شمالی سندھ کے سریوں کے بادشاہ

گھوٹکی ضلع کے میرپور ماتھیلو کے علاقے میں ایک نوجوان مقامی سردار نے جو کہ وفاق میں حکمران پارٹی کا عہدیدار بھی ہے، مبینہ طور پر اپنے ڈرائیور پر گاڑی خراب ہونے کی شکایت کرنے پر بہیمانہ تشدد کیا اور اسے زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا کر دیا۔ خبریں ہیں کہ نوجوان سردار لاہور گئے ہوئے تھے، اپنے منشی کی ڈرائیور کے خلاف گاڑی خراب ہونے کی شکایت پر میرپور ماتھیلو واپس آئے اور اپنے بنگلے پر منشی اور دیگر حواریوں سے اپنی نگرانی میں ڈرائیور پر بہیمانہ تشدد کرایا۔ اس کیس کو بڑے پیمانے پر مقامی صحافیوں کے ایک بڑے حصے نے الیکٹرونک و پرنٹ میڈیا میں رپورٹ کیا ہے۔

سندھ بھر کے اکثر طاقتور گھرانوں کے سرداروں کے سفاکانہ تشدد (تشدد جسمانی ہو کہ ذہنی، ہوتا ہی سفاکانہ ہے) کی کہانیاں باتصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوتی رہتی ہیں جس کی وجہ سے ایسے بہیمانہ اور خلاف انسانیت جرم میں نامزد چند ملزم گرفتار تو کئے گئے ہیں لیکن اصل ملزم سردار آزاد ہے۔ کچھ رپورٹس ہیں کہ اسے میرپور ماتھیلو کے صحرا کے راستے صوبے سے باہر فرار کرا دیا گیا ہے۔

اس واقعے کے دوسرے دن، گزشتہ ہفتے پاکستان تحریک انصاف کی قومی کونسل کے اراکین کی جاری کردہ فہرست میں ملزم سردار کا بھی نام تھا۔ یہ تو بس اتفاق ہی ہے کہ نوجوان سردار کا تعلق عمران خان کی پارٹی سے ہے جس کا یہ نوجوان خود کو ایک مرکزی رہنما بتاتا ہے اور تحریک انصاف کے کئی مرکزی رہنمائوں کے ساتھ پارٹی سرگرمیوں کے حوالے سے اس کی تصاویر بھی ہیں۔ لیکن وہ کسی بھی پارٹی کا ہو سکتا ہے۔ سردار سندھ کے اس حصے سےتعلق رکھتا ہے جسے شمالی سندھ یا اپر سندھ کہتے ہیں۔ وہاں کہاوت ہے کہ سردار کو سات خون معاف ہیں۔ پھر سردار کسی بھی پارٹی کا ہو، یہاں پیر، میر، سردار کی گردن میں سریا ہوتا ہے۔ میں ان کو لارٖڈز آف سریاز کہوں گا۔ وہ پی ٹی آئی کے ہوں، پی پی پی کے کہ مسلم لیگ نواز کے یا فنکشنل لیگ کے، عوام پر تشدد میں سب ایک ہیں۔ اور پھر ایسے بہیمانہ جرم پر لنگوٹیے یا سردار بھائی کو بچانے میں سب ایک ہیں۔ اب اس مقامی سردار کو ہی لیجئے اگر وہ خود پی ٹی آئی میں ہے تو اس کا کزن سردار سندھ میں حکمراں پی پی پی میں۔ اس سے پہلے یہ سردار لوگ پارٹیاں بدلتے رہتے ہیں۔ ان کے بڑوٖں کا کہنا تھا کہ ہم کیا کریں ہم پارٹی نہیں بدلتے حکومتیں ہی بدل جاتی ہیں۔

عوام پر مظالم و سفاکانہ تشدد میں سب ایک ہی صفحے پر ہوتے ہیں۔ یہ ایک علاقہ غیر ہے۔ نو گو ایریا ہے۔ جہاں ہر دس پانچ کوس پر ایک سردار، خان اور وڈیرہ راج کر رہا ہے۔ یہ رجواڑے ہیں۔ یہاں طاقت کا سرچشمہ عوام نہیں خان گڑھ ہے۔ خان گڑھ کے سلامی عمران خان بھی ہیں تو زرداری بلاول بھی تو ادا ادی بھی۔ بھٹو سے لیکر عمران خان تک سب نے یاترا کر رکھی ہے۔ چاہے کتنی ہی جاگیردار مخالف تقریریں کرتے رہے ہوں۔ لیکن آنا ان ہی محلوں کے باسیوں کے پاس ہے۔ یہ سب لارڈز آف سریاز۔ یہاں ان کے جنگل کا قانون ملک میں رائج عدالتی نظام کے متوازی چلتا ہے۔ دریائے سندھ کے بائیں کنارے کشمور سے شروع ہو کر یہ نظام دادو ضلع میں کاچھو تک جاتا ہے۔ ادھر کھینجو ریتی سے لیکر چونٖڈکو خیرپور میرس تک جاتا ہے۔ ان کے ایک ابرو کی ہلکی سی جنبش سے لوگ قتل ہوتے ہیں۔ چالیس، پچاس ساٹھ قتلوں کے پرانے قبائلی تنازعات کے فیصلے ان کے ہی جرگائی جہان کی عدالتوں میں ہوتے ہیں۔ ریسٹ ہائوسز میں پولیس کے پہرے اور انتظامیہ کے پروٹوکول میں باوجود سپریم کورٹ کی جرگوں پر پابندی کے، جرگے ہوتے ہیں۔ مقدم اور منشی فیصلہ لکھتے ہیں۔ قتل قتلوں کے بدل میں ’’مکائے‘‘ جاتے ہیں۔ فریقین پر کروڑوں کے ہرجانے پڑتے ہیں۔ سرداروں کا حصہ الگ ہوتا ہے۔کتنے چیف جسٹس آئے اور گئے لیکن سندھ کا جرگائی نظام جوں کا توں قائم و دائم رہا۔ سرداروں کی سرداری کا کوئی بال بیکا نہ کر سکا۔ فاٹا تو بیچارہ نام میں بدنام ہے۔ کوئی شمالی سندھ کا جرگائی اور سرداری نظام اور ذات برادری کا سسٹم دیکھے، جہاں چور کے چوری کرتے مارے جانے پر بھی جرگہ ہوتا ہے۔ کئی پولیس افسروں تک نے تو چوروں کے مارے جانے پر جرگوں کے ذریعے بھاری جرمانے بھرے ہیں۔ سردار کے قتل کا جرگوں میں معاوضہ قبیلے کے عام آدمی کے خون بہا سے کئی گنا زیادہ ہوتا ہے۔ سردار کا نام لینے والے پر بھی بھاری جرمانہ ہوتا ہے۔ ابھی کل کی ہی بات ہے جب ایک سردار زادے کی طرف سے اس کی زمین پر قبضہ کیے جانے کی فریاد کرنے والے کو جیکب آباد کے ایس ایس پی نے مشورہ دیا کہ وہ ایسے تنازعے کا تصفیہ تھانے کچہری کے بجائے جرگے میں کروائے۔

اسی طرح ڈرائیور پر تشدد کے جرم میں مبینہ طور پر ملوث نوجوان مقامی سردار کا کچھ بھی نہیں بگڑ سکا۔ سوشل میڈیا پر ذرا طوفان تھمنے دیجئے، یہ سردار اپنے تمام اعزازات و خصوصیات کے ساتھ اپنے معمولات پر واپس آ جائے گا۔ بڑے طمطراق کے ساتھ۔ کسی بھی پارٹی میں ہو سردار سردار ہوتا ہے۔ میں نے اس سردار کو ایک ٹی وی شو میں بہت ہی نرم گفتار پایا تھا۔ اگر نرم گفتار سردار زادے کا یہ حال ہے باقی کیا ہوں گے۔ اب ذرا سوشل میڈیا کا زمانہ ہے وگرنہ کتنے خون ان بنگلوں کے قالینوں کے نیچے دفن ہیں۔ کئی شکار ’’بندوق اچانک چھوٹنے‘‘ سے ہوئے۔ کئی عشرے ہوئے کہ اسی سردار کے علاقے میں اس کے پیشرو سردار اور ایم این اے کے زمانے میں آتم نام کا ہندو نوجوان سردار صاحب کے شکار کے دوران اچانک بندوق چل جانے سے خود شکار ہوگیا تھا۔ تب ٹیلی گرام کا زمانہ تھا اور اب سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل ڈیمو کریسی کا زمانہ ہے۔ پر سندھ کا سردار وڈیرہ سدا سبز ہے۔


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *