پنجاب کیوں مایوس ہے؟

امین صاحب اب بہت بوڑھے ہوچکے ہیں۔ ہمارے دادا جان کے ساتھ ہی امین صاحب ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان آگئے تھے۔ دوران ہجرت امین صاحب کے والدین وعزیز و اقارب جس ٹرین میں سوار تھے ،بدقسمتی سے امرتسر کے قریب وہ پوری بوگی ہی کٹ گئی تھی۔پاکستان آکر امین صاحب بھی دادا جان کے ہمراہ ڈیرہ غازی خان آگئے اور یوں دادا جان نے اپنی تمام زمینوں کی نگرانی امین صاحب کو سونپ دی۔حال ہی میں اپنے اور وزیراعلیٰ پنجاب کے آبائی شہر ڈیرہ غازی خان جانے کا اتفاق ہوا تو ایک دن زمینوں پر امین صاحب کے ساتھ بھی وقت گزارنے کا موقع ملا۔کسی دور میں امین صاحب کے پاس پرانا اینا لاگ ریڈیو ہوا کرتا تھا ،مگر بینائی کی کمزوری کی وجہ سے اب وہ اس سے بھی محروم ہوچکے ہیں۔کہنے لگے کہ کوئی شہباز شریف کو سمجھاتا ہی نہیں ہے ،اچانک ہر چیز خراب ہوگئی ہے،شہر سے خبر پہنچی ہے کہ ڈیرہ غازی خان میں ایک ہفتے کے دوران پانچ قتل ہوئے ہیں۔ دیہات میں مغرب کے بعد کوئی باہر نہیں نکل سکتا ۔تین چار ماہ ہوئے ہیں ،پنجاب پر سے شہباز شریف کی توجہ ختم ہوگئی ہے ۔بزرگ امین صاحب کی بات مکمل ہوئی تو خاکسار نے انتہائی آرام سے کہا کہ جی اب شہباز شریف پنجاب کا وزیراعلیٰ نہیں رہا۔میری بات سن کر امین صاحب مایوس چہرے کے ساتھ اٹھے اور اپنی چارپائی پر جاکر لیٹ گئے۔

پنجاب منی پاکستان ہے۔مگر اس سے پہلے پنجاب کبھی یتیم نہیں ہوا تھا۔ گزشتہ ہفتے معروف قانون دان ایس ایم ظفر صاحب کی پوتی اور بیرسٹر علی ظفر کی بیٹی کی شادی میں شرکت کے لئے لاہور جانا ہوا۔چیف جسٹس آف پاکستان سے لے کر بیوروکریسی و سیاست کے بڑے بڑے نام شادی میں شریک تھے۔پنجاب حکومت کے ایک وزیر مجھ سے کہنے لگے کہ میرا باس کون ہے؟ہم انتظامی طور پر مکمل ناکام ہوچکے ہیں۔شہباز شریف سے لاکھ اختلاف کیا جاسکتا ہے مگر پنجاب کو میاں شہباز سے بہتر کوئی نہیں چلا سکتا۔ایک بینکر کہنے لگے کہ شہباز شریف کے قرضوں کی واپسی کے حوالے سے نیشنل بینک کے دو خط سامنے آئے ہیں۔مجھے ان خطوط کے مستند ہونے پر شک ہوا تو میں نے خودایک بینک افسر سے تصدیق کی۔کہنے لگے کہ میری بینکنگ کی تاریخ میں یہ پہلی مثال ہے کہ ایک شخص پنجاب کا وزیر اعلیٰ ہو ،بھائی اس کا وزیراعظم ہو ،قریبی عزیز وزیرخزانہ ہو ۔مگر اس سب کے باوجود وہ پانچ ارب سے زائد کا قرضہ مارک اپ و دیگر چارجز سمیت واپس کرے ۔اسی طرح تحریک انصاف و مسلم لیگ ق کے دوست لاہور میٹرو بس کی لاگت کو 70ارب روپے بتاتے تھے۔آج وزیراعلیٰ پنجاب تحریک انصاف سے ہیں جبکہ اسپیکر پنجاب اسمبلی مسلم لیگ ق کے ہیں۔انہی کی اسمبلی میں تحریک انصاف نے رپورٹ جمع کروائی ہے کہ لاہور میٹرو بس پر تقریبا30ارب روپے لاگت آئی ہے، گزشتہ ہفتے تحریک انصاف نے ہی پنجاب اسمبلی میں جواب جمع کرایا ہے کہ شہباز شریف نے اپنے دور میں چالیس سے زائد بیرون ملک دورے کئے۔تمام دوروں کے اخراجات وہ اپنی جیب سے ادا کرتے تھے۔جبکہ گزشتہ ہفتے تو چیف جسٹس آف پاکستان نے بھی اعتراف کیا ہے کہ اورنج لائن لاہور کے لئے کسی تحفہ سے کم نہیں ہے۔

مگر ترقی پذیر معاشروں کی بدقسمتی رہی ہے کہ یہاں پر عقلمند شخص کو بیوقوف سمجھا جاتا ہے اور ہر غیرمعمولی صلاحیتوں کے حامل شخص کو ہدف تنقید بنایا جاتا ہے۔سب سے پہلے کہا گیاکہ پنجاب میں کرپشن کے بڑے بڑے اسکینڈل دفن ہیں،مگر تبدیلی کی حکومت چھ ماہ میں لاہور میٹرو کی اصل لاگت اور شہباز شریف کے بیرونی دوروں کی تفصیلات جیسے حقائق کے سوا کچھ نہیں نکال سکی۔پھر کہا گیا کہ وہ طاقتور قوتوں کے پسندیدہ ہیں۔ ان کی گرفتاری کے بعدوہی لوگ کہنے لگے کہ شہباز شریف کو نوازشریف سے وفاداری کی سزا مل رہی ہے۔دس ضرب دس کے کمرے میں 63دن کا ریمانڈ گزارا،احتساب عدالت کی پیشی کے موقع پر دو،تین دفعہ شدید دھکم پیل کی وجہ سے ریڑھ کی ہڈی متاثر ہوئی۔

شہباز شریف نے رضاکارانہ طور پر کہا تھا کہ اگر حکومت انہیں چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی بنانے پر راضی نہیں ہے تو مسلم لیگ ن سے کسی اور کو بنادیں تو انہیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا ۔مگرسینئر رہنماؤں کی رائے تھی کہ نیب انکوائری کے باوجود ایک شخص وزیراعظم بن سکتا ہے اور آپ اس انکوائری کے ہوتے ہوئے چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کیوں نہیں بن سکتے۔اسی طرح شہباز شریف اور رانا ثنااللہ سابق وزیراعظم نوازشریف سے ملنے جیل گئے تو شہباز شریف کی رائے تھی کہ پارٹی کے کسی قابل اعتماد ساتھی کو پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلا ف بنا دیا جائے ۔مگر نوازشریف صاحب نے حتمی رائے دی کہ اگر پارٹی کو پنجاب میں متحد رکھنا ہے تو پھر حمزہ کے علاوہ کسی کو اپوزیشن لیڈر مت بنائیں۔آج رانا ثنااللہ سمیت مسلم لیگ ن کے سینئر رہنماجو جمہوریت کے داعی ہیں۔ شہبا ز شریف کی حالیہ حکمت عملی سے متفق نظر آتے ہیں۔اگر شہباز شریف کو اقتدار کی ہوس ہوتی تواپنے بھائی کے کہنے کے باوجود تین سے زائد مرتبہ وزارت عظمیٰ کی کرسی لینےسے انکار نہ کرتے ۔بلکہ عام انتخابات سے قبل ہونے والی اہم میٹنگز میں نوازشریف سے زیادہ وزارت عظمیٰ کی کرسی کو اہمیت دیتے۔مگر شہباز شریف نے ہر میٹنگ کے اختتام پر برملا کہا کہ” میری رائے مختلف ہوسکتی ہے مگر میری سیاست نوازشریف کے دم سے ہے ،میں بھائی جان کے بغیر سیاست کا تصور بھی نہیں کرسکتا” دونوں بھائیوں میں دراڑ کی کوشش ڈالنے والے بھول جاتے ہیںکہ شہباز شریف اور نوازشریف دو جسم اور ایک جان ہیں۔آج بھی کوٹ لکھپت جیل کی سختیوں کے باوجود ملاقاتیوں سے پوچھتے ہیں کہ “شہباز صاحب دی طبیعت کیسی اے”۔

میری اطلاعات کے مطابق شہباز شریف اپنی صحت کی وجہ سے انتہائی اذیت سے گزر رہے ہیں۔ گزشتہ چار ماہ سے شہباز شریف کی سوئمنگ بھی چھوٹ گئی ہے،جس کی وجہ سے ریڑھ کی ہڈی کی تکلیف شدید ہوگئی ہے،شہباز شریف کی عادت ہے کہ وہ اپنے درد اور آزمائش کی تشہیر نہیں کرتے۔مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ ان دنوں شدید آزمائش کا شکار ہیں ۔


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *