پاکستان ایک ناقابل تردید حقیقت ہے۔ ہمارے آباؤ اجداد نے بڑی قربانیاں دے کر اس خطہ پاک کو حاصل کیا ہے۔ آج بھی دادا جان قیام پاکستان کی ہولناک داستانیں سناتے ہیں تو دل کانپ اٹھتا ہے۔ انسانی تاریخ کی شاید سب سے بڑی خونی ہجرت تھی۔ دادا جان کو آج بھی تقسیم برصغیر کے واقعات ازبر ہیں۔ ایسے معلوم ہوتا ہے جیسے کل کی بات ہو۔ ہمارے خاندان سمیت ایسے لاکھوں خاندان اس وطن عزیز میں بستے ہیں، جن کے پیاروں کی گردنیں راستے میں ہی کاٹ دی گئی تھیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی تشویشناک ہے مگر پاکستان نے بھارتی پائلٹ کو واپس کر کے امن کی کوشش کو ایک اور موقع دیا ہے۔ اگر آج وزیراعظم پاکستان عمران خان کے اس اقدام کو نہ سراہا گیا تو بہت زیادتی ہو گی کیونکہ جو بھی وزیراعظم خطے میں دائمی امن کے لئے اقدامات کرے، ہمیں اس کو پوری طرح سپورٹ کرنا چاہئے۔ ماضی کے چند تلخ حقائق بھی البتہ گوش گزار کرنا چاہتا ہوں۔ سابق وزیراعظم نوازشریف نے جب بھارتی وزیراعظم کو لاہور آمد کی دعوت دی تو انہیں غدار قرار دیا گیا حالانکہ انہوں نے ہمیشہ کوشش کی کہ بھارت سمیت تمام ہمسایہ ممالک سے خوش گوار تعلقات استوار ہوں تاکہ پاکستان کی پھلتی پھولتی معیشت جنوبی ایشاء کی مضبوط ترین معیشت بن جائے۔ دنیا میں درجنوں سربراہان مملکت ایسے ہیں جو خودکو نوازشریف کا ذاتی دوست بتاتے ہیں اور شاید نوازشریف کو یاد بھی نہ ہوکہ وہ کون کون سے سربراہان ہیں۔ بھارتی جارحیت پر جس ترکی کے صدر طیب اردوان کی مذمت پر ہم خوشی سے نڈھا ل ہیں، اس طیب اردوگان کی بیٹی کے نکاح میں نوازشریف گواہ ہے۔ بھارت سے حالیہ کشیدگی میں جب ہم امریکہ اور برطانیہ کی طرف دیکھ رہے تھے کہ وہ کوئی پل کا کردار ادا کریں، ہمارے پاس ایسا کوئی صاحب اقتدار رہنما نہیں تھا، جو بھارت سمیت ہمسایہ ممالک کے سربراہان سے براہ راست بات کر کے اپنا اخلاقی وزن ڈالتا۔ بہرحال حالیہ صورتحال میں پاکستان کی مسلح افواج نے ہمارا بھرم برقرار رکھا۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان کا یہ بھرم قائم رہے۔ بھارتی وزیراعظم اقتدار کی ہوس اور اپنے الیکشن کی وجہ سے پورے برصغیر کا امن خراب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مگر پائلٹ واپس کرکے جو قدم موجودہ حکومت نے اٹھایا ہے۔ اس سلسلے کو آگے بڑھانا چاہئے۔ پائلٹ کی واپسی ایک مدبرانہ فیصلہ تھا۔

آج ہمیں سنجیدگی سے غور کرنا ہو گا کہ یورپی یونین کے طرز کا خواب برصغیر میں بھی شرمندہ تعبیر ہو جائے کیونکہ یہی وہ خطہ تھا جہاں 800سال تک ہندو اور مسلمان ذات پات کے فرق سے آزاد ایک دوسرے کے ہمسائے بن کر رہے۔ ہم خوش نصیب ہیں کہ ہمیں پاکستان جیسا خوبصورت ملک عطا ہوا۔ ایک ایسا ملک جس نے اس ملک کے باسیوں کو ایک شناخت بخشی۔ فرقہ وارانہ سوچ اپنی جگہ کہ موہن داس کرم چند گاندھی نے بھی اعتراض داغ دیا کہ اپنا مذہب بدلنے والے کیسے ایک نئے ملک کا تقاضا کر سکتے ہیں مگر پاکستان ایک زندہ و جاوید حقیقت ہے۔ اگرچہ گزشتہ ستر سال میں اس خطے نے جنگ کی غارت گری، دہشت گردی اور بد اعتمادی سبھی کچھ دیکھا۔ بحرانوں کا سامنا کیا، مگر اپنے وجود پر کوئی آنچ نہیں آنے دی۔ برصغیر کے مسلمانوں کی بدقسمتی رہی کہ ایک طویل عرصے تک ساتھ رہنے والے ہمسایہ ممالک پاکستان اور بھارت کے تعلقات مثالی ڈگر پر نہ چل سکے۔ 1998میں تعلقات کی نئی بنیادیں استوار کرنےکا آغاز تو کیا گیا مگر ایک آمر نے ساری کوششوں پر پانی پھیر دیا۔ متعدد مذاکراتی دور ہوئے، سارک کانفرنسیں ہوئیں مگر پاک بھارت تعلقات 1998کی سطح پر واپس نہ لوٹ سکے۔ 2013میں امن کی سوچ رکھنے والے محب وطن پاکستانیوں کے دل میں امید جاگی کہ شاید اب تعلقات بہتر ہو جائیں گے مگر حالات کا جبر کہئے یا قسمت کی ستم ظریفی کہ نریندر مودی کی صورت میں ایک انتہا پسند حکمراں بھارت کا پردھان منتری بن کر سامنے آیا۔ آج بھی سرحد کے دونوں طرف صاحب الرائے یہ محسوس کرتے رہے کہ ہماری بقا امن میں ہے جنگ میں نہیں کیونکہ جنگ ہمیشہ امن پر ہی اختتام پذیر ہوتی ہے۔ یہ ہماری تہذیب کا حصہ رہا ہے کہ پڑوسیوں کے ساتھ اچھے تعلقات رکھے جائیں اور ہمارا دین اسلام بھی اسی کا درس دیتا ہے۔ سرحدوں کے دونوں طرف رہنے والوں کو آپس میں محبت اور صلح صفائی سے رہنا چاہئے۔ جنگ سے مکمل اجتناب کرنا چاہئے لیکن اگر دشمن پھر بھی لڑنے کے لئے بضد ہو تو پھر اسے پاک فضائیہ کے لہجے میں جواب دینا چاہئے، کسی شاعر نے کہا تھا نا کہ

ضمانت اپنے علاقوں کی نہتے لوگ ہوتے ہیں


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *