شہباز کرے پرواز

یہ تاثر عام تھا کہ شہباز شریف اسٹیبلشمنٹ کے منظورِ نظر ہیں، ان کے خلاف کوئی انتقامی کارروائی نہیں ہوسکتی۔ وزارت عظمیٰ کی خاطر بڑے بھائی کی پیٹھ میں بھی چھرا گھونپ سکتے ہیں، وقت آنے پر اگر مسلم لیگ (ن) کو ٹیک اوور کرنا پڑا تو بغیر کسی تاخیر کے کر گزریں گے، عمومی تاثر تھا کہ پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ کمزور اعصاب کے مالک ہیں، کسی بھی آزمائش کا خندہ پیشانی سے مقابلہ نہیں کرسکتے، اس لئے آزمائشی حالات سے بچنے کے لئے اداروں سے بنا کر رکھتے ہیں۔ مگر گزشتہ چند ماہ کے دوران یہ سب تھیوریاں یکسر غلط ثابت ہوئی ہیں۔ منظورِ نظر افراد 129دن عقوبت خانے میں نہیں گزارتے، اگر بھائی کے اعتماد کو ٹھیس پہنچانا ہی مقصد ہوتا تو شاید نیب کے عقوبت خانے میں 2ماہ سے زائد وقت نہ گزارتے۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ شہباز شریف نے جس ثابت قدمی اور حوصلے سے سیاسی قید کاٹی ہے، ملکی تاریخ میں اس کی نظیر کم ملتی ہے۔ بہت سے بیوروکریٹس اور سیاستدانوں کی متفقہ رائے تھی کہ شہباز شریف بہت اچھے ایڈمنسٹریٹر ہیں مگر انہیں یہ توقع نہیں تھی کہ شہباز شریف انتقامی کارروائیوں کا بھی ڈٹ کر مقابلہ کرسکتے ہیں۔ گزشتہ چار ماہ کے دوران شہباز شریف کا ایک مختلف چہرہ سامنے آیا ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ گزشتہ چار ماہ نے شہبا ز شریف کو ایڈمنسٹریٹر سے ایک لیڈر بنایا ہے۔ شہباز شریف ا ن چار ماہ کے دوران کشید ہوکر نکلے ہیں۔

مسلم لیگ (ن) کے صدر کی ضمانت پر رہائی کے فیصلے کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو یہ ایک حقیقت ہے کہ شہباز شریف کی نیب کے دونوں کیسز میں ضمانت میڈیکل گراؤنڈ کے بجائے میرٹ پر ہوئی ہے۔ کسی بھی سیاست دان کے لئے یہ بہت بڑی کامیابی ہوتی ہے کہ سیاسی بنیادوں پر بنائے گئے ٹارگٹڈ مقدمات میں بھی ضمانت کیس کے میرٹ پر بحث کرکے مل جائے اور اسے میڈیکل گراؤنڈ کا سہارا نہ لینا پڑے۔ کیونکہ جو مقدمات سیاسی طور پر نشانہ بنانے کے لئے بنائے جاتے ہیں، اس میں حکومت وقت انصاف کے تقاضوں کو پس پشت ڈال دیتی ہے۔ خود ہی مدعی ہوتی ہے اور خود ہی پراسیکیوشن کرتی ہے اور خود ہی ثبوت فراہم کررہی ہوتی ہے۔ ایسے میں بہت مشکل ہوتا ہے کہ کیس کے میرٹ پر بحث کرکے ضمانت حاصل کی جائے۔ شہباز شریف کی میڈیکل گراؤنڈ کے بغیر ضمانت نے ناقدین کے منہ بھی بند کردئیے ہیں۔ آج وہ بھی پراسرار خاموشی کے ساتھ منہ میں انگلیاں دبائے بیٹھے ہیں، جو دعویٰ کیا کرتے تھے کہ آج تک کسی سیاستدان کی میڈیکل گراؤنڈ کے علاوہ ضمانت ہی نہیں ہوئی۔ شیخ رشید سمیت ایسے سیاستدان، نامناسب زبان استعمال کرنا جن کا شیوہ بن چکا ہے، انہیں اب اخلاقیات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اپنے الفاظ واپس لینے چاہئیں۔ مضبوط سیاسی اقدار تقاضا کرتی ہیں کہ شہباز شریف جیسے محنتی اور دیانتدار سیاستدانو ں کی داد رسی کرکے ان کا حوصلہ بڑھانا چاہئے۔ وگرنہ وہ وقت دور نہیں جب اس ملک میں کوئی بھی کام نہیں کرے گا۔ ویسے تو اب وہ وقت آہی چکا ہے کہ پاکستان کے زرخیز دماغ یہ سمجھ چکے ہیں کہ ’’اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا‘‘۔ شہباز شریف کے ساتھ ہونے والے سلوک کو دیکھ کر سرکاری افسران نے بالکل کام چھوڑ دیا ہے کیونکہ جنہوں نے پنجاب کے معمار کو نہیں بخشا، ان کے سامنے ایک گریڈ 22کے کمزور سرکاری افسر کی کیا وقعت ہے۔ یہاں ایک معاملے کی وضاحت ضروری ہے کہ نوازشریف کی ضمانت کا معاملہ بالکل مختلف ہے، انہیں سزا ہوچکی ہے اور نیب کے سزایافتہ افرا د کی ضمانت کے لئے سپریم کورٹ اپنے ایک حالیہ فیصلے میں اصول طے کرچکی ہے۔ سابق وزیراعظم نوازشریف کی ضمانت کیس میں مجبوری ہے کہ ضمانت کی درخواست کے دوران کیس کا میرٹ زیر بحث لانے پر سپریم کورٹ کا فیصلہ آچکا ہے اور سپریم کورٹ قرار دے چکی ہے کہ نیب کے سزایافتہ ملزم کی ضمانت کے لئے غیر معمولی حالات کا ہونا ضروری ہے۔ اس لئے نوازشریف کے کیس میں میڈیکل گراؤنڈ پر ضمانت کی درخواست کی گئی ہے تاکہ عدالت میں غیر معمولی حالات کو ثابت کیا جائے اور سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں ضمانت کے حصول میں آسانی ہو سکے۔

بہرحال شہباز شریف کی ضمانت کے بعد عوامی جذبات میں ایک خوشگوار تبدیلی نظر آرہی ہے۔ لوگوں کا ڈر اور خوف کم ہوا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ چار ماہ پہلے شہباز شریف کی یہی گرفتاری ملکی معیشت کو تقریباً 1500ارب روپے سے زائد میں پڑی تھی، اسٹاک مارکیٹ کریش کرگئی تھی، ڈالر ایک رات میں ہی 5سے8روپے تک بڑھ گیا تھا۔ مگر گزشتہ دو دنوں سے سرمایہ دار کافی حوصلہ مند نظر آرہے ہیں۔ بے یقینی اور مایوسی کی کیفیت میں بہت تیزی سے کمی آئی ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ شہباز شریف جیسے قابل منتظم کی رہائی سے اعتماد کی فضا پیدا ہوگی۔ حکومت اور اداروں کے حوالے سے قائم طویل سیاسی کشیدگی میں کمی آئے گی۔ یہ صرف شہباز شریف کی ضمانت نہیں ہوئی بلکہ سیاسی اور اقتصادی بے یقینی کے خاتمے کا باقاعدہ آغاز ہوا ہے۔ جس کا اختتام سابق وزیراعظم نوازشریف کی رہائی پر ہوگا۔ ایسے اقدامات سے عوام کا اداروں پر اعتماد بڑھے گا۔ ٹریک سے اترا ہو ا پاکستان دوبارہ ٹریک پر چڑھنے کے قابل بنے گا۔ اب ہم سب کو مل کر سیاسی انتقام اور پرانے اسکور سیٹل کرنے کے بجائے پاکستان کاسوچنا ہوگا۔ وگرنہ یہ ملک ہاتھ سے نکل جائے گا اور ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ پاکستان ہے تو ہم ہیں وگرنہ کچھ بھی نہیں ہے۔


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *