روشنی نہیں ہوتی اپنا گھر جلانے سے

یہ بہت دنوں کی بات ہے جب پاکستان میں ضیاء الحق کی آمرانہ حکومت تھی۔ یہ انیس سو اسی کی دہائی تھی۔ کراچی میں اردو بولنے والے زعما و اکابرین جنہیں میں اردو بولنے والے سندھی کہتا ہوں، نے ایک تنظیم ’’سندھ یونٹی بورڈ‘‘ تشکیل دیا تھا۔ اس بورڈ میں سید اختر رضوی، نیپ یا نیشنل عوامی پارٹی کے سابق رہنما محمود الحق عثمانی، انتظار حسین زیدی، رئیس امروہوی اور سید محمد تقی سمیت کئی معتبر نام شامل تھے۔ شاید مولانا شاہ احمد نورانی بھی سندھ یونٹی بورڈ کے بنیادی اجلاسوں میں شریک ہوئے تھے۔ سندھ یونٹی بورڈ کا مقصد سندھ کو لسانیت و فرقہ واریت کی آگ اور اسکی وحدت کو بچانے کیلئے اس سرزمین کی دو بڑی لیکن مستقل آبادیوں سندھیوں اور اردو بولنے والوں کے مابین یگانگت و بھائی چارہ برقرار رکھنا تھا۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ کراچی میں سندھ اور سندھ کے حقوق کیلئے جیلیں کاٹنے والے سید علی مختار رضوی بھی اس بورڈ میں شامل تھے۔ رئیس امروہوی سمیت اس بورٖڈ کے بنیادی اراکین ایک سال کیک لے کر سندھی قوم پرست رہنما جی ایم سید کی سالگرہ کے موقع پر ان کے آبائی گائوں جہاں وہ نظر بند تھے، بھی گئے تھے۔ پھر یہ خیر سگالی دونوں اطراف ایک عرصے تک قائم بھی رہی۔

اختر رضوی اور علی مختار رضوی جیسے اکابرین کی پوری تگ و دود اس لیے تھی کہ کسی طرح سندھ کی یہ دونوں آبادیاں ایک ہی وحدت میں پروئی رہیں۔ مہاجر حقوق کے اولین اسباق بعد میں قائم ہونے والی ایم کیو ایم کے بانی کو سید اختر رضوی نے پڑھائے تھے۔ میں نے سنا ہے کہ اس زمانے میں یہ سید اختر رضوی ہی تھے جو ایم کیو ایم کے بانی کو تقاریر کے موضوعات بتاتے اور ہدایات بھی دیتے تھے۔

سید اختر رضوی پرانے بائیں بازو کے دانشور اور مہاجر قوم پرستی کا نظریہ رکھتے تھے۔ وہ ایک ایسے لاابالی و یگانہ روزگار انسان تھے کہ ایک دفعہ ان کی بیگم ولادت کے سلسلے میں اسپتال میں داخل تھیں اور بھرے شہر کراچی میں اگر اس سندھی مہاجر اتحاد کے علمبردار کا کوئی پرسانِ حال تھا تو وہ پارسی خاتون مسز ہیپی مین والا تھیں، جنہوں نے سید اختر رضوی کی بیگم کے اسپتال کے اخراجات ادا کئے تھے۔ سید اختر رضوی ضیاء آمریت میں جیل بھی گئے تھے جہاں ان کا قیدی ساتھیوں، سندھی سیاسی قیدیوں جن میں رہنما و کارکنان دونوں شامل تھے، سے تبادلہ خیال ہوا تھا۔ وہ خیرپور جیل میں ہی تھے جب انہوں نے ایم کیو ایم کے ٹکٹ پر کراچی سے بلدیاتی انتخاب بھی جیتا تھا۔ مگر پھر ایک عرصے تک ایم کیو ایم کے جتھوں سے انہیں روپوش بھی رہنا پڑا۔ اور پھر وہ ایک عرصے تک ایم کیو ایم حقیقی میں بھی شامل رہے۔ سندھی اور اردو بولنے والوں کے حالات کیسے بھی ہوں ایک دوسرے کے مابین خیر سگالی و سندھ دھرتی کی وحدت کو قائم و دائم رکھنے کی کوششوں اور اس کے خلاف سازشیں ناکام کرنے کی جدوجہد کی ایک بڑی تاریخ ہے۔

سب سے پہلے اردو بولنے والوں کی بڑی تعداد انیس سو تیس، چالیس کی دہائی میں کراچی آئی تھی جب بہار میں قحط اور پھر فسادات ہوئے تھے۔ نیز جی ایم سید اور ان کے ساتھیوں نے جو اس وقت آل انڈیا مسلم لیگ میں تھے، بہار کے بہاریوں سے کراچی میں آباد ہونے کی اپیل کی تھی۔ کراچی میں اردو بولنے والوں کی پہلی بستی بہار کالونی قائم ہوئی تھی۔ نور محمد ہائی اسکول و دیگر تعلیمی اداروں میں اردو پڑھانے کیلئے ہندوستان سے اچھے اساتذہ تقسیم سے قبل بلائے گئے تھے جن میں فہمیدہ ریاض کے والد بھی شامل تھے۔ نور محمد ہائی اسکول میں پڑھانے والے ایک اچھے استاد وصی مظہر ندوی تھے۔ فہمیدہ ریاض اور وصی مظہر ندوی سے جب میں ملا ہم نے سندھی میں بات کی۔ اسی طرح لاڑکانہ کالج میں اردو کے استاد اور میرے پیارے دوست اور صحافی اویس توحید کے ابا پروفیسر توحید صدیقی صاحب۔ اویس کے بڑے بھائی تعلیم دان سابق کمانڈر نجیب انجم صاحب بھی جب مجھ سے ملے تو انہوں نے لاڑکانوی پختہ سندھی میں بات کی اور یہی وصی مظہر ندوی تھے جنہوں نے جب کراچی کو سندھ سے الگ وفاقی کنٹرول میں دیا گیا تھا تو اس کے خلاف ایک پمفلٹ لکھ کر تقسیم کیا تھا۔ وہ وقت بھی سندھ پر آیا جب جنوبی ایشیا کی تاریخ کے بدترین لسانی فسادات ہوئے۔ وہ بھی بیسویں صدی کی آخری دہائیوں میں۔ یہ تاریخی بدقسمتی ہے کہ ایک صوبے کے باسی اور فطری اتحادی ہونے کے باوجود اردو بولنے والوں کی پارٹیاں مرکز میں غیر فطری اتحادی بنی رہیں اور سندھی بولنے والوں کی فطری اتحادی ہونے کے باوجود اُن سے بنا کر نہ رکھی۔ یہ پاکستان میں بسنے والی اصلی بنیادی قومیتوں کی تحاریک اور جمہوری لہروں کو روکنے میں طاقتوروں کا آلہ کار بنی رہیں اور اب بھی یہ ہو رہا ہے۔ جب سے ضیاء الحق نے کراچی میں اوشنیو گرافک کانفرنس میں ایم کیو ایم کو ’’پانچواں صوبہ‘‘ کہا تھا اور مشرف نے 12مئی 2007ء کو کراچی میں سیاسی مظاہرین پر فائرنگ کو ’’عوامی طاقت کا مظاہرہ‘‘ کہا تھا، اور اب عمران خان نے ان کو ’’نفیس لوگ‘‘ قرار دیا ہے، تب سے سندھ ایک بار پھر ’’آدھا تمہارا، آدھا ہمارا‘‘ کے ری سائیکلڈ نعرے کے نرغے میں ہے۔ حالانکہ اُن میں سے اکثر وہ لوگ ہیں جو سندھ کے نقشہ پر زیریں بالائی سندھ کے شہر تک نہیں بتا سکتے۔ سندھ جو کبھی گجرات سے کشمیر تک تھا، نفیس لوگ اسے نازک دور میں لے آئے اور کمی ہم سندھیوں میں بھی نہیں۔ یہ کہنا کہ ’’آگے سمندر ہے، سندھ میں رہنا ہے تو سندھی بن کر رہو‘‘ سندھ کی اکائی کو پراگندہ کرنے کے غیر فطری سازشی عمل کو اور تیز کرے گا جس کا فوکس فقط سندھ سے اسلام آبادکی اٹھارہویں ترمیم سمیت سیاسی چیلنجز سے نمٹناہے۔ سندھ میں ایسے ہی گزارا ہو سکتا ہے جب دونوں کے اصلی مینڈیٹ کا احترام کیا جائے: بقول شاعر

رات کے مسافر سے کوئی جا کے یہ کہہ دے

روشنی نہیں ہوتی اپنا گھر جلانے سے


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *