتا ہے کہ یہاں بقول پروین شاکر انصاف سے قاتل بڑا ہے، ام رباب نے سرداروں اور وڈیروں کو سوشل میڈیا پر پیغام بھیجا ہے کہ وہ ان کی دھمکیوں سے ڈرنے والی نہیں ۔نیز یہ بھی کہ جو فیصلہ ملکی عدالتیں کریں گی اسے اور اس کے خاندان والوں کو منظور ہوگا۔

میں اسے جسٹس ویمن کہوں گا۔کئی روز قبل کراچی رجسٹری میں وہ چیف کی گاڑی کے آگے اپنا مطالبہ لے کر پہنچی تھی۔ اب ننگے پائوں نکلی ہے، سندھ کی پرعزم عورت کاکردار سسی کی طرح کا۔ حبیب جالب ہوتا تو اسے بھی ننگے پائوں بینظیر ہی شمارے کرتا۔ تو پس عزیزو شاید تم کو یہ بھی یاد ہو کہ بینظیر بھٹو وزیر اعظم ہونے کے باوجودبھی اپنے جواں سال کڑیل بھائی کے قتل کا سن کر ننگے پائوں مڈ ایسٹ اسپتال پہنچی تھیں۔


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *